Skip to content

افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟

جاوید انور

24 نومبر 2025ء کو پشاور میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (FC) کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ ہوا۔ کم از کم تین اہلکار شہید، پانچ زخمی۔ ذمہ داری قبول کرنے والا گروپ جماعت الاحرار (JuA) تھا، جسے فوراً تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے "منسلک" قرار دے دیا گیا۔یہ وہی پرانا نسخۂ کیمیا ہے جو کاونٹر ٹیرورزم کے نام سے مشہور ہے: جس تنظیم کے خلاف کارروائی کرنی ہو، اسی طرز کا ایک نیا گروپ ایجنسیاں کھڑا کرتی ہیں، اس کے ہاتھوں دہشت گردی کروائی جاتی ہے، عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ اصل تنظیم کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو جائے۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے بھی یہی حربہ آزمایا جا چکا ہے۔ جماعت الاحرار حقیقی گروہ ہے یا ایجنسیوں کی تخلیق؟ اس کی آزادانہ تحقیق ہونی چاہیے، مگر پاکستان میں تفتیشی صحافت دفن ہو چکی ہے۔

ہم یہی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ  جب بھی "خودکش حملہ" کا لفظ سنائی دے تو سمجھ لیں یہ ایجنسیوں کا کھیل ہے۔ آپ نے کبھی کسی خودکش حملہ آور کی واضح تصویر نہیں دیکھی، نہ کبھی دکھائی جاتی ہے۔ خودکشی اسلام میں سخت حرام ہے۔ فلسطین جیسے انتہائی مخصوص حالات میں فدائی حملوں کے لیے علما نے اجتہاد کیا، مگر وہ جواز ہر جگہ فٹ نہیں ہوتا۔ حنفی مسلک، جو طالبان کا بھی اور پاکستان کی اکثریت کا بھی ہے، خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ طالبان لڑتے ہیں، شہید ہوتے ہیں، خودکش دھماکے نہیں کرتے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ  دھماکوں  کے ساتھ وہ لوگ جن کی تصویر چھپائی جاتی ہے وہ کون ہیں؟  کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں  لاپتہ افراد میں سے کسی کو اس بم کے ساتھ جھونک دیا جاتا ہو۔

پشاور حملے کے صرف دو دن بعد، 26 نومبر کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس سے دو بلاک کے فاصلے پر نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر "ٹارگٹڈ ایمبش" ہوا۔  بتایا گیا ہے کہ حملہ آور 29 سالہ افغان نژاد رحمان اللہ لکنوال تھا جو 2021 میں آپریشن ایلائز ویلکم کے تحت آیا اور رواں سال ریفیوجی سٹیٹس ملا۔ رہائش واشنگٹن ریاست میں، یعنی واقعہ سے 4500 کلومیٹر دور۔ قاتل کو دور دراز سے "بلایا" گیا۔ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ لکنوال افغانستان میں ان کے لیے کام کر چکا تھا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے فوراً بیان دے دیا کہ امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمہ داری افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔اسی دن ایک افغان ایکس اکاؤنٹ @TimesAFg1      نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قتل کر دیا گیا اور لاش باہر منتقل کر دی گئی۔ تقریباً ایک ماہ سے عمران خان سے کسی کو ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔

یہ تینوں واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ’’ہرگز نہیں‘‘ (Absolutely Not) کہہ کر افغانستان پر دوبارہ حملے اور شمالی پٹھانوں (جنہیں TTP کا لیبل لگا دیا گیا) کے قتلِ عام کے منصوبے میں شمولیت سے صاف انکار کیا تھا۔ یہی واحد بڑی وجہ تھی کہ انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا۔ جیل سے بھی ان کا پیغام وہی ہے: تحریک طالبان پاکستان  اور افغان طالبان دونوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ مگر موجودہ مقتدرہ شروع دن سے لڑائی کے موڈ میں ہے۔واشنگٹن کا حملہ افغان نژاد شخص کے ہاتھوں، حملہ آور کا سی آئی اے سے مبینہ تعلق، یہ ایک ممکنہ "مِنی 9/11" بن سکتا ہے جو افغانستان پر نیا امریکی حملہ کا جواز فراہم کر دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی بگرام ایئر بیس واپس لینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔پیچھے پیچھے تیاریاں مکمل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نیا فوجی معاہدہ، سعودی ولی عہد کا F-35 سکواڈرن خریدنے کا سودا (کیا یہ لڑاکا  جہاز پاکستان افغانستان کے خلاف استعمال کرے گا؟)، تاجکستان میں تین چینیوں کی ہلاکت کا الزام بھی افغانستان پر لگا دیا گیا ۔

 مئی میں بھارت کے ساتھ جھڑپ کروا کر پاکستان کا پروفائل بلند کیا گیا، جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس لنچ پر بلایا گیا، ٹرمپ سے ملاقات کروائی گئی۔ یہ سب اتفاقیہ نہیں ہے۔ رواں سال (2025ء) پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے پابندیاں (UNSC Sanctions Committee) کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اسی سلامتی کونسل کی بدمعاشی کی بدولت آج بھی افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد ہیں جن میں مالیاتی پابندیاں، سفری پابندیاں اور اسلحے کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی شامل ہے۔پاکستان کے پاس بطور چیئرمین یہ مکمل اختیار موجود تھا کہ وہ اپنے برادر اسلامی پڑوسی ملک افغانستان کے حق میں کھڑا ہوتا، طالبان رہنماؤں سے یہ ظالمانہ پابندیاں ہٹواتا اور انہیں بین الاقوامی سطح پر قانونی تسلیم دلانے کی راہ ہموار کرتا؛ مگر افسوس کہ پاکستان نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا۔بلکہ الٹا اس چیئرمین شپ کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت اور  انھیں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ پاکستان نے براہِ راست افغانستان پر فضائی حملے شروع کر دیے۔دوسری طرف 2025-2026 کے لیے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے علاقائی انسدادِ دہشت گردی ادارے (Regional Anti-Terrorist Structure – RATS) کی بھی چیئرمین شپ سونپ دی گئی ہے، جس کا بنیادی مقصد علاقائی سطح پر شدت پسندی، دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف تعاون کو ترجیح دینا ہے۔یہ دونوں عہدے پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع تھے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ حقیقی بھائی چارے کا ثبوت دیتا، مگر بدقسمتی سے ان مواقع کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔

امریکا اور پاکستان کا رشتہ کبھی دوستی کا نہیں رہا؛ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ 2001 سے لے کر اب تک  پاکستانی فوج امریکا کی افغان جنگ  لڑ رہی ہے۔2021  میں امریکی شکشت کے بعد، اب وہی ہاری ہوئی جنگ  وہ دوبارہ پاکستان کے کندھوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے نزدیک اسلام کی کوئی بھی سیاسی یا فوجی طاقت "دہشت گردی" ہے اور اس دہشت گردی کے خاتمے کا ٹھیکہ پاکستان کے پاس ہے۔ چوبیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اربوں ڈالر انفرادی جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔یہ جنگ ہمارے کالموں، نصیحتوں اور اداریوں سے ختم ہونے والی نہیں۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، تاہم  اب  ایسا لگتا ہے  کہ وہ اب  کسی کے ہاتھ سے بھی  اٹھ سکتی ہے۔

نتیجہ کیا نکلے گا؟ سوائے عقل کے چند اندھوں کے، اس کا جواب سب کے پاس ہے۔

WhatsApp Channel (New): AsSeerah

E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com

Subscribe: AsSeerah+subscribe@groups.io

Follow:  AsSeerah Facebook Page         AsSeerah X     

Be the Writer’s Friend   

https://www.facebook.com/JawedAnwarPage

Comments

Latest

پاکستان ـ اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟ (2)

پاکستان ـ اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟ (2)

جاوید انور ٹرمپ کا نام نہاد "امن معاہدہ" اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی منظور ہو گیا ہے۔ 17 نومبر 2025 کو قرارداد نمبر 2803 (2025) کو سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے تین اور دس غیر مستقل ارکان میں سے دس نے حق

پاکستان ـ اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟  (1)

پاکستان ـ اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟  (1)

جاوید انور 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل کی چڑھائی کی۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور سابق امریکی سفارت کاروں کے مطابق یہ آپریشن امریکی اشارے پر ہوا تھا۔ جب بھارت کو مکمل طور پر امریکی کیمپ میں منتقل کرنے اور

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (2)

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (2)

جاوید انور  پاکستان کے آئین میں 27ویں ترمیم نے پاکستانی عدلیہ کو تو ڈھیر کر ہی دیا ہے، اور اس پر بہت کچھ شائع ہو رہا ہے اور وکلاء اور میڈیا میں زیر بحث ہے۔ لیکن جس بات پر کم بات ہو رہی ہے، وہ ملٹری ڈکٹیٹرشپ کو آئین طور

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (1)

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (1)

جاوید انور پاکستان کے آئین میں جو 27ویں ترمیم ہوئی ہے، اسے تاریخی، فوجی، عالمی اور علاقائی جیو پالیٹکس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امن کے راستے کی باتیں تو کرتے ہیں، مگر دراصل وہ جنگ کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں۔ انہوں نے اپنے محکمہ