Skip to content

1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی

Syed Abul A'la Maududi (1903 – 1979)

1946  کے انتخابات  کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت اسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ ذیل میں ہم وہ مضمون اور اس کا جواب جوں کا توں نقل کر رہے ہیں۔

۔ مدیر ترجمان القرآن

کچھ دنوں سے اخبارات میں مولانا مودودی صاحب کے اس مضمون کا تذکرہ ہورہا ہے، جو ایک سوال کے جواب میں سہ روزہ ’’کوثر‘‘ مورخہ 28؍ اکتوبر 1945ء کے صفحہ 3 پر شائع ہوا ہے۔ مولانا نے انتخابات کی شرکت اور رائے دہی کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ووٹ اور الیکشن کے معاملہ میں ہماری پوزیشن کو صاف صاف ذہن نشین کر لیجیے۔ پیش آمدہ انتخابات یا آئندہ آنے والے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہو،اور ان کا جیسا کچھ بھی اثر ہماری قوم یا ملک پر پڑتا ہو،بہرحال ایک بااصول جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ ناممکن ہے، کہ کسی وقتی مصلحت کی بنا پر، ہم ان اصولوں کی قربانی گوارا کر لیں جن پر ہم ایمان لائے ہیں۔ موجودہ نظام کے خلاف ہماری لڑائی ہی اس بنیاد پر ہے،کہ یہ نظام حاکمیت جمہور پر قائم ہوا ہے،اور جمہور جس پارلیمنٹ یا اسمبلی کو منتخب کریں، یہ اس کو قانون بنانے کا غیر مشروط حق دیتا ہے، جس کے لیے کوئی بالاتر سند اس کو تسلیم نہیں ہے۔ بخلاف اس کے ہمارے عقیدئہ توحید کا بنیادی تقاضا یہ ہے، کہ حاکمیت جمہور کی نہیں، بلکہ خدا کی ہو، اور آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے، اور قانون سازی جو کچھ بھی ہو، کتاب الٰہی کے ما تحت ہونہ کہ اس سے بے نیاز۔‘‘

دور حاضر کےعلماء حضرات، کانگریسی ہوں، یا احراری، بریلوی ہوں، یا دیو بندی، مختلف سیاسی نظریات رکھنے کے باوجود اسمبلیوں کے اشتراک وانسلاک میں متفق العمل ہیں۔ صاف انکار اور بائیکاٹ کی آواز پٹھان کوٹ کے سوا کہیں سے نہیں اُٹھی اور وہ بھی اب تک محض ایک انکار ہے۔ ایک مسئلہ کی حیثیت سے یہ معاملہ تشنہ بحث ہے۔ سطور ذیل میں اجمالی طور پر اپنے تاثرات پیش کرتا ہوں ممکن ہے اہلِ علم اصحاب کی توجہ سے اس کے جزئیات دلیل وبرہان کے ساتھ مزید روشنی میں آجائیں۔

اگر ممبران اسمبلی کو قانون سازی کا غیر مشروط حق حاصل ہے، تو اس حق کا غیر مشروط ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے،کہ یہ لوگ صحیح قانون مرتّب کرنے میں آزاد ہیں۔ یعنی ان کو یہ اختیار حاصل ہوگا، کہ ایسا قانون مرتّب کریں جس میں ’’آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے، اور قانون سازی جو کچھ بھی ہو،کتاب الٰہی کے ماتحت ہو، نہ کہ اس سے بے نیاز۔‘‘کیونکہ آخر زمین کے منہ پر خدا کے بندوں ہی کو خدائی قانون کی ذمّہ داریوں کو انجام دینا ہے۔ اگر حکم واختیار نیک بندوں کے ہاتھ میں آئیگا، تو یقینا خدا کی زمین پر نیکی کی اشاعت ہوگی‘ اور برائی مٹتی جائے گی۔اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ الحج 41🕙یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔

لہٰذا اس مقصد اعلیٰ کے حاصل کرنے کے لیے ایجابی پہلو تو یہ ہوا کہ ایسے لوگوں کے منتخب ہونے کی کوشش کی جائے،جن پر رضائے الٰہی کے ماتحت کام کرنے کا گمان غالب ہو، اور سلبی پہلو یہ رہا کہ ایسے لوگوں کے اختیار واقتدار میں شدید مزاحمت کی جائے،جن کی نسبت اس کے برعکس چلنے کا خیال ہو۔ علیحدگی، بائیکاٹ اور تعطل کا جواز کسی صورت میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ اگر نیک لوگوں کے بر سر اقتدار آنے میں تعاون نہ کیا جائے، تو تعاون علی البر کے خلاف ہے، اور اگر خالی چھوڑ کر بروں کو موقع دے دیا جائے، تو سکوت عنِ الحق کا جرم ثابت۔

ہاں اگر موجودہ جماعتوں میں کوئی جماعت تعاون کی مستحق اور اہل نہیں، تو جماعت اسلامی کو میدان میں آنا چاہئے، تاکہ یہ لوگ’’اپنا سارا زور اس اصول کے منوانے میں صرف کر دیں کہ حاکمیت صرف خدا کی ہوا اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہو۔‘‘ تا ہم اس سارے زور کے لیے بائیکاٹ اور تجَّنب کا میدان تلاش کرنا یقینا وضاحت طلب ہے۔

اگر ہر معاملہ کو وقتی قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے علیحدہ رہنے کی تلقین کر دی جائے، تو ایک ایسی دنیا مسلمانوں کے آباد ہونے کے لیے تلاش کرنی پڑے گی،جو اس لیل ونہار اور وقت وزمان کی قیود سے ماورا ہو۔ نیز یہ بھی خیال کرنا پڑے گا کہ کیا اسلامی نظام کی ہمہ گیری اس سے قاصر ہے، کہ وقتی مسائل کو اپنے ابدی وازلی قوانین کے ماتحت حل کر سکے۔ علیحدگی کسی صورت میں بھی اس مسئلہ کا حل نہیں کہلا سکتی۔ یا اس نظام کے ساتھ منع ومزاحمت کا معاملہ ہو‘ یا قبول واذعان کا تعلق‘ اگر پوری مزاحمت ناممکن بھی ہو، تو بھی مسلمان حتی الامکان کام کرنے کے لیے مجبور ہے۔

اس سلسلہ میں اکثر اضطرار واختیار کی بحث پیش آتی ہے۔ سواس کی نسبت عرض ہے،کہ محترم مولانا مودودی صاحب نے اپنی اکثر تحریروں میں اظہار افسوس کرتے ہوئے بالوضاحت لکھا ہے، کہ بدقسمتی سے اس وقت ہندستان میں ایسی کوئی جگہ نہیں، جہاں اسلامی قانون بغیر کسی منع ومزاحمت کے نافذ ہو۔ واقعی موجودہ حکومت کے ما تحت رہتے ہوئے، اور اس قانون وتمدّن میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہ ہے بھی ناممکن کہ ہم اپنی تمام قوّتوں اور مال واملاک کو نظام باطل کا آلہ کار بننے سے محفوظ رکھ سکیں۔ اور ہندستان کے وسیع وعریض بر اعظم میں زمین کا ایک انچ بھر ٹکرا ایسا تلاش کر سکیں جو اس نظام کے اثر سے مائوف نہ ہو۔ تا ہم گورد اسپور کے ضلع میں قصبہ پٹھانکوٹ کے قریب زمین کے ایک ٹکڑے کو دارالاسلام بنایا جاتا ہے، اور اس شیطانی نظام کی تمام خرابیوں کے باوجود اس کے اندر وہ دارالاسلام ہے۔ اور یہ اسی مجبوری کا نتیجہ ہے، کہ جو چیز مکمل حاصل نہ کی جا سکے اس میں سے جس قدر حاصل ہوسکے کر لی جائے۔

پھر مولانا نے دارالاسلام کے نظام کی توضیح فرماتے ہوئے اس سے رہبانیت اور قدامت پرستی کے شائبہ کو بھی رفع فرمایا ہے۔ لکھا ہے،کہ دارالاسلام کے قیام کا مقصد اکثر غلط فہم دین داروں کی طرح یہ نہیں کہ تمدّن وحضارت کی جو حالت صحابہ کرام کے زمانہ میں تھی بالکل وہی پیدا کی جائے، اور ایک مُتَحَجِّر صورت میں قائم رکھی جائے بلکہ آپ آیۂ وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللہِ وَعَدُوَّكُمْ الانفال 60:8(اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کےمقابلے کے لیےمہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کردو۔)سے استد لال کر کے قوانین طبیعی کی ہر نئی قوّت وایجاد کو شرعی قانون کے ما تحت استعمال کرنا ہی عین اسلام قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرمایا ہے کہ:
ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائریکٹر کو داروغہ ارباب نشاط یا ناشرکذب وافترا بناتی ہے۔ (رسالہ ’’دارالاسلام‘‘صفحہ 20)

اور فرمایا:
یہ طاقتیں تو تلوار کی طرح ہیں ،کہ جو اُس سے کام لے گا وہی کامیاب ہوگا،خواہ وہ ناپاک مقصد کے لیے کام لے یا پاک مقصد کے لیے۔ پاک مقصد والا اگر اپنے مقصد کی پاکی کو لیے بیٹھا رہے،اور تلوار استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے، اور اس قصور کی سزا اسے بھگتنی پڑے گی، کیونکہ اس عالمِ اسباب میں خدا کی جو سنّت ہے اسے کسی کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ (رسالہ مذکور صفحہ 20)

اب گزارش ہے، کہ اسمبلی کی غیر مشروط قانون ساز قوّت یا حکومت کے اختیار کی تلوار کا قبضہ اگر آپ جیسے صحیح الخیال اصحاب کے ہاتھ میں آنے کا موقع مل سکتا ہے ، تو اسے مسترد کر دینے اور اس سے امکانی فوائد حاصل کرنے سے باز رہنے کے لیے وجہ جواز کیا ہے؟ مزاحمت باطل اور اعلائے حق کے مصائب سے عمداً کنارہ کش ہوکر گوشۂ عافیت اختیار کرنے کی یہ ایک دانشمندانہ کوشش تو نہیں۔

اگر پاک جماعت اپنے پاک مقاصد کو لیے بیٹھی رہے، اور ناپاک مقاصد رکھنے والے لوگوں کے لیے عمداً جگہ چھوڑ دے اور نظام باطل کی گاڑی کے سامنے مزاحمت پیدا کرنے کے بجائے اس کے پہیّے سے اپنے آپ کو بے حس وحرکت باندھ دینا ہی دین داری اور خدمتِ اسلام یقین کرلے تو کیا اس عالمِ اسباب میں خدا کی سنّت کے مطابق اس قصور کی سزا بھگتنی نہیں پڑے گی؟

یا تو نظام باطل سے کامل بے تعلقی عملاً حاصل ہوجائے، اور مسلمان ایک خالص اسلامی ماحول پیدا کر لے،لیکن اگر یہ صورت ناممکن ہوجیسا کہ ظاہر ہے، تو پھر یہ کون سا مسلک ہے، کہ وہ تعاون تو اضطرار اًجائز رکھا جائے جس سے یہ نظام کما حقہ متمتع ہوکر دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے، اور ان صورتوں سے اختیاراً دست کشی کر لی جائے جہاں کسی قدر اسلامی مفاد بھی حاصل کرنا مقصود ہو۔ اگر اسم اور مسمی میں کسی وجہ تسمیہ کا ہونا لازم ہے، تو ایسی روش کو مسلک(چلنے کی راہ) کے بجائے بقولِ ’’کوثر‘‘ موقف(ٹھہرنے کی جگہ) کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔
’’کوثر‘‘کے اسی نمبر کے افتتاحیہ میں مولانا نصر اﷲ خان عزیز نے بھی اسی مسئلہ پر بحث فرمائی ہے،جس کے مطالعہ سے اس سلسلہ میں اور بھی اُلجھن پیدا ہوجاتی ہے، اور جمود وتعطل کا شائبہ یقین کی حد کو پہنچ جاتا ہے۔ آپ جہاد کے لیے دو شرطیں مقرر فرماتے ہیں۔ لکھا ہے:
’’اس کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بااختیار امیر کی قیادت میں ہو۔ کسی دوسرے نظامِ قاہر ومسلّط کے اندر رہتے ہوئے جہاں کسی بااختیار امیر کا وجود ناممکن ہے قتال کرنا بدامنی اور فساد ہے،جو جائز نہیں۔ ‘‘

یہ حکم مزید تو ضیح کا محتاج نہیں۔ بااختیار امیر کی قیادت کے بغیر جہاد فساد ہے، اور امیر کا وجود کسی دوسرے قاہر ومسلّط نظام کی موجودگی میں ناممکن ہے۔ (حاشیہ قدیم: یہ محض ایک خلط مبحث ہے۔مدیر کوثر نے اس موقع پر جس جہاد سے بحث کی ہے وہ جہاد بالسیف ہے نہ کہ وہ جہاد جو جدو جہد کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اس دوسری قسم کے جہاد کے لیے با اختیار امیر کی شرط کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔)

اس شرط کی صحت تسلیم کر لینے کے بعد نظام حقہ قائم ہونے کی صرف یہی صورت باقی رہ جاتی ہے،کہ قاہرو مسلّط نظام کے ارکان خود بخود مہربانی کر کے مسلمانوں پر سے اپنا قہر وتسلّط اُٹھا لیں، اور انہیں کامل آزاد ماحول میں چھوڑ کر ٹھنڈے ٹھنڈے کہیں سدھار جائیں، تاکہ مسلمانوں کو ایک بااختیار قیادت قائم کرنے کا شرعی حق حاصل ہوجائے۔ یہ علیحدہ بات ہےکہ پھر جہاد کی ضرورت رہے یا نہ رہے۔ بہرحال جہاد حلال ہونے کی شرط یہی ہے۔

اگر یہ شرعی فتویٰ کسی غیر متقی کو مشتبہ نظر آئے،تو پھر سوا اس کے چارہ کا ر نظر نہیں آتاکہ جس طرح نظام باطل کے منع ومزاحمت کے باوجود ایک غیراسلامی ماحول میں دارالاسلام قائم کرنے کی کوشش مناسب وموزوں بلکہ ضروری نظر آتی ہے، اور اس نظام کے پیدا کردہ تمام آلات وقوی سے کام لینا،عین اسلام اور کام نہ لینا ہلاکت قرار دیا جاتا ہے، وہاں اسمبلیوں سے اپنا حصّہ حاصل کرنا اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنا ہی تقاضائے عقل وانصاف ہے۔

مسلم لیگ کی پیداکردہ موجودہ فضا اس مقام پر پہنچ چکی ہے،کہ اگر دیہات کے ناخواندہ زمینداروں کے سامنے جو آج تک ذات پات کی عصبیت میں اعراب عرب سے کسی حالت میں کم نہیں تھے، ایک طرف کوئی غیر متشرع نواب ہوتا، اور دوسری طرف ایک عالم دین تو یقینا وہ عالم دین کو کامیاب کر کے چھوڑتے۔ اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھانے اور عوام کو مذہبی قیادت سے محروم رکھنے کی ذمّہ داری صرف ان لوگوں پر ہے،جو محض اپنے آرام کی خاطر علماء کو بائیکاٹ کا مشورہ دے رہے ہیں۔

یوسف علیہ السّلام نے اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضَ کا مطالبہ کر کے غیراسلامی حکومت کے ایک شعبہ کو ہاتھ میں لیا اور بہتر ین انتظام کر کے دنیا کو ہلاکت سے بچایا۔

موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون سے اَنْ اَدُّوْا اِلَیَّ عِبَادَ اﷲِ اور اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کے مسلسل مطالبات کر کے ایک غیر مہذب اور غیر صالح بھیڑ کو اسی ملک کے ایک حصّہ میں رکھ کر اصلاح وتہذیب کی کوشش کی۔

مریض کی صحت انہی اخلاط کی تبدیلی پر منحصر ہے، جو مریض کے وجود کے اندر موجود ہیں،ہمسائے کے گھر میں خواہ کسی قدر بہترین اور قیمتی ادویات کا انبار عمدہ سے عمدہ قرینہ اور ترتیب ہی سے کیوں نہ لگا دیا جائے، دوسرے گھر والا مریض صحت یاب نہیں ہوسکتا۔

 جواب (سید ابواعلیٰ مودودیؒ):

یہ مضمون دراصل متعدد مغالطوں یا غلط فہمیوں کا مجموعہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر کے یہاں ہم صرف تین بڑی اور بنیادی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
(1) صاحب مضمون کی پہلی غلط فہمی یہ ہے، کہ ’’اگر ممبران اسمبلی کو قانون سازی کا غیر مشروط حق حاصل ہے، تو اس حق کا غیر مشروط ہونا ہی اس امر کی کافی ضمانت ہے،کہ یہ لوگ صحیح قانون مرتّب کرنے میں آزاد ہیں، یعنی ان کو اختیار حاصل ہوگا کہ ایسا قانون مرتّب کریں جس میں آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے۔‘‘ بظاہر یہ بات بڑی معقول معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کی تھوڑی سی تحلیل کرنے سے ہی یہ حقیقت بآسانی کھل جاتی ہے، کہ یہ مغالطہ یا غلط فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آزادی کا ایک مفہوم یہ ہے، کہ انسان کو یا انسانوں کے کسی گروہ کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے،کہ کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ اپنا یہ اصول قرار دے، اور اس نظرئیے پر کار بند ہوکہ وہ اپنے عمل میں خود مختار ہے، اور خود اپنی خواہش اور صواب دید کے سوا کسی آسمانی ہدایت سے امرو نہی کے احکام لینے اور اپنے معاملات میں رہنمائی حاصل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ان دونوں مفہومات میں سے پہلے مفہوم کی آزادی تو انسان کی فطری مسئو لیت وذمّہ داری کی اساس ہے،جس کی بنیاد ہی پر وہ شرائع الٰہیہ کا مخاطب بنایا گیا ہے۔ یہ آزادی مومن ہونے کے لیے بھی اسی طرح ناگزیر ہے جس طرح کا فر ہونے کے لیے اسے ایمان واسلام کی راہ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کفرو معصیت کی راہ میں بھی۔ اس کو بجائے خود نہ کفر کہا جا سکتا ہے نہ ایمان۔ بلکہ یہ ایک شرط مقدم ہے، جس کے حصول کے بغیر کوئی فرد یا گروہ نہ ایمان کی راہ پر چل سکتا ہے نہ کفر کی راہ پر۔ بخلاف اس کے دوسری قسم کی آزادی قطعی طور پر ایک کا فرانہ آزادی ہے، اور کسی فرد یا قوم کا اسے بطور ایک نظریہ ومسلک کے اختیار کرنا، صر یحاً یہ معنی رکھتا ہے،کہ اُس نے ایمان کے بجائے کفر کی راہ اپنے لیے انتخاب کی ہے، کیونکہ کفر اس کے سوا کسی اور چیز کا نام ہی نہیں ہے، کہ انسان اپنے آپ کو ہدایت الٰہی سے بے نیاز قرار دے کر اپنے نظریات واعمال میں خود مختاری کا طریقہ اختیار کرے۔

اب دیکھنا یہ ہے،کہ ہندستان میں جس دستور پر حکومت خود اختیاری کا نظام اس وقت قائم کیا گیا ہے،اور جن خطوط پر آئندہ اس دستور کا نشو ونما ہورہا ہے، اس کی بنیاد آیا محض پہلی ہی قسم کی آزادی ہے، یا دوسری قسم کی آزادی بھی اس میں شامل ہے؟ جو شخص ہندستان کے موجودہ نظامِ حکومت سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے، وہ جانتا ہے،کہ یہ پورا نظام دنیوی،لادینی ریاست (secular state)کے نظر یہ پر مبنی ہے،اور اب جو اس کا مزید دستوری ارتقا ہورہا ہے اس میں بھی یہ بات اصل واساس کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے، کہ وہ اسی دنیوی لادینی ریاست کے قاعدہ پر مبنی ہوگا یعنی اس میں باشندگان ملک کو صرف یہی آزادی حاصل نہیں ہوگی کہ اپنے لیے جو دستور چاہیں اختیار کریں بلکہ اس کی بنیاد لازماً اس نظریہ پر قائم ہوگی (اور آج بھی ہے) کہ حاکمیت (sovereignty) جمہور کی ہے، اور قانون سازی میں رائے عام سے بالاتر کسی کتاب الٰہی اور ہدایت خداوندی سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بنا پر یہ پورا نظام دراصل ایک کا فرانہ نظام ہے اس کی بنیاد اسلام کی بنیاد سے متصادم ہے،اور اس کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں داخل ہونا قطعاً ایمان کے خلاف ہے۔ یہ آواز اگر صرف ’’پٹھان کوٹ‘‘ سے اُٹھی ہے، تو اس میں بے چارے ’’پٹھان کوٹ‘‘ کا کوئی قصور نہیں‘ قصور ان دوسری جگہوں کا ہے ،جہاں سے یہ اُٹھنی چاہیے تھی، مگر نہ اُٹھی۔

یہ کہنا بالکل غلط ہے، کہ ہم اس نظام کے اندر داخل ہوکر (حاشیہ: یعنی اس کی کارفرمائی و کارکنی میں شریک و حصہ دار بن کر)اس کو اسلام کی طرف پھیر لیں گے۔ اس کے اندر داخل ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے، کہ پہلے اس کے بنیادی نظرئیے کو تسلیم کیا جائے،اور اس کے بنیادی نظرئیے کو تسلیم کرنا اسلام کے بنیادی نظرئیے سے انکار کا ہم معنی ہے۔ لہٰذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، کہ باہر (حاشیہ: باہر رہنے سے مراد حکومت کی مشینری سے باہر رہنا ہے، نہ کہ اس تمدّن سے باہر نکل جانا جو اس حکومت کے تحت چل رہا ہے۔) سے اس کے خلاف لڑیں، اور اپنی تمام تر کوشش پہلے یہ اصول منوانے میں صرف کریں کہ قانون سازی کتابِ الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے، نہ کہ اس سے آزاد اور باشندگانِ ملک کی حکومتِ خود اختیاری دوسری قوموں اور ملکوں کے مقابلہ میں خود اختیاری ہونی چاہئے، نہ کہ خدا کے مقابلہ میں۔ اصولی حیثیت سے قطع نظر عملی حیثیت سے بھی یہ تدبیر قطعاً ایک غلط تدبیر ہے، کہ اس کا فرانہ نظامِ حکومت کی مجالس قانون ساز میں داخل ہوکر ہم مذکورہ بالا اصول منوانے کی کوشش کریں۔ یہ پارلی منٹری طریق کا ر صرف ان جماعتوں کے لیے مفید ہوسکتا ہے،جو اصول میں رائج الوقت نظام سے متفق ہوں ،اور صرف فروعی اصلاحات کے معاملہ میں اپنا الگ مسلک رکھتی ہوں۔ لیکن جو جماعت سرے سے اس نظام ہی کو اصولی طور پر بدل ڈالنا چاہتی ہواس کے لیے پارلیمنٹری طریق کار کسی طرح مفید نہیں ہوسکتا۔ اس کو تو لازماً انقلابی طریق کار اختیار کرنا پڑتا ہے،یعنی یہ کہ وہ رائج الوقت نظام کے خلاف عام بے چینی پیدا کرے، اور اس کو بدلنے کا ایک زبردست داعیہ باشندگان ملک میں ابھار دے،پھر وقت کے حالات کے لحاظ سے ایسی تدبیر اختیار کرے،جس سے نظامِ حکومت عملاً تبدیل ہوسکے۔

(2) دوسری غلط فہمی جس میں صاحب مضمون مبتلا ہیں،یہ ہے، کہ ان کے نزدیک اس نظام کی اصلاح اس طرح اور صرف اسی طرح ہوسکتی ہے،کہ اچھے لوگوں کو منتخب کر کے ان اسمبلیوں میں بھیجنے کی کوشش کی جائے، جو اس کافرانہ دستور پر بنائی گئی ہیں، اور چونکہ جماعت اسلامی نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا ہے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں، کہ اس جماعت نے محض علیحدگی واجتناب کا سلبی پہلو اختیار کر رکھا ہے، جس سے اصلاح تو کسی طرح نہ ہوگی البتہ اقتدار کی تلوار برے لوگوں کے ہاتھ میں جا کر،باطل کو اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ جمانے میں استعمال ہوگی۔ اس غلط فہمی میں نہ صرف صاحب مضمون مبتلا ہیں،بلکہ بکثرت لوگ اسی طرز پر سوچ رہے ہیں، اور اس کی اصل وجہ سطح بینی اور قلت فکر وتدبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ دراصل یہ حضرات اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے،کہ کروڑوں مسلمانوں کے موجود ہوتے ہوئے،موجود کافرانہ نظام اس ملک میں آخر قائم کیسے ہوگیا؟ اور کیا وجہ ہے، کہ ملک کا سارا دستوری ارتقا انہی کافرانہ اصولوں پر ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اس سوال پر اگر انہوں نے کچھ غور کیا ہوتا، تو ان پر خود یہ حقیقت منکشف ہوجاتی، کہ اس خرابی کی اصل وجہ،صرف یہ ہے، کہ مسلمانوں میں عموماً شعور اسلامی مردہ یا نیم مردہ ہوگیا ہے، ان کے اندر اسلامی دستور حیات پر چلنے اور اس کے لیے جینے اور مرنے کا ارادہ مفقود یا فقدان کی حد تک ضعیف ہے۔ اور انہوں نے ہندستان کے غیر مسلم باشندوں کو بھی صحیح نظامِ زندگی سمجھانے اور اس کی طرف دعوت دینے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کی اپنی زندگی بھی فکری،اخلاقی اور تمدّنی حیثیت سے بیشتر غیراسلامی ہوگئی ہے، اور ہندوستان کا پورا نظامِ تمدّن وسیاست بھی کافرانہ اصولوں پر قائم ہوگیا ہے۔ اب اس خرابی کا اور اس کے برے نتائج کا مدا وا کرنے کے لیے اس قسم کی تدابیر سے کچھ کام نہیں چل سکتا،کہ اس کا فرانہ نظام کی مشینری میں ہم چند نیک مومنوں کو بھجوانے کی کوشش کریں۔ تھوڑی دیر کے لیے اگر اس اصولی سوال کو نظر انداز کر بھی دیا جائے،کہ ایک نیک مومن اس مشینری کی کافرانہ بنیادوں کو تسلیم کر کے اس میں داخل ہونے پر آمادہ ہی کیسے ہوسکتا ہے، اور اگر تقیہ کے شیعی طریقہ کو اختیار کر کے چند مومن اس نظام میں داخل ہونے پر آمادہ ہوبھی جائیں، تو دیکھنا یہ ہے، کہ اس تدبیر سے حاصل کیا ہوسکتا ہے۔

جمہوری نظام میں کوئی گروہ اپنے اصول کے مطابق نظامِ حکومت کو اس وقت تک ہر گز نہیں چلا سکتا، جب تک کہ وہ حکومت کی مشینری پر قابض نہ ہو۔

حکومت کی مشینری پر قابض ہونے کے لیے ضروری ہے،کہ مجالسِ قانون ساز میں اس گروہ کو غالب اکثریت حاصل ہو۔

اس غالب اکثریت کا حصول بحالاتِ موجودہ ہندستان کے ایک بڑے حصّہ میں اہلِ ایمان کے لیے ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس وقت اسلام اس ملک میں ایک ایسی اصولی تحریک کی حیثیت نہیں رکھتا جس کے علم بردار،باشندگانِ ملک سے محض اپنے اصول کی بنا پر عام اپیل کر سکتے ہوں،اور یہ اُمید کی جا سکے کہ وہ اپنی دعوت کو مقبولِ عام بنا کر اکثریت کی تائید حاصل کر لیں گے، فی الحال تو اسلام ہندستان کی ایک ایسی قوم کا مذہب ہے، جس کی دوسری قوموں سے کش مکش ہورہی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی گروہ اس وقت خالص اسلامی اصول لے کر انتخابی مقابلہ میں اُترے گا، تو مسلمان قومیّت کے پرستاروں کی طرح اس کو بھی صرف موجودہ مسلمان قوم ہی کے ووٹوں پر انحصار کرنا پڑیگا، اور معلوم ہے، کہ یہ قوم ملک کے بڑے حصّہ میں بجائے خود اقلیت میں ہے۔

رہے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، تو اگر بالفرض وہ پاکستان کی صورت میں خود مختار ہوجائیں،اور ایک مستقل صاحب حاکمیت اسٹیٹ کی حیثیت بھی ان کو حاصل ہوجائے، تب بھی خالص اسلامی اصولوں پر جو گروہ کام کرنا چاہتا ہو، اس کے غالب اکثریت حاصل کرنے کا بحالت موجودہ وہاں بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ ان علاقوں میں اس کے اکثریت حاصل کرنے کا تمامتر انحصار مسلمانوں کی رائے عام پر ہے، اور مسلمانوں کی رائے عام اس وقت بالکل ناتربیت یافتہ ہے، اسلامی فہم وشعور سے بہت بڑی حد تک عاری ہے،اور اسلامی مقاصد کی بہ نسبت اپنی دنیوی خواہشات واغراض کے عشق میں بری طرح مبتلا ہے۔ اس رائے عام کی تائید سے کسی ایسے گروہ کا اکثریت کے ساتھ منتخب ہونا، تقریباً ناممکن ہے، جو بے لاگ طریقہ سے خالص اسلامی اصولوں پر کام کرنا چاہتا ہو۔

پھر اگر بالفرض ایسا ایک گروہ اکثریت میں منتخب ہوبھی جائے، تو جو حالات اس وقت پائے جاتے ہیں ان میں یہ ممکن نہیں ہے،کہ آزاد پاکستان کے نظام کو اسلامی دستور میں تبدیل کیا جا سکے۔ کیونکہ جنت الحمقا میں رہنے والے لوگ اپنے خوابوں میں خواہ کتنے ہی سبز باغ دیکھ رہے ہوں لیکن آزاد پاکستان (اگر فی الواقع وہ بنا بھی تو) لازماً جمہوری لادینی اسٹیٹ کے نظر یہ پر بنے گا، جس میں غیر مسلم اسی طرح برابر کے شریک حکومت ہوں گے جس طرح مسلمان، اور پاکستان میں ان کی تعداد اتنی کم اور ان کی نمائندگی کی طاقت اتنی کمزور نہ ہوگی،کہ شریعت اسلامی کو حکومت کا قانون اور قرآن کو اس جمہوری نظام کا دستور بنایا جا سکے۔ ( جدید حاشیہ: واضح رہے کہ یہ مضمون فروری1946 میں لکھا گیا تھا جب پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا تخیّل تک پیدا نہیں ہوا تھا، اور مسلم لیگ کے تجویزکردہ مسلم علاقے میں آسام بھی پورا کا پورا شامل تھا۔ اس وقت مجوزہ پاکستان کے مغربی حصہ میں 37.93 فی صدی اور مشرقی حصہ میں 48.31 فی صدی تھی۔ مزید برآں دونوں حصّوں میں غیر مسلموں کو معاشی، سیاسی، تعلیمی اور انتظامی حیثیت سے اتنی قوت حاصل تھی کہ ان کی اس تعداد اور اس طاقت کی موجودگی میں پاکستان کے اندر اسلامی ریاست کا خیال پیش کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا وہ ہندوستانی اکثریت کے علاقوں میں تھا۔درحقیقت حالات نے پلٹا اس وقت کھایا جب بنگال، آسام، اور پنجاب تینوں صوبے 1947 کے وسط میں تقسیم کر دیے گئے، اور مزید تغیُّراس وقت آیا جب عین تقسیم ہند کے موقع پر آبادیوں کا جبری تبادلہ رونما ہوا جو کسی اسکیم میں شامل نہ تھا۔ اس طرح مشرق میں مسلم آبادی کا تناسب 80 فی صدی اور مغرب میں 80 فی صد ہو گیا۔اس کے باوجود پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں جیسی جیسی دشواریاں پیش آئی ہیں ان سے اب کوئی بھی ناواقف نہیں ہے۔ )

ہم ان حقائق کو سمجھتے ہیں، اور اس بنا پر ہمارے نزدیک وہ تدابیر بالکل لاحاصل ہیں، جن سے ہمارے محترم مضمون نگار اور ان کے طرز پر سوچنے والے بہت سے مسلمان، اسلامی نظام کے قیام کی اُمیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس مقصد تک پہنچنے کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے، کہ موجودہ حالات میں ہندوستان کا سیاسی نظام جس ڈھنگ پر چل رہا ہے، اور جس راہ پر وہ آگے بڑھتا نظر آرہا ہے اس سے فی الحال ہم قطع نظر کر لیں،اور اپنی ساری قوّت اس بنیادی کام پر صرف کریں،جس کے ذریعہ سے نظامِ زندگی میں اسلامی طرز کا انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کی جو جماعتیں حقیقی صورت معاملہ کو اچھی طرح نہیں سمجھ رہی ہیں، وہ اپنے طرزِعمل میں آزاد ہیں،جس طرح وہ کام کرنا چاہیں کریں،ہم ان کے خلاف خواہ مخواہ کوئی معرکہ آرائی نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہم یہ جانتے ہیں، کہ پچھلے زمانہ کی غلطیوں کی بدولت اس وقت فوری طور پر ایسی کوئی قوّت فراہم نہیں کی جا سکتی ،جس سے واقعات کی موجودہ رفتار پر وہ کم سے کم اثر بھی ڈالا جا سکے، جو اسلام کے مقصد کے لیے مطلوب ہے۔ اس لیے ہم اس وقت کی سیاسی کارروائیوں میں دخل دینا تضیع وقت بھی سمجھتے ہیں، اور اس وجہ سے بھی اس سے احتراز کرنا ضروری سمجھتے ہیں،کہ اس وقت ہم اپنے اصول سے ہٹے بغیر سیاسی جدوجہد میں حصّہ نہیں لے سکتے۔ نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں، کہ اس وقت سیاسی معاملات کا فیصلہ خواہ کچھ ہوجائے،اور اس کے نتائج آگے چل کر خواہ کتنے ہی خوفناک نکلتے نظر آئیں،لیکن اگر ہم اس پروگرام پر ٹھیک ٹھیک عملدر آمد کرنے میں کامیاب ہوگئے، جو ہمارے پیشِ نظر ہے، تو واقعات کی رفتار بالآخر پلٹ کر رہے گی،اوران سارے نقصانات کی تلافی ہوجائے گی، جو اسوقت کے اجتناب سے ہمیں پہنچیں گے۔ ہمارا پروگرام مختصر یہ ہے:۔

(ا)مسلمانوں کے اس مخلوط انبوہ میں سے صالح اہلِ ایمان کے عنصر کو چھانٹ کر اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تربیت کے ساتھ منظم کیا جائے، اور ان کو اس کام کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ مسلم قومیّت کے بجائے خود اسلام کو ایک اصولی تحریک کی حیثیت سے لے کر اُٹھ سکیں۔

(ب)اس گروہ کے ذریعہ سے عامّۂ مسلمین میں اسلامی شعور وفہم اور اسلام اور غیر اسلام کی تمیز پیدا کی جائے، ان کی اخلاقی قدروں (moral values)کو تبدیل کر کے خالص اسلامی قدریں ان کے ذہن نشین کی جائیں،ان میں اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کا مضبوط ارادہ (موہوم اور مبہم ارادہ نہیں، بلکہ واضع اور شعوری ارادہ)پیدا کیا جائے، اور ان کی رائے عام کو اس حد تک تیار کر دیا جائے، کہ اگر جمہوری طریقوں پر ملک میں انقلاب کرنا ممکن ہو،تو خالص اسلامی طرز پر کام کرنے والی جماعت کے سوا کوئی دوسرا گروہ انہیں بیوقوف بنا کر یا ان کے سامنے غیراسلامی مقاصد پیش کر کے، ان سے ووٹ نہ حاصل کر سکے، اور اگر جمہوری طریقے قابلِ عمل نہ ہوں، تو وہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے پر آمادہ ہوجائیں۔

(ج)مسلمانوں اور غیر مسلموں کی موجودہ سیاسی کش مکش سے جو تعصّبات ہندستان کے غیر مسلموں میں پیدا ہوگئے ہیں، ان سے بالا تر ہوکر غیر مسلموں کے سامنے اسلامی نظامِ زندگی کو اوران اخلاقی بنیادوں کو جن پر یہ نظامِ زندگی قائم ہوتا ہے پیش کیا جائے،اور پوری حکمت،جانقشانی اور خالص للہیت کے ساتھ ایسے حالات پیدا کیے جائیں،جن میں یہ ممکن ہوکہ غیر مسلموں کا بھی ایک صالح عنصر اسلامی نظام کا معتقد اور اس کے قیام کا طالب ہوجائے، اور اسلامی نظام کا قیام صرف موجودہ مسلمان قوم کی رائے عام پر منحصر نہ رہے،بلکہ ان قوموں کی رائے عام بھی اس کی موید ہوجائے، جو آج غیر مسلم ہیں، اور جن کو مسلمانوں کی موجودہ قومیّت پرستانہ جنگ نے اسلام کے خلاف سخت تعصّبات میں مبتلا کر رکھا ہے۔

اس پروگرام میں جب ہم ایک قابلِ لحاظ حد تک کامیاب ہوجائیں گے،(اور ہمیں یقین ہے،کہ جس طرز پر ہم کام کر رہے ہیں، اس سے آخر کار ان شاء اﷲ ہم کو کامیابی ضرور ہوگی)تب ہم ملک کے حالات پر نظر ڈال کر دیکھیں گے،کہ آیا اس وقت یہاں جمہوریت اتنی ترقی کر چکی ہے کہ دستور حکومت میں کوئی اصولی تغیّر صرف اس بنیاد پر ہوسکتا ہے،کہ رائے عام اس تغیّر کی خواہش مند ہے؟ اگر یہ صورت ہم نے موجود پائی تو ہم وقت کے دستورِ حکومت کو تبدیل کرنے اور اسلامی اصول پر نیا دستور بنانے کا مطالبہ ملک کی رائے عام کے سامنے پیش کریں گے، اس تغیّر کے لیے اسے تیار کریں گے، اور وقت کے سیاسی نظام پر دبائو ڈالیں گے کہ وہ ایک نئی دستور ساز اسمبلی(constituent assembly) منعقد کرے جو اس امر کا فیصلہ کرے کہ ملک کا آئندہ دستور کیا ہو۔ اس اسمبلی کے الیکشن میں ہم پوری کوشش کریں گے، کہ رائے عام کی تائید سے ہم کو اکثریت حاصل ہو، اور ہم ملک کا دستور اسلامی اصولوں پر قائم کریں۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں،جو اس پروگرام کو ایک بڑا لمبا پروگرام سمجھتے ہیں،اور یہ خیال کرتے ہیں، کہ شاید اس کے پورا ہونے میں دو تین صدیاں لگ جائیں گی۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ کوئی عملی پروگرام نہیں ہے،بلکہ وہ اسے خیالی پلاوُ سمجھتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے، کہ اس پروگرام میں سارا دیر طلب کام صرف اس ابتدائی صالح گروہ کی تنظیم وتربیت کا ہے،جو اسلامی انقلاب کی ایک وسیع تحریک کا موزوں محرک بن سکے۔ ایسے ایک گروہ کی تنظیم کے بعد یہ تحریک اس طرح پھیلے گی، جیسے خشک گھاس میں آگ پھیلتی ہے۔ وقت کے تعین کی پیشین گوئی تو میں نہیں کر سکتا، لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس ابتدائی مرحلہ کے گزرنے کے بعد ہماری منزل مقصود اتنی دور نہیں رہے گی، جتنی بہت سے لوگ کام کیے بغیر صرف اپنے خیال میں دور سمجھ رہے ہیں۔ تا ہم اگر وہ دور بھی ہو، تو چونکہ منزل حق وہی ہے،اس لیے ہم اس کی طرف دوڑتے ہوئے مرجانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ جانتے بوجھتے غلط مگر آسان راہوںمیں اپنی قوّت صرف کریں، یا نادانی کے ساتھ جنت الحمقاکے حصول میں اپنی قوّت ضائع کریں۔

(3) تیسری غلط فہمی جس میں صاحب مضمون کے ساتھ بہت سے سادہ لوح مسلمان مبتلا ہیں، یہ ہے، کہ مسلم لیگ کی پیدا کردہ موجودہ فضا اس مقام پر پہنچ چکی ہے، کہ عام مسلمانوں کے ووٹوں سے صالح مومنین کا ایسا گروہ منتخب ہوکر آسکتا ہے،جو وقت کی سیاسی رفتار کو اسلامی نصب العین کی طرف پھیرنے کے قابل ہو۔ اسی بنا پر یہ حضرات کہتے ہیں کیسا نادر موقع مل رہا ہے، اور تم اسے کھوئے دیتے ہو۔ اندھے ایمان کی بات تو دوسری ہے، کہ اس میں تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور جب کوئی تحریک شورو غل اور ہنگامہ کے ساتھ طوفانی رفتار سے چل رہی ہو، تو عام طبائع میں اندھے ایمان کا رُجحان پیدا ہوہی جایا کرتا ہے،لیکن جب ہم تحقیق کی نگاہ ڈال کر اس فضا کا جائزہ لیتے ہیں،جو مسلم لیگ نے پیدا کی ہے، تو ہمیں کسی نادر تو درکنار غیر نادر موقع کا بھی نشان نہیں ملتا۔

مسلم لیگ کی تحریک کے متعلق پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ اس کے بنیادی تصوّرات،اس کا نظام ترکیبی، اس کا مزاج اور اس کی اسپرٹ، اس کا طریق کار اور اس کے مقاصد سب کچھ وہی ہیں،جو قومی اور قوم پرستانہ تحریکوں کے ہوا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے، کہ یہ مسلمانوں کی قومی تحریک ہے، اور مسلمان کی ہر چیز ’’اسلامی‘‘ بن جایا کرتی ہے، اس لیے خواہ مخواہ اسے بھی اسلامی تحریک سمجھ لیا گیا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے، کہ اسلامی تحریک اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل ایک دوسری ہی چیز ہوتی ہے،جس کا کوئی شائبہ بھی مسلم لیگ کی قومی تحریک میں نہیں پایا جاتا، اور یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے، کہ اسلام اپنے مخصوص طریق کار سے جس منزل تک پہنچنا چاہتا ہے۔ اس تک آپ ایک قوم پرستانہ تحریک کے ڈھنگ اختیار کر کے پہنچ جائیں۔ ہر منزل اپنی فطرت کے لحاظ سے اپنی ہی ایک مخصوص راہ رکھتی ہے۔ آپ اسلام کی منزل مقصود کو پہنچنا چاہیں، تو آپ کو اسلامی تحریک ہی کی مخصوص راہ کو سمجھنا اور اسے اختیار کرنا پڑے گا۔ قوم پرستی کے طریقے اختیار کر کے آپ قومیّت کی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں،مگر یہ توقع کرنا انتہائی پراگندہ خیالی ہے، کہ ان ڈھنگوں سے آپ اسلامی منزلِ مقصود پر جا پہنچیں گے۔ اس نکتہ کی توضیح کا یہاں موقع نہیں ہے۔ میں اس سے پہلے تفصیل سے بتا چکا ہوں کہ ایک اصولی تحریک اور ایک قوم پرستانہ تحریک میں کیا فرق ہوتا ہے۔ ضرورت ہو،تو پھر اس کی تشریح کر سکتا ہوں۔ یہاں میں اشارۃ صرف اتنی بات واضح کر دینا کافی سمجھتا ہوں، کہ ایک اصولی تحریک کے کارکنوں کو یہ خبر دینا کہ تمہارے لیے ایک قوم پرستانہ تحریک نے بڑے اچھے مواقع پیدا کر دئیے ہیں،کسی بصیرت اور معاملہ فہمی کا ثبوت نہیں ہے۔اس کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کسی عازم کلکتہ کو یہ خبر دی جائے کہ کراچی میل تیار کھڑا ہے۔

ان کی یہ خوش خبری کسی حد تک اگر صحیح ہوبھی سکتی تھی تو شاید اس صورت میں ہوتی،جب کہ مسلمانوں کی اس قوم پرستانہ تحریک میں کم از کم ثانوی حیثیت ہی سے مذہبیت کا پرزور اثر موجود ہوتا۔لیکن افسوس ہے،کہ یہاں اس کا بھی فقدان ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے،کہ مسلم لیگ فی الواقع مسلمانوں کو اسلام اور اس کی تہذیب اور اس کے احکام کی اطاعت سے روز بروز دور تر لیے جا رہی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عام مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے اس میں اسلام کا نام بہت لیا جاتا ہے، اور ایسی نمائشی باتیں بھی کچھ کر دی جاتی ہیں، جن سے اکابر لیگ کے گہرے جذبۂ دینی کا ثبوت بہم پہنچ جائے لیکن یہ چیزیں صرف سطح بین لوگوں کو دھوکے میں ڈال سکتی ہیں۔ حقیقت جو کچھ ہے وہ ہر صاحبِ نظر کے سامنے بالکل بے نقاب ہے۔ لیگ کی قیادت اس کی پالیسی کی تشکیل اس کے پورے نظام کی کار فرمائی‘ اور اس کی ساری قوّت محرکہ اس وقت مسلمان قوم کے ایک ایسے طبقہ کے ہاتھ میں ہے، جو زندگی کے جملہ مسائل میں دینی کے بجائے دنیوی (secular)نقطۂ نظر سے سوچنے اور کام کرنے والا ہے۔ اسلام کے بجائے مغربی اصولِ حیات کا معتقد اور مقلّد ہے، دینی تعلق کے بجائے قومیّت کے تعلق کی بناء پر مسلمانوں کی حمایت و کالت اسی طرح کر رہا ہے جس طرح ہر قوم پرست کیا کرتا ہے، اور صرف اتنا ہی نہیں ہے، کہ یہ گروہ خود علانیہ اسلام کے اصول واحکام کی خلاف ورزی کرنے میں بیباک ہے، بلکہ اس کی رہنمائی وسر براہ کاری کی وجہ سے مسلمانوں میں بالعموم اسلام کے احکام کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی میں بیباکی روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان کی دینی حس مردہ ہورہی ہے، اور ان پروہ ذہنیت بڑی تیزی کے ساتھ چھا رہی ہے، جو اپنی اصل کے لحاظ سے قطعاً ایک دنیا پرستانہ ذہنیت ہے، مگر ’’مسلم قوم کے مفاد‘‘ اور ’’ملت کی زندگی کے بقا‘‘کا نام لے لے کر اس پر’’اسلامیت‘‘کا جھوٹا ملمع چڑھایا جا رہاہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس صورت حال کے پیدا کرنے کی ذمّہ داری میں ان مذہبی رہنمائوں کی نادانی بھی برابر کی شریک ہے، جن کے ہاتھ میں تحریک خلافت کے زمانہ سے مسلمانوں کی قیادت کی باگیں تھیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے عام احساسات کے علی الرغم ہندوستانی قوم پرستی کے سرا سر غلط مسلک پر اصرار کرکے مسلمانوں کو زبردستی لامذہب رہنمائوں کی گود میں دھکیل دیا، لیکن اسباب خواہ کچھ ہوں یہ امر بجائے خود واقعہ ہے،کہ مسلم لیگ کی پیدا کی ہوئی موجودہ فضا، اسلام کے لیے کوئی موافق فضا نہیں ہے،بلکہ انتہائی ناموافق اور ناساز گار فضا ہے،جس میں خالص دینی نقطۂ نظر سے کام کرنے کے مواقع کم اور کم تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ لیگ کے حلقہ میں ایسے لوگوں کا بھی ایک بہت بڑا گروہ شامل ہے، جو اخلاص کے ساتھ مسلمان ہیں، اور سچے دل سے اسلام کی برتری چاہتے ہیں۔ مگر مجھے ان کی سادہ لوحی پر بڑا ترس آتا ہے،یہ بیچارے اسی نادانی کا ارتکاب کر رہے ہیں، جس کا ارتکاب ٹرکی کے بہت سے نیک نیت مسلمانوں نے،پہلی جنگ عظیم کے بعد کیا تھا،اور اس کا براانجام دیکھ لیا۔ انہوں نے بھی اسی طرح قومی تحفظ کی خاطر (اور ’’مسلمان قوم‘‘ کا تحفظ تو ایک مقدس مذہبی کا م بن ہی جاتا ہے)مصطفیٰ کمال اور اس کی قوم پرست پارٹی کو زمام کا ر سونپی تھی۔ وہ بھی اسی طرح مذہبی تاویلیں کر کے،لادینی کی طرف اس کی ہر پیش قدمی کو گوارا کرتے رہے۔ اور یونہی وہ بھی اپنا دل یہ سوچ سوچ کر بہلا یا کرتے تھے،کہ اس وقت تو قوم کا تحفظ مقدم ہے، اور اس کے لیے اﷲ اپنے دین کی تائید اس رَجُلِ فاجر کے ذریعہ کر رہا ہے، جب یہ وقت گزر جائے گا،تو ان شاء اﷲ ہمارا کاروان جادہ اسلام کی طرف پھر مڑ جائے گا۔ مگر جو کاروان اپنے آپ کو بے دین قیادت کے قابو میں خوددے چکا تھا،اسے پھر اسلام کی راہ پر جادہ پیمائی کی توفیق نصیب نہ ہوئی۔

اب ذرا دینی پہلو سے قطع نظر کر کے،محض قومیّت کے نقطۂ نظر سے اس فضا کا جائزہ لیجیے جو مسلم لیگ نے اس وقت پیدا کی ہے۔ اس کایہ پہلو خواہ کتنا ہی شان دار ہوکہ مسلمانوں میں ایک عام قومی حرکت پیدا ہوگئی ہے،اور وہ ایک مرکزی طاقت سے بظاہر وابستہ ہوگئے ہیں،لیکن واقعہ یہ ہے،کہ لیگ کی یہ تحریک محض ایک اضطراری ہیجان ہے، جو ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے خوف سے، مسلمانوں میں بھڑ ک اُٹھا ہے۔ اس ہیجان کے پیچھے کوئی سوچا سمجھا نقشہ نہیں ہے کوئی واضح مقصد نہیں ہے (حاشیہ قدیم: کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک واضح مقصد ہے۔ لیکن کسی مقصد کے لیے محض ایک نام مہیّا ہو جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ مقصد ایک واضح مقصد ہے۔جس چیز کو پاکستان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے وہ قطعی مبہم ہے اور اس کی اصل تعبیر غالباً ایک جمہوری لادینی اسٹیٹ کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ مگر اس کو محض اس لیے صاف صاف بیان نہیں کیا جاتا کہ سادہ لوح مسلمان جو اسلامی نظام کے قیام کی امیدیں لگائیں بیٹھیں ہیں اس سے مایوس نہ ہو جائیں۔) کوئی تعمیری سعی نہیں ہے، جو حصول مقصد کے لیے طاقت فراہم کر سکے کوئی ایسی کارکن جماعت نہیں ہے،جو قابلِ اعتماد سیرت اور ایک منظم فکر رکھتی ہو،اور کوئی ایسی قیادت نہیں ہے،جو ایک عمومی تحریک کو چلانے کی اہل ہو، فی الواقع مسلمانوں میں جو حرکت پیدا ہوئی ہے، وہ لیگ اور اس کی قیادت نے سوچ سمجھ کر کسی نقشہ کے مطابق پیدا نہیں کی،بلکہ ہندوئوں کی قومی سامراجیت اور ان کے لیڈروں کی تنگ دلانہ سیاست سے مسلمانوں میں خود بخود ایک احساس خطر اور ہیجانِ اضطراب بھڑک اُٹھا،اور اس حالت میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ وہ مذہبی اورسیاسی لیڈر جن کی طرف وہ تحریک خلافت کے زمانہ سے رجوع کرتے رہے تھے، ان کے کسی کام نہیں آرہے تو جس نے بھی آگے بڑھ کر ان کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھایا،اس کا دامن انہوں نے تھام لیا۔ اب یہ بدقسمتی کی بات ہے، کہ اس ہیجان کی حالت میں جو رہنمائی ان کو میسر آئی وہ بجز کانفرنسوں اور اسمبلیوں کی لڑائی لڑنے کے اور کسی طرز جنگ اور طریق تیاری سے واقف نہیں ہے، اور یہ کھیل چونکہ کسی تیاری اور کسی نقشہ کے بغیر کھیلا گیا تھا، اس لیے اس کا کوئی فائدہ اس کے سوا نہ ہوا کہ مسلمانوں کے قومی کیرکٹر کی کمزوری اور زیادہ بے نقاب ہوگئی، اور ان کی ہوا پہلے سے زیادہ اُکھڑ گئی۔ سب سے زیادہ افسوس ناک معاملہ جس نے لیگ کی موجودہ رہنمائی کا انتہائی نااہل ہونا واضح کر دیا ہے، اشتراکیوں کا معاملہ ہے اس گروہ کے متعلق ثابت ہوچکا ہے، کہ اس کی وفاداریاں اور ہمدردیاں روس کے ساتھ وابستہ ہیں، اور اس کی رہنمائی کی باگیں تک روس کے ہاتھ میں ہیں۔ کوئی قوم جو اپنے گھر میں آزاد ہونا یا رہنا چاہتی ہو، اپنے درمیان ایسے ایک گروہ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دے سکتی،جو کسی بیرونی طاقت کے اشاروں پر کام کرتا ہو۔ اسی وجہ سے کانگریس نے اس گروہ کو اپنے اندر سے نکال باہر کیا اور ہندوئوں میں اس کے اثرات پھیلنے کا دروازہ تقریباً بند کر دیا۔ لیکن لیگ جس نے اپنے قابلِ اعتماد کارکن بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی،اور جو اس وقت اندھوں کی طرح ہر اس شخص یا گروہ کا سہارا لے رہی ہے،جو بس اس کا الیکشن پروپیگنڈا کرنے کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دے، ان اشتراکیوں کو بے تکلف اپنے اندر لے آئی (حاشیہ قدیم: اس سلسلہ میں یہ لطیفہ بھی قابل توجہ ہے کہ لیگ کا دستور اساسی کمیونسٹوں کے داخلہ میں کسی طرح مانع نہیں ہے۔ چونکہ یہ مسلم لیگ بلا اسلام بنائی گئی ہے اس لیے اس میں داخل ہونے کے لیے اسلام پر اعتقاد اور اس کی پیروی شرط نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جس کا نام مسلمانوں کا سا ہو اس میں داخل ہو سکتا ہے خواہ خدا آخرت اور رسالت کا منکر ہی کیوں نہ ہو۔) اور اس کو کچھ نہیں سوجھا کہ اپنے پاکستان میں وہ ایک ایسی طاقت کے ایجنٹوں کو قدم جمانے کا موقع دے رہی ہے، جو ایمان پر اپنا تسلط قریب قریب مضبوط کر چکی ہے، اور اب اس کے اور پاکستان کے درمیان صرف افغانستان کی بودی سی دیوار حائل ہے۔ حدیہ ہےکہ اس کم نظر قیادت کو یہ کھلے ہوئے آثار غداری بھی نظر نہیں آتے کہ یہ کمیونسٹ جو ہندستان میں بڑے مسلمان قوم پرست بنے ہوئے ہیں، ایران اور ٹرکی پر روس کی دست درازیوں کے خلاف ایک حرف نہیں کہتے، بلکہ اُلٹا روس کو حق بجانب اور ایران وٹرکی کو قابلِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، کیا اس سے بھی یہ پتہ نہیں چلتاکہ کل اگر یہی روس پاکستان میں دخل اندزی شروع کرے گا، تو ان کا روّیہ کیا ہوگا؟

جیسا کہ عرض کر چکا ہوں اسلام اور اس کے مقاصد سے تھوڑی دیر کے لیے قطع نظر کر لیجیے کہ اس کے لحاظ سے تو لیگ کی تحریک مسلمانوں کو کوسوں دور لیے جا رہی ہے‘ لیکن محض قومی مفاد کو بھی اگر سامنے رکھا جائے، تو مجھے وہ فضا کہیں نظر نہیں آتی جس کے متعلق خبر دی جا رہی ہے،کہ وہ بڑی ہی کوئی ساز گار فضا ہے۔ یہ مختلف عناصر آج کانگریس کے مقابلہ میں متحدو متفق ہوسکتے ہیں، لیکن یہ قطعی ناممکن ہے، کہ کل یہ سب مل کر کوئی ایک تعمیری اسکیم بنا سکیں اور اسے ٹھیک ٹھیک چلا لے جائیں۔

(ترجمان القرآن۔ فروری1946ء ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ جلد دوم ،صفحہ 241، ایڈیشن 1983، اسلامی پبلیکیشنز، لاہور)

Comments

Latest

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے، اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔ جب تک یہ اصول نہ مان لیا جائے ہم کسی انتخاب اور کسی رائے دہی کو حلال نہیں سمجھتے‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جب سے ہم نے مضمون ’’ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے‘

نظامِ کفر کی پارلیمان میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

نظامِ کفر کی پارلیمان میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، وہی کافر ہیں، ظالم ہیں، اور فاسق ہیں۔ (سورۃ المائدہ، آیت 44، 45، اور 47)۔ یہ قرآن کی محکم آیات ہیں۔ آج

مجلسِ قانون ساز (اسمبلی) کی رکنیت شرعی نقطۂ نگاہ سے

مجلسِ قانون ساز (اسمبلی) کی رکنیت شرعی نقطۂ نگاہ سے

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ [مندرجہ ذیل مضمون ترجمان القرآن محرم 1365 ہجری، دسمبر 1945 کے شمارے میں شائع ہوا، جو کتاب ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ جلد دوم (صفحہ 233، ایڈیشن 1983، اسلامی پبلیکیشنز، لاہور) میں شامل ہے۔ یہ واضح رہے کہ اُس وقت ہندوستان میں برطانوی راج تھا، اور

ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے

ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے

جاوید انور اللہ ہمیں معاف کرے۔ ہم غلطی پر تھے۔ ہماری عقل پر پردہ پڑ گیا تھا، ہم نسیان میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب تک ہم جاہلی سیاست کے کسی نہ کسی طور سے معاون و مددگار بنے رہے۔ ہماری مسلم اور اسلامی برادری نے اسلامی سیاست کو چھوڑ