جاوید انور
کینیڈا کا تعلیمی نظام تاریخ انسانی کا بدترین نظا م تعلیم بن چکا ہے۔ اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے۔ کینیڈا میں فاحِش کمیونٹی کے بہت سے اپنے فاحش لائف اسٹائل والے سیاسی لیڈرز ہیں اور رہے ہیں۔ ایک بڑا نام اونٹاریو لبرل کی کیتھلین وِن کا ہے۔ گو کہ اب وہ سیاست سےاپنی انتہائی نااہلی کے باعث فارغ ہو چکی ہیں ،ان کو اور ان کے حمایتی بنیاد کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ کینیڈا کے تمام فاحش قوانین کی ابتداء انھیں سے ہوتی ہے۔
وہ اونٹاریو اورکینیڈا کی پہلی کھلی ہم جنس پرست (لیزبین) سیاستدان ہیں۔ شروع میں تو انھوں نے ایک مرد سے شادی کی ،جن سے ان کے تین بچے بھی ہوئے لیکن پھر وہ لیزبین بن گئیں۔ 2005 میں ان کی زوج ایک عورت بنیں۔جین راوُنتھ ویٹ سے ان کی شادی 2005 میں ہوئی۔ کیتھلین وِن کا حلقہ انتخاب ڈان ویلی ویسٹ ٹورنٹو تھا ۔ اس انتخابی حلقہ میں جب وہ آئیں تواس وقت دو بڑے ہم سایہ علاقے ایسے تھے جن میں مسلمانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی ۔ ایک فلیمنگڈن پارک اور دوسرا تھارن کلف پارک۔ اب اس رائڈنگ کی دوبارہ حلقہ بندی ہوئی تو صرف تھارن کلف پارک رہ گیا ہے۔ جب وہ 2003 اور 2007 میں صوبائی الیکشن لڑیں ، اس وقت دو بڑے مسلم ہم سایہ علاقوں کے تمام متحرک اسلامی گروہ نے کیتھلین وِن کی حمایت کی تھی،بلا استثنا ء سب نے ۔ کیوں؟ نہیں معلوم۔ اب آخرت میں ہی معلوم ہوگا۔ واضح رہے کہ کسی نے کبھی توبہ بھی نہیں کی ۔
ہاں چند انفرادی لوگوں نے ضرور مخالفت کی تھی۔ کیتھلین وِن کے پاس ماسٹر ڈگری ایجوکیشن کی تھی اور اس کے اشارے اول روز سے مل رہے تھے کہ یہ خاتون اقتدارحاصل کرکے تعلیم میں بہت بڑی تبدیلی لے کر آئے گی۔ 2007 کے الیکشن میں ان کے مقابلہ میں پی سی پارٹی (Progressive Conservative Party)کے لیڈر جان ٹوری کھڑے ہوئے جن کے بڑے وعدوں میں ایک وعدہ تمام مذہبی اسکولوں کی فنڈنگ کی بات تھی۔ اس کی بنیاد پر لبرل میڈیا نے ان کی خوب مخالفت کی اور کہا کہ یہ لوگ مدارس کی فنڈنگ کریں گے، جہاں سے طالبان نکلیں گے۔ اور لبرل میڈیا کی اس جارحانہ مخالف مہم کی وجہ سے ہی وہ اور ان کی پارٹی الیکشن ہار گئی۔ لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی، حیرت ہوگی کہ نہیں یہ بھی نہیں معلوم کیونکہ اب تو نیو نارمل کا زمانہ ہے۔ ڈان ویلی ویسٹ کے تمام اسلامی حلقے جو سیاست میں ذرا بھی دلچسپی رکھتے ہیں انھوں نے جان ٹوری کو ووٹ نہیں دیا تھا، کیتھلین ون کو ووٹ دیا اور اس لیسبین سیاستداں کی بھرپور حمایت کی۔ جہاں عام مسلمانوں کی بات ہے، یہ توہمیشہ ہوتا ہے کہ جب آپ اپنے دماغ سے سوچنا بند کر کے دوسروں کے دماغ سے سوچتے ہیں،اور گونگے بہرے بن کر انگوٹھا لگانے لگتے ہیں،اور کسی اور کے کہنے پر اپنی زندگی کے تمام فیصلے کرنے لگتے ہیں، تو آپ ایسے ہی فیصلہ کرتے ہیں خواہ آپ اپنے کو یا دوسرے آپ کو بڑا اسلامی کارکن سمجھتے رہیں۔
کیتھلین ون 2003 سے2022 تک ڈان ویلی ویسٹ سے اونٹاریو کی رکن صوبائی اسمبلی (MPP) رہی ہیں اونٹاریو میں ہم جنس شادی کے قانون کو بذریعہ سپریم کورٹ اونٹاریو فیصلے میں ان کا بھرپور کردار رہا ہے۔وفاقی قانون تو دو سال بعد بنا ہے۔ کیتھلین وِن کو اب صوبائی سطح تعلیم کے شعبہ میں کام کرنا تھا۔ وہ ستمبر 2006 سے جنوری 2010 تک تقریباً تین سال وزیر تعلیم رہیں۔ اس کے بعد پریمیر ڈلٹن میکگوئنٹی نے انھیں کئی وزارتیں دیں۔ انھیں اونٹاریو کے اگلے پریمیر یعنی وزیر اعلیٰ کے لیے تیا ر کیا جا رہا تھا۔ فروری11 سن 2013 سے جون 29 سن 2018 تک وہ اونٹاریو کی پریمیر رہیں۔ یہاں اونٹاریو لبرل پارٹی کی تقریباً 15 سال متواتر حکومت رہی ہے۔ پہلے ڈلٹن میکگوئنٹی اور اس کے بعد کیتھلین وِن پریمیر رہے۔
اس دوران وزارت تعلیم کا حلیہ مکمل تبدیل ہو گیا، نصاب کمیٹی فاحش لوگوں سے بھر گئی۔کیتھلین ون کی وزارت تعلیم میں ان کا نائب وزیر تھا ڈاکٹر بینجمِن لیون ۔ وہ اپنی ہوس ناکی کے لئے چھوٹے ننھے بچوں کو استعمال کرتا تھا ۔ اس شخص پر 2015 میں بچوں کی فحش نگاری سے متعلق الزامات لگے، اور اس نے جرم کا اقرار کر لیا۔ اس نے گناہ قبول کرنے کی درخواست (Guilty Plea) دی۔ وہ ایک سزا یافتہ پیڈوفائل (Pedophile Convict) قرار پایا۔پولیس نے لِیوِن پر بچوں کے استحصال کے سات الزامات عائد کیے تھے، جن میں بچوں کی فحش تصاویر بنانے اور تقسیم کرنے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ یعنی وہ بچوں کی فحش تصویر بناتا تھا اور اسے تقسیم و ترسیل بھی کرتا تھا۔
کیتھلِین ون اور ڈاکٹر لِیوِن اور منسٹری آف ایجوکیشن کے انھیں جیسے لوگوں پر مشتمل نصاب کمیٹی اور ان جیسے نوکرشاہ نے 2010 میں جنسی تعلیم کا نصاب بناکر اسے متعارف کرایا۔ پیڈافائیل ڈاکٹر لِیوِن ہی اس نصاب کا نگراں تھا۔ اس نصاب کا مقصد یہ تھا کہ ابتدائی اسکول کے بچوں میں ہی جنسی ہیجان پیدا کر دیا جائے ۔ سمجھدار والدین جان گئے تھے کہ یہ نصاب صاف طور پر بچوں کو جنسی استحصال کی نیت سے "گرومنگ" کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
اس نصاب میں چھ سال کے یعنی گریڈ1 کے بچے کو جنسی اعضا ءکو تفصیل سے بیان کرنے کی بات تھی۔ اس میں یہ تھا کہ گریڈ 3 کے بچے ہم جنس شادی اور ہم جنس خاندانی ڈھانچے کا جشن منائیں گے۔ عملاً اس میں دو ہم جنس بچوں کے درمیان شادی کی نقل کرانا، دیوار پر بڑے بڑے پوسٹر لگا کر ہم جنس شادی کی نمائش کرنا وغیرہ سب شامل ہے۔ گریڈ4 کے بچوں کو بتایا جانا ہے کہ آپس میں دوستی سے اوپر بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے گریڈ 6 میں گندے سے گندے ترین سیکس کا طریقہ بتانا شامل تھا۔ اور گریڈ 8 کے بچوں کو جینڈر کے حوالے سے بچوں کو صاف صاف بتایا جائے گا کہ مرد یا عورت ہونا حیاتیاتی امر نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک "سماجی تصور" ہے ، یہ ایک سماجی تخلیق ہے، جوآپ کے کسی بھی وقت کے جذبات کے مطابق یہ تبدیل ہو سکتا ہے، یعنی صنفی شناخت اور اظہار (Gender Identity and Expression) کا تصور ۔
اس جنسی نصاب کودیکھ کر والدین کی چیخیں نکل گئیں ۔ مقامی اخبارات میں اس پر جتنے سروے ہوئے تھے ،اس میں بھاری اکثریت نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ایک زبردست مخالفت اور ردعمل اور آنے والے الیکشن کے پیش نظر اسے صرف تین دنوں کے بعد وقتی طور پر ہٹا لیا گیا۔ لیکن اسی وقت یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ عارضی طور پر ہٹایاجا رہا ہے اور اسے پھرموقع کی مناسبت سے لایا جائے گا۔
یہ بات سب کو معلوم تھا اور ہے کہ ان باتوں کا مذہب کے علاوہ سائنس سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ صرف اور صرف سیاسی اور سماجی انجینیرنگ ہے۔یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے جو بچوں کی زندگیوں کے لیے اعلیٰ رسک ہے۔ لیکن فاحش لابی اور وزیر تعلیم کی نصاب کمیٹی نے اب اس سے بڑی پلاننگ شروع کر دی ۔یعنی ا سمبلی میں ایک ایسا بل لایا جائے اور ایک ایسا اسکول ایکٹ بنایا جائے جس سے وہ جنسی تعلیم کا نصاب اس کا ضروری اور لازمی حصہ بن جائے۔ پھر ان لوگوں کے سامنے وہ بات آئی جو سائنس کے طلبا کو پڑھائی جاتی ہے کہ مینڈک کو اگر اچانک کھولتے پانی میں ڈال دیا جائے تومینڈک برداشت نہ کر سکے گا، لیکن اگر اسے آہستہ آہستہ پہلے بہت کم گرم پانی سے آہستہ آہستہ گرمی بڑھائی جائے تو اسی درجہ حرارت پر جسے پہلے مینڈک برداشت نہیں کر سکا تھا ،اب اسے آرام سے برداشت کرے گا ۔یعنی وہ اب اس کا عادی ہو جائے گا۔ سائنس کے اس تجربہ کو’’ اُبالنے والے مینڈک کا تجربہ‘‘ (Boiling Frog Experiment) کہا جاتا ہے۔یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی تبدیلی آہستہ آہستہ ہو تو لوگ یا نظام اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور خطرے کو محسوس نہیں کرتے، خواہ وہ ان کے لیے کتنا ہی خطرناک ہو۔اونٹاریو لبرل پارٹی فاحش گروپ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کرتے ہوئے ایک ایسے بل کو ڈرافٹ کرنے میں لگ گئی جو تعلیم کی انسانی تاریخ میں سب سے خطرناک اور شرمناک تھا۔ یعنی ایک ایسا تیز چھرا تیار کیا گیا جس سے بچوں کے جنڈر ، ان کے جنس کو آسانی سے ذبح کیا جا سکے۔ یہاں خطرناک سے خطرناک بل اور ایکٹ کی پیکیجنگ بہت شاندار کی جاتی ہے۔ اونٹاریو قانون ساز اسمبلی میں بل 13 لایا گیا تو اس کا بہانہ ، اسموک اسکرین چھیڑ چھاڑ(Bullying) کو بنایا گیا۔ ایک جھوٹا بہانہ یہ تراشا گیا کہ گے طلبا کے ساتھ ساتھ چھیڑ چھاڑ اور غنڈہ گردی (Bullying) ہوتی ہے۔ اور یہ بل چھیڑ چھاڑ مخالف(Anti Bullying Act) بل ہے ۔
حقیقت میں اس وقت اسکول میں تو ایسے کسی طالب علم کا پایا جانا بھی بہت شاذ تھا۔ عام کینیڈین سوسائٹی میں بھی چھیڑ چھاڑ کی بنیادی وجہ صنفی شناخت نہیں کچھ اور تھی۔ ٹورنٹو کے پبلک اسکولوںمیں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر2010میں ٹورنٹو اسکول بورڈ نے جانچ کے لئے ایک وکیل جولِین فاکنرکی نگرانی میں ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ ان کی فائنل رپورٹ میں کسی ٹرانسجینڈر پر حملہ کا ذکر بھی نہیں آیا ۔ انھوں نے گینگز کی نشاندہی کی، انھوں نے ڈرگس کی نشاندہی کی، اور لڑکیوں پر لڑکوں کے جنسی حملہ کی بات کی تھی ۔ اس رپورٹ میں کہیں بھی ٹرانسجنڈر پر حملہ یا چھیڑ چھاڑ کی کوئی بات نہیں تھی ۔ بہرحال وزارت تعلیم ٹرانسجنڈر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے نام پر ہی بل 13لے کر آئی۔ کیتھلین ون کی وزارت تعلیم کے زمانہ میں یہ ڈرافٹ ہو چکا تھا۔ لیکن اسے پیش کیا وزیر تعلیم لارل بروٹن نے ۔ کیتھلین ون کو کچھ دن قبل ہی دوسری وزارت مل چکی تھی ۔ لارل بروٹن نے بل کی دوسری خواندگی میں اپنی تقریر میں کہ دیا کہ ’’ اس بل کا مقصد رؤیوں (attitudes) اور چال چلن (behaviors) کو تبدیل کرنا ہے اور یہ تبدیلی ’’ اچھائی ‘‘کے لیے ہے۔‘‘
این ڈی پی ایجوکیشن کرٹک پیٹر ٹیبنز نے اس بیان کی سو فیصد حمایت کر دی۔ یعنی وہ تمام اخلاقی، مذہبی اور روحانی تعلیمات جو ہم جنسیت اور ان کی جینڈر تھیوری کے خلاف جاتی ہیں، اب ان سب کو بدل کر ان کے رؤیوں (attitudes) اور چال چلن (behaviors) کو درست کر دیا جائے گا۔ قرآن، بائبل، تورات، تلمود، انجیل، نئے اور پرانے عہدنامے، وید، گیتا، گرو گرنتھ صاحب اور تمام مذہبی کتابوں کی جنس اور صنف سے متعلق تعلیمات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ یہ اب اسکول کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔
یہ بل کلچرل شفٹ کا مینڈیٹ تھا جس میں اب کسی مذہب کا نہیں بلکہ صرف فاحش تہذیب کا جینڈر ایجنڈا چلے گا جس کے ذریعہ بچوں کے دل، دماغ اور روح کو آلودہ کر دیا جائے گا۔ اونٹا ریو وزارت تعلیم نے ٹورنٹو اسکول بورڈ سے ’’برابری‘‘ پر مبنی نصاب Equity _ Inclusive Curriculum تیار کرایا جو اونٹاریو کے ہر بورڈ اور ہر پبلک فنڈڈ اسکول میں اس وقت نافذ ہے۔ اسے منسٹری کے ویب سائیٹ سے ہٹا لیا گیا تھا لیکن وہ تمام پبلک فنڈڈ اسکولز میں نافذ ہو چکا ہے۔ یعنی ہر ٹیچر کو اس گائیڈ کے مطابق چلنا ہے۔ اس کا نام ہے :
Heterosexism 2012 Challenging-Homophobia-and-
اسکول کے تمام پرنسپل کو ہدایت کی گئی کہ اس نصاب کے حساس حصوں کو والدین کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جنسی اظہار کابل بھی پاس ہو چکا تھا۔ چنانچہ اکتوبر17 سن 2012 میں ٹورنٹو ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ نے اعلان کر دیا اور پرنسپل کو لکھ دیا کہ کوئی بھی اسٹوڈنٹ کسی بھی لڑکا یا لڑکی کے واش روم میں جا سکتا ہے، اسے ایسا کرنے سے روکنا ’’حقوق انسانی کی پالیسی ‘‘ کے خلاف ورزی ہوگی۔
بل 13 نے جنڈر کی نئی تعریف کر دی۔ اور کہ دیا کہ انسان صرف مرد اور عورت نہیں ہے بلکہ اس میں سات صنف کا نظریہ شامل ہے یعنی
LGBTTIQ; which stands for Lesbian, Gay, Bisexual, Transgender, Transsexual, Two-spirited, Inter-sexed and Queer
حکومت نے جھوٹا بیانیہ بنایا کہ اس پر بڑے پیمانے پر والدین سے رائے لی جا چکی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ حکومت نے صرف اور صرف ہم جنس پرست-ایکٹیوسٹ لابی گروپز "کوآلیشن فار لیسبین اینڈ گےرائٹس ان اونٹاریو" سے رائے لی، اس میں والدین کی کوئی نمائندگی نہیں تھی ۔ اس زمانہ میں میں ٹورنٹو تھارن کلف پارک اسکول کے اسکول کاوُنسل میں 2008سے 2011 تک متحرک تھا اس دوران اسکول کا کو چیئر اور چیئر پرسن بھی رہا۔اس کے بعد ہمارے ایک ساتھی خالد محمود چیئر پرسن رہے۔ کیتھلین ون اسی علاقہ سے ایم پی پی تھیں۔ وہ ایک بار بھی اسکول کونسل کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئیں۔ یہاں کسی ایک پیرنٹ سے بھی نہ ملیں۔ اس اسکول میں ہی 1700 بچے یعنی تقریباً 3400 پیرنٹ تھے۔ تعداد کے لحاظ سے یہ پورے کینیڈا کا سب سے بڑا اسکول تھا۔ وِن کے نزدیک ان میں سے کوئی بھی پیرنٹ نہیں تھا۔ تو معلوم یہ ہوا کہ اس صوبہ میں ان کے نزدیک پیرینٹ صرف وہی تھے جن کے بچے نہیں ہوتے ہیں۔
حکومت نے پرو فاحش ریسرچ اور سروے کے اداروں سے اور ایک خاص قسم کے سوالات بنا کر کے کہ آپ جواب کچھ دے رہے ہیں اور اس کے معنی کچھ اور اخذ کیے جا رہے ہیں، اسے کسی بھی معیار پر فیئر سروے نہیں کہا جا سکتا ہے ،حکومت نے اس طرح کے سارے رضامندیاں (Consents) کو تیار (Manufacture) کیا اور کرایا۔
اس بل کے ذریعہ پورے اسکول سسٹم اور تعلیمی نظام کو بدل دیا گیا۔ اس بل میں کہا گیا کہ پرائمری اسکول کے بچوں کو متبادل خاندان کے بارے میں بتایا جائے گا یعنی دو ماں اور دو باپ کی کہانیاں۔ اسی تھِیم کو لے کر میوزک کلاس میں نئے گانے تخلیق ہوں گے۔ بچے پرائیڈ ویک اور پرائیڈ ڈے منائیں گے اور پرائیڈ پریڈ میں شامل ہوں گے۔ ڈرامہ کلاس میں ایل جی بی ٹی تھیمز کو لے کر اسکٹس اور کھیل تخلیق کریں گے۔ حتیٰ کہ ریاضی کی کلاس میں بھی اس کے مسائل حل کرنے میں متبادل خاندان کی صورتحال کو شامل کیا جائے گا۔ یعنی یہ واضح کر دیا گیا کہ اب ریاضی اور دوسرے مضامین کی بھی ایسی کتابیں ہی قابل قبول ہوں گی جن میں ایل جی بی ٹی کی مثالیں ہوں گی۔ اسی طرح تمام مضامین میں کسی نہ کسی طریقے سے فاحش کو داخل کر دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کوئیر ہیرو اسٹریٹجی کے تحت وہ تمام ٹرانسجینڈر اور ہم جنس پرست لوگ جو کسی بھی شعبہ زندگی میں نمایاں ہیں، بڑے نام ہیں، ان ’’ہیروز‘‘ کے بارے میں بچوں کو بتایا جائے گا۔ واضح رہے کہ اس میں heterosexuals اور straight مرد اورعورت ہیروز کی بات ہی نہیں ہے۔
پبلک اسکولز میں پنک ڈے کا جشن منایا گیا، جسے bullying کے خلاف دن کہا گیا ۔ دیکھئے اس دن بچوں سے جو ایکٹیویٹی کرائی جاتی ہے اس میں ایک تکون پر ایک کونے میں مرد اور عورت، ایک کونے میں مرد اور مرد اور ایک کونے میں عورت اور عورت کو محبت کرتے ہوئے اسکیچ کرنا ہوتا ہے۔ بچوں کو اسٹوری بکس سے ہم جنس منظرنامہ کی کہانیوں کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ اسٹوری بکس مختلف کمیونٹیز کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستانی کمیونٹی کو سامنے رکھ کر ایک کتاب تیار کی گئی ’’مائی چاچا از گے‘‘۔
) (My Chacha Is Gay اس میں احمد نام کا ایک لڑکا ہے، گھر کراچی پاکستان، اس کے گھر میں اس کے ماں اور باپ کے علاوہ ایک چچا فرید رہتا ہے، چچا گے ہیں۔اس تصویری کہانی کتاب میں یہ بتایا گیا ہے فرید اور ان کے ہم جنس پارٹنر کے درمیان میں جو محبت ہے وہ محبت ایسی ہی ہے،جیسے اس کے ماں باپ کے درمیان ہے۔ تو چھوٹے بچوں کے لیے اس طرح کی اسٹوری بکس تیار کرائی جا رہی ہیں ،، شائع کرائی جا رہی ہیں، اوربڑے پیمانے پر اسکول میں خریدی جا رہی ہیں۔
یہ بل یہ بھی کہہ رہا تھا کہ تمام پبلک فنڈڈ اسکولز کو اپنے اسکول میں گے-سٹریٹ الائنسز (GSA) کلب بنانا ہوں گے، چاہے اس نام سے یا اس جیسے کسی اور نام سے۔ہم نے مشاہدہ کیا کہ اسکول میں کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں ہے، نہ کسی نے اس کا مطالبہ کیا۔ بلکہ پرنسپل نے خود ایک روم پر سائن لگا کر اسے کلب بنا دیا۔ یہ کلب واضح طور پر سٹریٹ بچوں کو گے بنانے کی مہم کا حصہ ہے۔ اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرانا ہے کہ فیملی اور جینڈر کے حوالے سے جو مذہبی عَقائِد ہیں وہ ناقابل اعتبار ہیں۔
دیکھیے بچوں کا ذہن ایک سادہ سلیٹ کی طرح ہے اس پر جو لکھ دیا جائے گا وہ پتھر کی لکیر ہوگی۔ ہمارے پرانے تعلیم نظام میں ابتدائی چند سال بچوں کو صرف قرآن اور روزمرہ کی زندگی کی جو فقہ ہے مثلاً طہارت، لباس، وضو، غسل ، ہر موقع پر پڑھنے والی دعائیں، آداب، اور توحید ، رسالت اور آخرت کے حوالے سے ذہنی تربیت، یعنی ان کے بیج بو دینا وغیرہ تھا۔ بالکل ٹھیک اسی طرز پر اب یہاں فواحش کے بیج ابتدائی عمر سے ڈالے جا رہے ہیں۔
بل 13 ٹیچرز سے یہ توقع کرتا ہے کہوہ جنڈر کے سیال ہونے کی نظریاتی تعلیم ، یعنی جنڈر ہرشکل میں بدل سکتا ہے اور جب چاہو بیٹھے بیٹھے بھی بدل سکتا ہے تو اس کو بالکل عام کر دیا جائے بہت کم عمر ی سے ہی، یعنی کنڈر گارٹن سے ہی۔
کے جی اور گریڈ ون کوپڑھانے کے لیے ٹیچرز کو ٹریننگ ویڈیوز دی گئیں۔ اگر کوئی اسٹوڈنٹ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہم جنسیت غلط یا نیچر کے خلاف ہے تو اسے اسکول سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس میں بچوں کے Indoctrination اور ہم جنسیت اور transgenderism کے حوالے سے brainwashing کا بہت وسیع پیمانے پر پروگرام ہے۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر کتابیں، اسٹوری بکس، فلائئرز، پریزنٹیشنز، اسباق اور غیر نصابی سرگرمیاں تیار کی گئی ہیں تاکہ فاحش کلچر، فاحش تہذیب کو بچپن سے ہی بالکل عام کر دیا جائے۔
بہر حال بل 13کے نتیجہ میں بننے والا بلAccepting School Act بن کر 19 جون سن 2012 کو آگیا جو قانوناً تعلیمی سال 2013-2014 سے لاگو ہے۔ یہ بل اونٹاریو اسملی سےجون 5 کو 65:36 سے پاس ہوا ، لبرلز اور اینڈ ڈی پی نے اس کو سپورٹ کیا اور پروگریسیو کنرویڑیو نے اس کی مخالفت کی ۔ آپ کے لبرلز شفیق قادری ،یاسر نقوی اور رضا مریدی سب نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔
اس قانون نے نہ صرف فاحش اور فاحشہ کے ہر فعل کی قبولیت کو یقینی بنایا بلکہ اس کا مقصد تمام بچوں کی ذہن سازی کے ذریعہ فاحشہ کی راہ دکھانا ہے ۔ اوراسی نئی راہ پر چلانے کو یقینی بنانا شامل ہے۔ اس ایکٹ سے جو ’’دے گے اِکیوٹی ‘‘ نصاب نا، اس میں صاف صاف کہہ دیا گیا کہ یہ قانون تمام پبلک فنڈیڈ اسکولز بشمول کیتھولک اسکولز پر لاگو ہو گا۔ ان میں گے پرائیڈ پَریڈ بھی ہوگا۔ٹورنٹو اسکول بورڈ نے اپنی ایکویٹی اور جامع تعلیمی پالیسیEquity & Inclusive Education policy میں لکھ دیا کہ گریڈ 3کے بچے بھی گے پرائیڈ پیریڈ کی تصاویر کو کاٹ کر اور اس جیسا پلے کارڈ بنا کر اپنا پرائیڈ پَریڈ کریں۔
میں نہیں کہوں گا کہ آپ جاکر دیکھیں کہ وہ تصاویرکیا ہیں اور کیسی ہوتی ہیں۔ لیکن آپ کو معلوم ہے اور آپ کو یہ اندازہ ہے وہ کس قدر ننگی اور فحش تصاویر ہوتی ہیں۔ گریڈ 3 کے بچے کو بھی اتنا بے شرم بنا دیا گیا کہ نہ صرف وہ ان ویب سائٹس پر جاتا ہے بلکہ اس کے پرنٹ نکال کر گے پرائیڈ پَریڈ کرتا ہے۔
کینیڈا کی ایک عیسائی انجمن’’دی ایونجیکل فیلو شپ آف کینیڈا نے اس بل کا جو تجزیہ کیا ہے ان کے مطابق بل 13کے ذریعہ جو ایجوکیشن ایکٹ میں ترمیم ہوا ہے اس سے بعد میں پرائیویٹ اسکول میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ بل 13 پر اسمبلی میں بحث کے دوران بعض ارکان اسمبلی نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ یہ پرائیویٹ اسکول میں بھی نافذ ہونا چاہئے۔ شاید اگلی بار پھر کبھی اونٹاریو لبرل حکومت آ جائے تو وہ یہ بھی کر جائیں گے۔ (اونٹاریو کے ووٹرز نوٹ کر لیں) چھیڑ چھاڑ اور غنڈہ گردی کے بہانہ سے بننے والا بل 13 اور اس کے نتیجہ میں بننے والا قانون دراصل گورنمنٹ کی والدین پر غنڈہ گردی ہے ۔
2015 میں فزیکل ایجوکیشن نصاب میں تبدیلی لا کراسے 2010 سے بھی خطرناک بنایا گیا۔ یعنی 2010 کے نصاب کوشیلف سے نکال کر اس میں تمام بیہودگی کی حد کر دی۔ اس سیکس ایجوکیشن نصاب کی اہم نکات (2015) :
گریڈ 1 (عمر 6 سال): تمام جنسی اعضا کے نامگریڈ 3 (عمر 8 سال): جنسی شناخت اور جنسی رجحان؛ ہم جنس خاندانگریڈ 4 (عمر 9 سال): رومانوی ڈیٹنگگریڈ 6 (عمر 11 سال): خود لذتی اور "شوہر" اور "بیوی" جیسے الفاظ کے استعمال کا انکارگریڈ 7 (عمر 12 سال): مقعدی، زبانی، اور اندام نہانی جنسی تعلق؛ حمل سے بچاؤ؛ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں
واضح رہے کہ اس میں بہت زیادہ گرافک ہے۔ درحقیقت یہ پورنوگرافک طرز کی تعلیم ہے۔ اس نے بتا دیا کہ سیکس کا مطلب اور مقصد صرف لذت کا حصول ہے۔ اس کا محبت اور شادی وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بس ایک تفریحی سرگرمی ہے۔نیو برنسوک کی صوبائی حکومت نے 2005 میں وہی نصاب اپروچ آزمایا، اور 2006 سے 2010 کے درمیان نوعمر حاملہ ہونے کی شرح میں 40% اضافہ ہوا۔
[ McKay, A., (2013), Trends in Canadian national and provincial/territorial teen pregnancy rates: 2001 -2010. The Canadian Journal of Human Sexuality, Vol. 21, No. 3 & 4, p. 165.]
اونٹاریو میں اس پورن اسٹائل نصاب کو ’’قبول کرنے والے اسکول ایکٹ‘‘ Accepting School Act کی زبردست طاقت مل چکی تھی۔اس جنسی تعلیمی نصاب پرپھر کچھ عیسائی حلقوں میں اور کچھ مسلم اور سکھ حلقوں میں ہلچل مچی۔ خاص طور پر ہمارے تھارن کلف پارک کے والدین کا خون زیادہ کھولا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ چڑیا کھیت چک چکی تھی ۔ جس وقت بل 13 اونٹاریو قانون ساز اسمبلی میں تھا اس وقت اگر پوری اسلامی کمیونٹی اس کے خلاف کھڑی ہو جاتی تو لبرلز بھاگ کھڑے ہوتے۔ لیکن ہوا اس کا الٹا ۔کئی اسلامی حلقوں نے تو اس وقت بھی کیتھلن ون کا بھرپور ساتھ دیا اور بعد میں بھی ساتھ دیا۔ بل 13 جب اونٹاریو اسمبلی میں پیش ہوا یہی وہ صحیح وقت تھا ، جب تمام مذہبیحلقوں کواکٹھا ہو کر اس کے خلاف کھڑا ہونا تھا۔
پبلک ایجوکیشن ایڈووکیٹس فار کرِسچن ایکوئٹی کے فاؤنڈر اور پبلک اسکول میں تدریس کا تیس سالہ تجربہ رکھنے والے مسٹر فلِ لیز نے کہا کہ “یہ تبدیلیاں اس لیے رونما ہوئی ہیں کیونکہ روایتی اقدار رکھنے والے مذہبی کمیونٹی کو نہ تو آگاہ کیا گیا اور نہ ہی ان تبدیلیوں کا جواب دینے کے لیے تیار کیا گیا۔ بچوں کے والدین بھی اپنی کل وقتی ملازمتوں میں مصروف ہیں، زندگی کے اخراجات پوری کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، اور مسلسل بڑھتی ہوئی مصروفیات سے نمٹ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہر خاندان کے لیے ان مُتَنازَعَہ تبدیلیوں کے خلاف کھڑا ہوناممکن نہ ہو سکا۔"
وزارت تعلیم نے کہا کہ وہ ہر اسکول سے ایک پیرنٹ کوچن کر کے اس سے رائے لے گی؟ کون چنے گا؟ اس کا معیار کیا ہوگا؟ نہیں معلوم۔ ہمارے 1700 بچوں والے اسکول سے بھی ایک اور سو سے کم کی تعداد والے اسکول سے بھی ایک۔ یہ ہے ان کی جمہوریت۔
منسٹری آف ایجوکیشن نے فاحش کنٹرولڈ گروپس The advocacy groups; Ontario Physical and Health Education Association (OPHEA) اور Ontario Association for the Support of Physical and Health Education (OASPHE) کو شامل کیا۔
دیکھیے کس طرح ایک منظم اقلیت جس کی تعداد یہاں 0.33 فی صد ہے کثیر التعداد مذہبی اکثریت پر بھاری پڑ گئی۔ ان کی مرضی، ان کی خواہش، اور ان کی آرزو کے مطابق تمام قوانین بنتے چلے گئے۔ اگر لبرل پارٹی الیکشن کے وقت یہ کہتی کہ ہم یہ سب کچھ کرنے جا رہے ہیں تو بری طرح شکست کھا جاتی۔
بہر حال2015 میں جو جنسی تعلیمی نصاب کے خلاف تحریک چلی اس کی کمزوری یہ تھی کہ وہ تھارن کلف اور کچھ اور علاقوں کے والدین تک محدود تھی، پوری ریاست میں تمام پبلک فنڈڈ اسکول بورڈز کی تعداد 72 اور اس کے اندر4,848 اسکولوں میں بہت زیادہ کچھ نہ ہوسکا۔ تھارن کلف پارک اور کوئنز پارک کی ریلی ہوئی۔ دونوں ریلیوں میں خاصے والدین جمع ہوئے۔مقامی اخبارات ٹورنٹو اسٹار اور ٹورونٹو سن دونوں میں سروے کا باکس چلتا رہا۔ ایک منظم اقلیت کی نتائج اپنے فیور میں لینے کی تمام تر کوششوں کے باوجود لوگوں کی بھاری اکثریت نے اس نصاب کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن صوبائی سطح پر ایسی بھرپور تحریک نہیں چلی جس کی ضرورت تھی۔ اور یہ تحریک صرف جنسی تعلیمی نصاب کے خلاف تھی وہ پورے اس سسٹم کے خلاف نہیں تھی جو ’’قبول کرنے والا اسکول ایکٹ) (Accepting School Act کے ذریعہ آچکا تھا۔ اور جس میں جنسی شناخت کی بات سب سے اہم بات تھی۔ واضح رہے کہ جنسی تعلیمی نصاب میں استثنیٰ ہے اور والدین اپنے بچوں کے لیے اس میں چھوٹ لےسکتے ہیں۔ لیکن اس پورے اسکول سسٹم سے استثنیٰ کیسے لیں گے؟ اس میں استثنیٰ ہے ہی نہیں ۔
یہ نسلوں کو تباہ کرنے والا تعلیم نظام ہے۔ چونکہ اس تحریک میں صنفی شناخت (gender identity) اور ہم جنسیت والے اشو پر زیادہ زور نہیں دیا گیا تھا اس لئے لبرل میڈیا میں بھی کچھ کوریج ملی ورنہ تو اصل اشو پر بات کرتے ہی میڈیا آپ کو اچھوت بنا دیتاہے۔
اب بھی کچھ نادان یہ سمجھتے ہیں کہ گھر کے ماحول کو اچھا بنا کر پبلک ایجوکیشن دلوانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کہیں کہ رات بھر نائیٹ کلب اور شراب خانے میں بھیج کر صبح درس قرآن دے کر آپ اسے کلین کر لیں گے۔ یہ کیسی بے تکی بات ہے۔ بچوں کی تربیت میں گھر کے علاوہ اسکول، پڑوس، محلہ، شہر اور وہاں کا عمومی ماحول، لائبریری، اسپورٹ کلبز، اس کے دوست اور اس کے رشتہ دار کزنز وغیرہ سب کا مجموعی اثر ہوتا ہے۔ اور استاد کا بچے کی شخصیت پر اثر تو بہت نمایاں ہوتاہے۔ ایسی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں کہ گریڈ 6 کے بچہ کو اس کی لیڈی ٹیچر نے جنسی حوس کا نشانہ بنایا۔ وہ لیڈی اسکول میں ایسا لباس پہن کر آتی تھی جس سے جسم کے تمام اعضاء جھلکتے تھے۔ اس بچہ نے بھی اس جنسی تعلق کو چھپائے رکھا، والدین کو بہت بعد میں پتہ چلا۔ ایک ٹرانسجنڈر کنڈرگارٹن ٹیچر نے پوری کلاس کو متاثر کیا ۔ ٹیچر پام اسٹرونگ نے ایک ہم جنس پرست کارکن کانفرنس ) homosexual activist conference ( میں فخریہ اور اعلانیہ کہا کہ وہ کس طرح 4سال کے کنڈرگارٹن کےبچوں کو ہم جنسیت اور ہم جنس شادی کے لئے قائل کر رہی ہے۔ As-Seerah.com پر14 جولائی 2017 کو ایک مضمون والدین کے لیےشائع ہوا ہے۔ اسے آپ خوب اچھی طرح پڑھ لیں۔
واضح رہے کہ والدین تک اپنے بچوں میں آنے والے اس تبدیلی کی خبر بھی نہیں پہنچ پائے گی۔ اسکول کے نئے جنسی نظریات سے بچاو کے لیے کے آپ کے پاس کوئی موقع نہیں ہوگا۔ جب پتہ چلے گا اس وقت تک ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہوگا۔اس سے ڈپریشن اور خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور بڑھیں گے۔
اونٹاریو کے اسکول بورڈز نے ٹیچرز کو ہدایت کر رکھی ہے کہ بچوں کے ٹراسجنڈرزم سےمتعلق کوئی خبر والدین تک نہ پہنچ پائے۔ والدین کے حقوق جو کسی زمانہ میں بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی، اسے کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔ یہ والدین کے حقوق کی آمرانہ خلاف ورزی ہے۔ یہ ٹھیک اسی طرح کا اشو ہے جب مقامی کینیڈیائی (Aboriginal Canadian) بچوں کو، ان کےاور ان کے والدین کی مرضی کے بغیر وہ لے جایا کرتے تھے،اور انھیں اقامتی درسگاہوںمیں رکھ کر ان پر ظلم ڈھاتے تھے۔ اب ان اسکولوں کے ساتھ بچوں کی قبرستانیں دریافت ہو رہی ہیں۔ کیا اب کینیڈین گورے وزیر اعظم کا صرف سوری کہ دینے سے ان کے بچے اور ان کی نسلیں واپس مل جائیں گی۔ اس سے قبل یہی کام فرعون بنی اسرائیل کی قوم کے ساتھ کر چکا ہے۔ ان کے لڑکوں کو پید ا ہوتے ہی قتل کر دیتا تھا۔ تاکہ ان کی نسلیں آگے نہ بڑھ سکیں۔اکبر الہ بادی ایک بہت مشہور شاعر گزرے ہیں، انھوں نے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل کہا تھا کہ:
یوں قتل کے بچوں سے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
یعنی بچوں کو جسمانی اور روحانی طور پر مارنے کا اور ان کی نسل کشی کا ایک جدید طریقہ اسکول اور کالج اور اس کا نظام اور نصاب بھی ہے۔علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے آج کے حالات سے پوری طرح ہم آہنگ اور سٹیک ہے کہ
تعليم کے تيزاب ميں ڈال اس کي خودي کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ، اسے پھير
ہم نے اپنے ویب سائیٹAs-Aseerah.com پر Sensitive Curriculum Information Letter for Muslim Family پوسٹ کیا ہے Parents کی طرف سے ۔ اس لیٹر کے تمام خانوں کوچیک کر کے آپ اس کی ایک کاپی پرنسپل کو اور ایک کاپی کلاس ٹیچر کو ضرور جمع کرائیں۔ اس کے کچھ حصے پر تو عمل ہوگا۔ لیکن اس کے تمام حصوں پر عمل کرنا اور کرانا موجودہ قوانین کی روشنی میں کتنا مشکل ہے، آپ سمجھدار لوگ ہیں خود سمجھ سکتے ہیں۔یہ لیٹر کرسچن تنظیم کے فِل لیز نے تیار کیا تھا۔ کرسچن اور دوسرے مذہبی گروہوں کے لئے بھی ایسے لیٹرز ہیں جو ان کے ویب سائیٹ سے لیا جا سکتا ہے۔
میں کسی بھی حال میں پبلک اسکولنگ کے رسک کا کسی کو کبھی مشورہ نہیں دوں گا۔ اگر کوئی بھی سمجھدار اور غیرت مند انسان جس میں ایمان کا کوئی ذرہ ،کوئی کرن باقی ہوگا یہ مشورہ نہیں دے گا۔ جو لوگ اپنی فیملی کو لے کر کینیڈا ہجرت کا پروگرام بنا رہے ہیں وہ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ اپنی نسلوں کے بارے میں بھی سوچیں۔
Twitter: X/AsSeerah
Telegram: t.me/AsSeerah
AsSeerah What's App Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029Vas8OW13mFYCMzcAZl10
E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com