سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
[مندرجہ ذیل مضمون ترجمان القرآن محرم 1365 ہجری، دسمبر 1945 کے شمارے میں شائع ہوا، جو کتاب ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ جلد دوم (صفحہ 233، ایڈیشن 1983، اسلامی پبلیکیشنز، لاہور) میں شامل ہے۔ یہ واضح رہے کہ اُس وقت ہندوستان میں برطانوی راج تھا، اور اسی نوعیت کی لبرل ڈیموکریٹک اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق سوال کیا گیا تھا۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ پاکستان میں مجلس قانون ساز میں شامل ہونے کی مولانا نے اُس وقت اجازت دی تھی، جب کہ بقول ان کے دستور پاکستان کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکا تھا اور قراردادِ مقاصد اسلامی دستور کا حصہ بن چکی تھی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ کلمہ پڑھ کر عملاً مسلمان ہوا تھا یا نہیں، اور پاکستان میں الیکشن میں شامل ہونے کی جماعتِ اسلامی کی حکمت عملی صحیح تھی یا غلط — یہ ایک بالکل علیحدہ بحث ہے۔
مولانا مودودیؒ نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ پاکستان کے دستور کے کلمہ پڑھتے ہی اب پوری دنیا، خصوصاً بھارت، مغربی ممالک، کینیڈا اور امریکا کے دستور نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے۔ اور اب تم وہاں جا کر مزے سے الیکشن میں حصہ لو۔ لبرل، ڈیموکریٹ، ریپبلکن اور کنزرویٹیو نے بھی اپنا اپنا سیاسی عقیدہ اور فلسفہ چھوڑ کر کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ اس لیے ان کی رکنیت اختیار کر کے الیکشن لڑنا تمہاری شہری (Civic) ذمہ داری بھی ہے اور مذہبی (Religious) ذمہ داری بھی۔ اگر کینیڈا میں تمہارے ہم وطن اپنی شہری ذمہ داری ادا نہ کر رہے ہوں (یہاں اب صرف 43 فیصد لوگ ووٹ دے رہے ہیں)، اور کینیڈا کے لوگ اگر اسے مذہبی ذمہ داری کے بجائے سیکولر ذمہ داری سمجھ رہے ہوں اور اس لیے اس سے دور رہ رہے ہوں، تو تم ان لوگوں کو سمجھانا کہ تمہاری یہ بھول ہے۔ یہ تو تمہاری خالص مذہبی ذمہ داری تھی جسے تم نبھانے میں کوتاہی کرتے آئے ہو۔ ہمارے نزدیک تو یہ خالص اسلامی ذمہ داری ہے۔
میں اس طرح کی ’’مضحکہ خیز سمجھ‘‘ کی بات اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان ایسے لال بجھکڑ تحریکی حلقوں میں بھی موجود ہیں، اور مذہبی اسکالرز میں بھی۔ اب آئیے مولاناؒ سے کیے جانے والے سوال اور اس کا جواب دیکھتے ہیں۔ ]
(جاوید انور)
سوال:
’’کیا مسلمان کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں، تو کیوں؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑے ہو رہے ہیں اور ان کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجھ پر دباؤ پڑ رہا ہے، حتیٰ کہ علما ء تک کا مطالبہ یہی ہے۔ اگرچہ مجملاً جانتا ہوں کہ انسانی حاکمیت کے نظریے پر قائم ہونے والی اسمبلی اور اس کی رکنیت دونوں شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہیں، مگر تاحال معقول وجوہات پیش نہ کر سکوں، ووٹ کے مطالبے سے چھٹکارا پانا دشوار ہے۔‘‘
جواب:
اسمبلی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ موجودہ زمانے میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں (جن کی ایک شاخ ہندوستان کی موجودہ اسمبلیاں بھی ہیں) وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ باشندگانِ ملک اپنے معاملات کے متعلق خود تمدن، سیاست، معیشت، اخلاق اور معاشرت کے اصول وضع کرنے اور ان کے مطابق تفصیلی قوانین و ضوابط بنانے کا حق رکھتے ہیں، اور اس قانون سازی کے لیے رائے عامہ سے بالاتر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظریہ اسلام کے نظریے سے بالکل برعکس ہے۔
اسلام میں توحید کے عقیدے کا لازمی جُز یہ ہے کہ لوگوں کا اور تمام دنیا کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے، ہدایت اور حکم دینا اس کا کام ہے، اور لوگوں کا کام یہ ہے کہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم سے اپنے لیے قانونِ زندگی اخذ کریں۔ نیز اگر اپنی آزادیٔ رائے استعمال کریں بھی تو اُن حدود کے اندر کریں جن حدود میں خود اللہ تعالیٰ نے انہیں آزادی دی ہے۔
اس نظریے کی رو سے قانون کا ماخذ اور تمام معاملاتِ زندگی میں مرجع، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت قرار پاتی ہے، اور اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظریے کو قبول کرنا عقیدۂ توحید سے انحراف ہے۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں اور پارلیمنٹیں موجودہ زمانے کے جمہوری اصول پر بنی ہیں، ان کی رکنیت حرام ہے، کیونکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی رائے سے ایک ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے جو عقیدۂ توحید کے سراسر منافی ہے۔ اگر علمائے کرام میں سے کوئی صاحب اس چیز کو حلال اور جائز سمجھتے ہیں تو ان سے اس کی دلیل دریافت کیجیے۔
اس قسم کے معاملات میں یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ چونکہ یہ نظام مسلط ہو چکا ہے اور زندگی کے سارے معاملات اس سے متعلق ہیں، اس لیے اگر ہم انتخاب میں حصہ نہ لیں اور نظامِ حکومت میں شریک ہونے کی کوشش نہ کریں تو ہمیں فلاں اور فلاں نقصانات پہنچ جائیں گے۔ ایسے دلائل سے کسی ایسی چیز کو، جو اصولاً حرام ہو، حلال ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ شریعت کی کوئی حرام چیز ایسی نہ رہ جائے گی جس کو مصلحتوں اور ضرورتوں کی بنا پر حلال نہ ٹھہرا لیا جائے۔
اضطرار کی بنا پر حرام چیزیں استعمال کرنے کی اجازت شریعت میں پائی تو جاتی ہے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ خود اپنی غفلتوں سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرکے اضطرار کی حالتیں پیدا کریں، پھر اس اضطرار کو دلیل بنا کر تمام محرمات کو اپنے لیے حلال کرتے جائیں، اور اس اضطرار کی حالت کو ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلط ہوا ہے، جس کے تسلط کو وہ اپنے لیے دلیلِ اضطرار بنا رہے ہیں، وہ آخر ان کی اپنی غفلتوں کا ہی تو نتیجہ ہے۔ پھر اب بجائے اس کے کہ اپنا سرمایۂ قوت و عمل اس نظام کے بدلنے اور خالص اسلامی نظام کو قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں، وہ اس اضطرار کو حجت بنا کر اسی نظام کے اندر حصہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نوٹ:
کیا مبینہ یہی صورتِ حال یہاں نارتھ امریکا میں نہیں ہے کہ مصنوعی اضطرار پیدا کر کے یہاں پر ایک ایک کرکے تمام محرمات کو حلال کیا جا رہا ہے؟ اور ان کو ایسا کرنے میں ان کے من پسند، من موہک علما کی قطار لگی ہوئی ہے، اور ان کی دہائیاں دے کر حرام کے حلال ہونے کا جواز نکالا جا رہا ہے۔ میں پھر وہی سوال دہراتا ہوں کہ کیا یہ علما اور مفتی آپ کو آخرت میں بچا لیں گے؟ اپنے ضمیر سے پوچھ کر دیکھیے گا۔
(جاوید انور)