Skip to content

امریکا : حَیاء بمقابلہ فاحِشَہ

جاوید انور

’’اور لوطؑ  کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا ” کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو(فاحِشَہ)  جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔“مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ” نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔ “ آخرِکار ہم نے لوط   ؑ  اور اس کے گھر والوں کو ۔۔۔۔ بجز اس کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔۔۔۔ بچا کر نکال دیا اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا‘‘۔ (سورۃالاعراف 80 تا 84)  

ہم یہاں ایل جی بی ٹی ٹی آئی کیو (LGBTTIQ) یعنی جنسی منحرفین اور صنفی مرتدین کے عمل کے لیے عربی قرآن کی اصطلاح ’’فاحِشَہ‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ اور اس کے مقابلہ میں، اس کے رد میں جو لفظ استعمال کر رہے ہیں، وہ ہے ’’حیاء‘‘۔ فاحش لوگ اور با حیاء لوگوں کے درمیان ایک نئی کشمکش کا آغاز ہو چکا ہے۔

فاحِشہ کے پھیلاوْ کا اصل مقصد انسانی آبادی کا خاتمہ ہے۔ اس دنیا میں ایک شیطانی اور دجالی گروہ ایسا موجود ہے جو چاہتا ہے کہ دنیا کے انسان، آبادی کے لحاظ سے، سیاسی، معاشی، تعلیمی، اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اور ہر لحاظ سے برباد ہو جائیں۔ انسان کائنات کا سب سے قیمتی نوع ہے۔ وہ اس کائنات کی سب سے بہترین مخلوق ہے، اور اسی قیمتی مخلوق کو شیطان ختم کرنا چاہتا ہے، اس کی ساخت کو بدل دینا چاہتا ہے۔ اس کی خدا داد صنف اور جنس کو ہی بدل دینا چاہتا ہے۔ ساری دنیا کی حکومتیں اور ریاستیں اس شیطانی قوت سے تعاون کر رہی ہیں۔

’’وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’ میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا۔ میں انہیں بہکائوں گا ‘ میں انہیں آرزوئوں میں الجھائوں گا‘ میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردوبدل کریں گے‘‘۔ (النساء: آیات 117 تا 119)

آبادی کو روکنے اور برتھ کنٹرول کا سب سے فعال ادارہ پلا ننڈ پیرنٹ ہوڈ (Planned Parenthood) ہے۔ یہ ادارہ امریکا میں 1914 میں قائم ہوا۔ جس کا مقصد اسقاط حمل، ضبط ولادت اور فاحشہ کلچر کا فروغ ہے تاکہ انسانی تولید کو کم سے کم کیا جا سکے۔ امریکا میں فاحش کی پہلی نیشنل آرگنائزیشن 1950 میں قائم ہوئی۔ 1980 کی دہائی میں فاحش لوگوں میں ایڈز کا مرض پھیلا۔ جس سے کچھ عرصہ کے لیے یہ لوگ پس منظر میں چلے گئے۔ لیکن بیسویں صدی کے اواخر میں ان کی سماجی قبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ 2011 میں امریکا کی فوجی پالیسی تبدیل ہوئی اور فاحش لوگوں کو فوج میں ملازمت کی کھلی اجازت مل گئی۔ امریکا کے سوشل کنزویٹیوز (social conservatives) نے فاحش قوت کو چند ریاستوں سے آگے نہیں بڑھنے نہیں دیا۔ لیکن فاحش قوتوں کو ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی جب امریکا کی عدالت عظمیٰ نے 2015 میں پورے ملک میں ہم جنس شادی کو قانونی قرار دے دیا۔ 2024 کے گیلپ سروے کے مطابق امریکا کی فاحش کی آبادی 7.6 فی صد ہے۔

یہ ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ منظم اقلیت ہی غالب ہوتی ہے۔ فاحش کی آرگنائزڈ کمیونٹی امریکا میں 75 سال سے زیادہ جدوجہد کر رہی ہے۔ اس نے اسکول اور تعلیم میں بہت کام کیا۔ اور ان کی ایک بڑی تعداد فزیکل اینڈ ہیلتھ ایجوکیشن کے ٹیچرز کی حیثیت سے پبلک ایجوکیشن سسٹم میں داخل ہوئی۔ امریکا کا تعلیمی نظام فاحشہ کلچر کو بچوں میں کافی کم عمری سے بے روک ٹوک پھیلا رہا ہے۔ جس سے بچوں کو بچانا آسان نہیں رہا۔ وہ والدین مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنے معصوم پیارے بچوں کو پبلک اسکولز (سرکاری اسکولوں) سے ہٹا کر ان کے لیے متبادل تعلیم کا انتظام کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فاحِشہ کے خلاف یوروپ، اسکینڈے نیویا، اور شمالی امریکا میں سب سے زیادہ مزاحمت بھی یو ایس اے میں ہی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جینڈر کے حوالے سے صاف گوئی اور واضح پالیسی سے تمام مذہبی طبقہ اور روایتی خاندان میں امید کی ایک نئی کرن جاگی ہے۔ عیسائیوں کی ایک بڑی مذہبی آبادی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس بار سینیٹ اور ہائوس آف ریپرنزیٹیٹیو دونوں میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اب ان کے لیے مشکل نہیں کہ وہ یہ کام نہ کر سکیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے آتے ہی صدارتی آرڈر کے ذریعہ یہ اعلان کر دیا ہے کہ امریکی ریاست صرف دو صنف کو مانتی ہے، مرد اور عورت، امریکا کسی تیسری صنف کو قبول نہیں کرتا۔ امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد کینیڈا اور ساری دنیا کی پرو لائف اور حیاء موومنٹ کو طاقت ملی ہے دنیا بھر کے وہ تمام لوگ جو امریکا ہی کو فالو کرتے ہیں وہاں بھی یہ طاقتیں مضبوط ہوں گی۔

ہماری دعاوْں میں ایک دعاء یہ شامل ہے کہ یا اللہ امریکا کی فوجی طاقت کو، امریکا کی سیاسی طاقت کو، امریکا کی معاشی قوت کو، امریکا کی علمی قوت کو اور امریکا کی تنظیمی صلاحیت کو، ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لیے استعمال کر لے۔ حرمین کے ہر سفر میں میں نے یہ دعاء مانگی۔ آپ بھی اس دعاء کواپنا معمول بنا لیں۔ لیکن دعاوْں کی مقبولیت مشروط ہے اس بات پر کہ ہم اس کے لیے کیا اور کیسی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم اپنے دل سے انسانوں کا اور کسی حکومت اور ریاست کا ڈر، خوف اور بھے اور ہر قسم کے دنیاوی لالچ کو نکال دیں، اور صرف اور صرف اللہ کا ڈر، اللہ کے تقویٰ کو اپنے اندر سمیٹیں، اور جنت کی خواہش اور اللہ سے بہترین حالت میں ملاقات کی تڑپ پیدا کریں۔ ہمیں اس ملک میں امر بالمعروف و نہی عنی المْنکر کا فریضہ انجام دینا ہے، بھلائی کا حکم دینا ہے، اور برائیوں سے روکنا ہے۔ ہمیں لوگوں کو بتانا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ اس کے لیے ہمیں پرامن لیکن متحرک اور منظم جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہم سب اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اپنے اندر صلاحیت بھی پیدا کریں اور صالحیت بھی۔

امریکا: حَیاء بمقابلہ فاحِشَہ - Daily Jasarat News
’’اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اْس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو (فاحِشَہ) جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، […]

Comments

Latest

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

تحریر: حفید اختر مختار جنگِ مہابھارت کا ذکر ہندوؤں کی کئی اہم مذہبی و تاریخی کتب میں آیا ہے، جیسے بھگوت گیتا، ہری ونش پران، وشنو پران اور بھوشے پران وغیرہ، لیکن اس کا تفصیلی بیان مہاکاوی "مہابھارت" میں موجود ہے۔ اس جنگ کو ایسے بیان کیا جاتا

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

راشد مشتاق ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا  آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا تحریکِ اسلامی کے فکری و عملی تسلسل میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا وجود خود ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم بھی ایسی ہی ایک شخصیت

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (مندرجہ ذیل مضمون 1938 میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانانِ ہند، بخوبی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ وہ موجودہ حالات تک کیسے اور کیوں پہنچے۔ دوسری جانب، وہ مہاجرین جو ہجرت کرکےپاکستان آگئے،اور جو

1946   کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946  کے انتخابات  کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت اسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ ذیل میں ہم وہ مضمون اور اس کا جواب جوں کا توں نقل کر رہے ہیں۔ ۔ مدیر ترجمان القرآن کچھ دنوں سے اخبارات