Skip to content

کینیڈا کے فاحش ایکٹ اور قوانین

جاوید انور

کینیڈا اور دنیا بھر میں پھیل رہی موجودہ فاحِشَہ تحریک  صرف عمل قوم لوط نہیں ہے بلکہ یہ  ایک نیا  جنسی نظریہ  اور صنفی عقیدہ لے کر آئی ہے۔اس  کا عقیدہ  یہ ہے کہ  بچہ پیدائش  میں کوئی جنس لے کر نہیں آتا ہے، بلکہ جنس وہ ہے جسے وہ خود بتائے کہ وہ کیا ہے۔20  جولائی   2005 کو کینیڈا میں ہم  جنسیت کی شادی   کا  وفاقی قانون بن گیا۔ لیکن اس سے قبل ہی دس صوبوں میں سے آٹھ صوبوں میں اور تین میں سےایک یونین کے زیر انتظام یونٹ میں ہم جنسیت    کی شادی کا قانون بن چکا تھا۔۔ اونٹاریو، بریٹش کولمبیا ،  کویبیک  ،  مینیٹوبہ،  نووا اسکوشا ،سیسکیچیون ، نیو  برنسوِک ، نیو فاونڈ لینڈ  اینڈ لیبراڈوراور یونین زیرانتظام یوکون میں عدالت کے ذریعہ اس طرح کے بیاہ کو قانونی قرار دیا جا چکا تھا۔

سب سے پہلے اونٹاریو میں  جس کا مرکز ٹورنٹو   ہے وہاں  کی عدالت نےکینیڈا (اے جی)  بمقابلہ   ہالپرن  کیس  میں2003  میں ہی اس طرح کی شادی کو قانونی قرار دے دیا تھا۔ عدالت نے   کہا تھاکہ شادی کی تعریف میں  صرف ایک مرد اورایک عورت کو لینا   کینیڈین چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمزکی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ  اس سے قبل 1993میں اونٹاریو کی سپریم کورٹ نے لیلینڈ بمقابلہ اونٹاریو کیس میں ایسی   شادی  کی اجازت نہیں دی تھی ۔

1994 میں اونٹاریو کی حکومت نے تجویز کیا کہ جنس جوڑے کو مساوات کے حقوق کے قانون میں ترمیم ایکٹ کے تحت سول یونین کی حیثیت دے دی جائے۔ لیکن  یہ بل اسمبلی سے پاس نہ ہو سکا۔ اکتوبر 1999 میں  اونٹاریوکی قانون ساز اسمبلی نے ایک بل پاس کیا جس میں ہم جنس جوڑوں کو  وہی تمام   قانونی حقوق دے دیے گئے، جو کہ دو مخالف جنسوں  کےکامن لا ء جوڑوں کو حاصل ہے۔ اسے ہم جنس پارٹنرکہا گیا ۔ اس وقت  اونٹاریو صوبہ میں پروگریسیو کنزرویٹیو (پی سی)  کی حکومت تھی۔ اور مائیک ہیرس پریمیر  تھے۔

12 جولائی 2002 کو اونٹاریو سپریم کورٹ نے ہالپرن بمقابلہ کینیڈا (اے جی)کیس میں  ججوں نے   3:0  سے ہم جنس  جوڑوں کو شادی کی اجازت دے دی۔ لیکن اس پر عمل درآمد پر   روکنے کا عدالتی حکم آگیا۔     2003     میں   ہالپرن کیس کے ہم جنس جوڑوں نے   کورٹ آف اپیل برائے اونٹاریو میں اپیل کی کہ  انھیں شادی  کی فوری اجازت دی جائے،اور عدالت نے کینیڈا کے چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمز کے سیکشن 15 میں مساوات کی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں شادی کی اجازت دے دی ۔

اس کے بعد 24 فروری   2005   کو  اونٹاریو کی قانون ساز اسمبلی نے اونٹاریو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک بل پاس کر لیا جو  لیفٹیننٹ گورنر کی شاہی رضامندی کے بعد 9 مارچ، 2005 کوقانون بن گیا۔لیکن اس قانون میں اس بات کو  یقینی بنایا  گیا کہ  مذہبی ادارے اور پیشواوُں  کو ان کے مذہبی  عقیدہ کے خلاف  شادی کرانے  کے لئےدباوُ نہیں ڈالا جا سکتا  ، لیکن یہی شق سول افسران کے لیے نہیں تھی .اس وقت اونٹاریو اسمبلی میں لبرل پارٹی آف اونٹاریوکی اکثریت تھی اور  ڈالٹن میک گینٹی   پریمیر تھے۔

اس وقت  فیڈریل پارلیمنٹ   میں لبرل کی اقلیتی حکومت تھی ۔اونٹاریو نے ماحول تیار کر دیا تھا۔ تمام قانونی اور دستوری مراحل طئے ہو چکے تھے۔  بل  38 سن 2003 میں ہاوُس آف کامنز میں لبرل وزیراعظم   جین کریٹیاں کے دور میں پیش ہو چکا تھا اور اس پر  سپریم کورٹ آف کینیڈا سے رائے مانگی گئی تھی کہ کیا   ہم جنس شادی کینیڈین   حقوق اور آزادیوں کے چارٹر سے مطابقت  رکھتا ہے یا نہیں؟ 9  دسمبر  2004  کو سپریم کورٹ نے ’’ ہاں‘‘ میں جواب دے دیا تھا۔ چنانچہ  دو ماہ کے اندر ہی  پہلی فروری  2005 کو بل سی 38 کو پارلیمنٹ میں لایا گیا جو بہت تیزی کے ساتھ  28جون  کو  سول میریج ایکٹ بن گیا۔اس وقت لبرل حکومت کے وزیر اعظم     پال مارٹن تھے۔  البرٹا کے کنرویٹیو  پریمیر ریف کلائین  نے مطالبہ کیا کہ اس بل کو پاس کرنے سے پہلے قومی سطح پر پبلک ریفرنڈم کرایا جائے۔ لیکن  پال مارٹن سمیت فیڈرل  کی  چاروں پارٹیوں کے سربراہوں نے اس مطالبہ کو منسوخ کر دیا۔  اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سبھی پارٹیوں کے سربراہوں کی دلی خواہش کے مطابق ہی یہ قانون بنا ہے۔

وزیر اعظم م 16   فروری 2005 کو پارلیمنٹ میں بحث  کا آغاز کر دیا بل کی  دوسری خواندگی  میں  4 مئی کو 164  بمقابلہ 137    ووٹ سے اور 28 جون کو تیسری خواندگی  میں  158  بمقابلہ133 سے یہ بل ہاوس آف کامنز سے پاس ہو گیا۔ اس کے بعد سینیٹ نے  تیسری خواندگی میں اسے19 جولائی کو47  بمقابلہ 21پاس کر دیا  اور  اور 20 جولائی کو محترمہ بیورلی میک لاکلن نے بطور ڈپٹی آف دی گورنر جنرل آف کینیڈا دستخط کر کے شاہی منظوری دے دی۔ اور یہ قانون بن گیا۔

 کنزرویٹیو پارٹی آف کینیڈا کے لیڈر سٹیفن ہارپر نے کہ دیا  تھا  کہ  وہ اس کے    خلاف  کھڑے رہیں گے اور بل پاس بھی ہو گیا تو بھی وہ ہم جنس شادی کو روکنے کے لیے جدوجہد  کرتے رہیں گے۔ واضح رہے  کہ  یہ  کھلی ووٹنگ تھی اور کسی پر  کسی پارٹی کی طرف سے کسی بھی طرف ووٹ دینے کی پابندی نہیں تھی۔ ہاوُس آف کامنز میں  لبرل پارٹی  کے 95   ممبرز نے  حمایت میں  اور 32 نے مخالفت    میں ووٹ دیا۔    کنزرویٹیو پارٹی کے صرف   3 ارکان نے حمایت   میں اور 93 نے  مخالفت میں ووٹ دیا۔ بلوک کیویبکوا کے  43 ممبرزنے حمایت میں اور 5 نے مخالفت   میں ووٹ دیا۔  نیو ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کے    17 ارکان نےحمایت   میں  اور صرف  ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ آزاد  ارکان دو تھے دونوں نے  مخالفت   میں ووٹ ڈالا۔ یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ فاحِشَہ کی سب سے بڑی حمایتی پارٹی  اینڈ ی پی رہی  ہے اور اس کے بعد لبرل پارٹی۔ باقی سب کا نمبر بعد میں آتا ہے۔  بہت جلد ہی  اینڈ ڈی پی  اور لبرل پارٹی اس معاملہ میں  سو فی صد ایک پیج پر آ چکی تھی۔

ہارپر کی لیڈرشپ میں  کنرویٹیو پارٹی  آف کینیڈا  23 جنوری  2006 کو الیکشن جیت گئی،لیکن اسے اکثریت نہیں ملی ۔ اسٹیون ہارپر کی حکومت  حسب وعدہ    ہم جنس شادی  کے  بحث کو پھر سے کھولنے کے لئے ایک موشن   لے کر آئی۔ لیکن انھیں کے اپنے وزیر برائے خارجہ امور  پیٹر  ماککائی  نے کہ دیا کہ اب یہ  غیر ضروری ہے کیونکہ ان کے حلقے کے عوام میں سے کسی ایک نے بھی اس معاملہ میں ان سے رابطہ نہیں کیا ہے۔  دو  مزید کابینہ کے وزراء چَک اسٹرال اور بِل کیسی بھی غیر یقینی صورتحال میں تھے۔

وزیر برائے ماہی گیری اور سمندری امور لویولا ہرن نے بھی اس تحریک کی مخالفت کی ۔فیڈریل پارلیمنٹ کے موڈ کو دیکھتے ہوئے   ہم جنس شادی کے حمایتی  اس موشن کو جلد سے جلد پیش کرنے کے لیے کہ رہے تھے  تاکہ موشن  کو  فوری  طور پر شکست دے  کر  اس معاملہ  کو  ہمیشہ کے لیےسمیٹ دیا جائے ۔ جب کہ مخالفین  اس میں   تاخیرچاہتے تھے۔ دسمبر 6 سن 2006 کو حکومت  یہ موشن لے کر آتی ہے، اور دوسرے ہی دن یہ  موشن 175   بمقابلہ  123 سے  شکست کھا گیا ۔اس کے بعد وزیر اعظم  اسٹیون ہارپر  نے میڈیا کے  نامہ نگاروں سے  کہ دیا کہ میں اب مستقبل میں اس اشو کو  دوبارہ  کھلتا  ہوا  نہیں دیکھ رہا ہوں۔ یعنی اب ہم جنس شادی  کے قانون کے خلاف  اب کچھ نہیں ہوگا ،اور یہ قصہ اب تمام ہو چکا ہے۔

ایک بات اور واضح کر دوں کہ سول میرج ایکٹ 2005   میں  بھی  مذہبی گروہوں کے نمائندوں کو آزادی ہے کہ وہ  ایسی شادی کرانے، نکاح پڑھانے سے انکار کر سکتے ہیں جو ان کے مذہبی  عقائد کے خلاف ہو۔ مذہبی آزادی کا تحفظ  :  سول میرج ایکٹ کی دفعہ 3 بیان کرتی ہے:
"یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مذہبی گروہوں کے ذمہ داروں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ ایسی شادیوں کو انجام دینے سے انکار کر سکتے ہیں جو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق نہ ہوں۔"

ہمارے  نزدیک ہم جنس شادی    کا قانون    دینی اور معاشرتی   لحاظ سے تمام برائیوں کی جڑ  والا قانون   ہے ۔ اس کے بعد اس  طرح کی شادی اور اس طرح  کے کلچر کوفروغ دینے کے لئے    صوبائی اور  فیڈرل سطح پر بے شمار قوانین بنتے چلے گئے۔ اور روایتی    فیملی اور مذہبی   گھرانوں کے حقوق تنگ سے تنگ اور فاحش قوم کے حقوْق بہت  پھیلتے چلے گئے۔  ہر وہ شخص جو کینیڈا  یا مغرب کے کسی ملک میں رہتا ہے، یا  یہاں آنے کا خواہش مند ہے اسے ان تمام قوانین کا علم ہونا چا ہیے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ کہاں اور کس طرح کے ملک میں ہجرت کر رہے ہیں، یا کرچکے ہیں اور اب آپ کو یہاں کیا کرنا ہے۔ حال ہی میں  ڈاکٹر ذاکرنائیک نے اپنے  پاکستان کے دورہ  میں کہا تھا کہ  امریکا کے مقابلے میں پاکستان سے جنت میں جانا  بہت زیادہ آسان ہے۔  اس پر  بھی غور کر لیجیے  گا، خصوصاً وہ لوگ جو ابھی نہیں آئے ہیں۔

ہاں البتہ میں یہ کہوں گا کہ اگر آپ شمالی  امریکا اور یوروپ میں ہیں اور آپ یہاں امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر کا فریضہ احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں، اقامت دین کے لیے باضابطہ جدوجہد کر رہے ہیں، اور اپنی فیملی اور اپنے بچوں کو دین کی بہترین  تعلیم و تربیت کر رہے ہیں، تو آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ کے جنت میں جانے کا چانس بقیہ تمام مسلم ممالک کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے۔

کینیڈا میں فاحش قوتیں اور حیاء تحریک - Daily Jasarat News
گزشتہ کالم میں آپ نے پڑھا کہ کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ امریکا کی ریاستی پالیسی میں صرف دو جنس ہوں گی، مرد اور عورت۔ تیسری کس صنف کی کوئی گنجائش نیست۔ ہمیں یہاں کینیڈا میں بھی ایک ایسی لیڈر شپ چاہیے جو یہی اسٹیٹ پالیسی لے کر آئے۔ […]

YouTube/AsSeerah

Facebook:JawedAnwarPage

Twitter: X/AsSeerah

Telegram: t.me/AsSeerah

AsSeerah What's App Channel:

 https://whatsapp.com/channel/0029Vas8OW13mFYCMzcAZl10

E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com

 

 

Comments

Latest

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

شاہنواز فاروقی مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دارالجزا۔ دنیا عمل کے لیے ہے اور آخرت عمل کی جزا کے لیے۔ چنانچہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ کروڑوں انسان ہوں گے

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں

شاہنواز فاروقی جاوید احمد غامدی اس حد تک مغرب سے مرعوب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی مغرب کے رنگ میں رنگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب مسلمانوں سے خدا اور مذہب کے انکار کے لیے تو نہیں کہتے مگر وہ

شورائیت اور  جمہوریت

جاوید انور شورائیت اسلامی نظام ِاجتماعیت اور سیاست ہے، جمہوریت مغربی نظامِ اجتماعیت اور سیاست ہے۔ شورائیت  میں اہل الرائے کی رائے لی جاتی ہے، جمہوریت میں بالغ رائے دہندگی ہے۔ شورائیت میں بندوں کوتولا کرتے ہیں جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں۔ شورائیت میں جمہورعلماء کی رائے کی

خیر میں اتفاق اور شر میں انتشار

جاوید انور خیر وہ ہےجو انسان اور کائنات کے خالق و مالک نے ہمیں  بتا دیا ہے۔ شر وہ  ہے جسے انسان نے شیطان کی مدد سے اپنی خواہشات نفس کے مطابق ایجاد کیا ہے۔ کائنات کا اصول ِواحد اصولِ خیر ہے۔ شر کا کوئی اصول نہیں ہے۔ خیر ہدایت