Skip to content

کینیڈا میں فاحش قوتیں اور حیا ءتحریک

جاوید انور

میرے گزشتہ کالم  میں  آپ نے پڑھا  کہ کس طرح  ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پرکہ  دیا کہ امریکا کی ریاستی پالیسی میں  صرف دو  جنس  ہوں گے، مرد اور عورت ۔ تیسرے کس صنف کی کوئی گنجائش نیست۔

ہمیں یہاں کینیڈا میں  بھی ایک ایسی لیڈرشپ چاہیے جو  یہی اسٹیٹ پالیسی لے کر آئے۔ اب اس سے کم پر بات نہیں ہوسکتی اور نہ  چل سکتی ہے۔ جب خدا کا عطا کردہ  دوجنس کا اصول مان لیا جائے گا اورریاستی  پالیسی بن جائے گی تو خود بخود  سارےجنسی اور صنفی  قوانین بدلیں گے اور اپنی  اصل حالت میں آجائیں گے۔اور فطرت سے ہم آہنگ ہو جائیں گے۔ میں نے  حیاء موومنت کے اپنے  ساتھیوں سے بارہا کہا ہے کہ ہمیں اپنی تحریک کو صرف اسکول اور بچوں تک محدود نہیں کرنا  ہے،  بلکہ پوری  سوسائٹی کی فاحِشَہ کلچر کوچیلنج کرنا  ہے تاکہ سوسائٹی کے تمام افراد؛  مرد،  عورت، جوان اور بچے اور بچیاں  سب محفوظ ہو جائیں۔

انگریزی کے دو حروف ایل  جی سے شروع ہونے والا فاحشہ عمل پہلے چار لیٹرز میں  آیا اس کے بعد ان لوگوں  نے سات رنگوں  کا قوسِ  قُزح  اپنا نشان اور جھنڈا بنا لیا تو ان لوگوں نے  سات رنگوں سے ہم آہنگ  بنانے والا جینڈر اور فاحشہ کی سات  شکلیں بتائیں(LGBTTIQ)، اس طرح ان لوگوں نے     قوس قزح کو اپنی پہچان بتایا۔

لیکن اب جب کہ صنفی اور جنسی   نفسانی رجحان   کی سات شکلیں  بڑھ کر بہت زیادہ ہو گئی ہیں ۔ تو ہماری یہ مُودِّبانہ گزارش ہے کہ اب آپ اپنا     نشان بھی تبدیل   کر لیں۔قوس قزح اب آپ کے لیے فٹ نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کو سات رنگوں میں ہی محدود رکر دیتاہے۔ ویسے بھی قوس قزح     امید اور زندگی کی علامت ہے اور آپ   تو فاحشہ کلچر کے ذریعہ اس دنیاسے زندگی کو ختم کرنے میں لگے ہیں۔

کینیڈا میں یہ بیماری  اتنی ہی پرانی ہے جتنی  پرانی  ساری دنیا میں، لیکن  یہاں اس کی شکل بدترین بن چکی ہے۔ قانون سازی  کے ذریعہ یہاں کی سوسائٹی اور کلچر کو  بدل دیا گیا ہے اور  فاحش کلچر کی ترویج  اسکول کے ذریعہ، لائبریری ، کتابوں، اسٹوری بکس ،،  کارٹون ،  موویز ،  اشتہارات  ، اور   اسٹریٹ  او ر اسٹیج شو کے ذریعہ بڑے پیمانے پر بلا روک  ٹوک پھیلایا جا رہا ہے۔ یہاں فاحش باضابطہ ایک  کلٹ کی طرح کام کر رہا ہے۔

ہم جنسیت  کا جو عمل ہے اس پر قرآن کی یہ گواہی ہے کہ  لوطؑ کی قوم سے قبل کبھی کسی قوم نے یہ  فعل نہیں کیا تھا۔  جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ قوم لوط ؑ پر اللہ کا عذاب آیا ، اور ایسا عذاب آیا جو پہلے کسی قوم پر نہیں آیا تھا۔ ان پر تہرا عذاب آیا۔  ان پر  آسمان سے  پتھر  برسائے گئے، زمین میں دھنسایا گیا، اور سونامی آئی، سمندر  کا پانی  ان کے اوپر آگیا۔ اور یہ  قوم جو کہ ٹرانس اردن  کے علاقہ میں  آباد تھی   بحیرہ مردار  کے اندر چلی گئی۔

اس قوم میں تین  طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ لوگ تھے جو یہ فعل کرتے تھے۔ دوسرے وہ جو کرتے نہیں تھے لیکن اس فعل کو یا تو  برا فعل نہیں سمجھتے تھے یا برا سمجھنے کے باوجود   خاموش  تماشائی  بنے تھے ۔ تیسرے وہ   جو عملاً  اس کو روکنے  کے لیے  جِدوجَہد کر رہے تھے۔ تو اللہ کا جو  عذاب آیا اس میں پہلا دونوں گِروہ عذاب کا شکار ہوا، اور صرف تیسرا گِروہ ہی بچ پایا۔ یعنی اس میں صرف لوط ؑ اور ان کی فیملی  بچی  لیکن اس میں بھی   ان کی بیوی کو چھوڑ کر۔ کیونکہ وہ  دوسرے گروہ میں  شامل تھی۔ کینیڈا میں ہمارے  فاحش ہم وطن یہ کہتے ہیں کہ’’ تم  اپنے وطن واپس چلے جاوُ‘‘    جب کہ لوطؑ کے اس قصہ سے معلوم ہوتا ہے  ہم اور وہی لوگ یہاں رہیں گے جو   حضرت لوطؑ  کے طریقہ پر چل  کر نہی عنی المنکر کا  فریضہ انجام دیں گے۔

میرے بھائیو اور  بہنوں!   یہ اشو بہت سنجیدہ  اشو ہے۔ ہم  اپنا اپنا   فرد کی حیثیت سے  اور اجتماعی حیثیت سے   جائزہ  لیں۔ ہم جس تنظیم،  جماعت ،  آرگنائزیشن  اور سرکل سے جڑے ہیں،  اس کا جائزہ لیں  کہ وہ کہاں  کھڑی ہیں؟  یہ دیکھیں کہ امر بالمعروف و نہی عنی المنکر  کے حوالے سے وہ  کہاں  کھڑے ہیں ۔کیونکہ   ہم سب اپنے اپنے گِروہ کی  ساتھ ہی  اٹھائے جائیں گے۔  دنیا میں بچ بھی گئے تو آخرت میں بچ نہیں پائیں گے۔ آپ معلوم کریں کہ  آپ کے امیر اور آپ کی  سرکردہ مسلم  اور اسلامی لیڈرشپ،    اور آپ کے پسندیدہ   امام  اس معاملہ میں کیا کرتے رہے ہیں  اور کیا کر رہے ہیں؟

ایک اور اہم بات جو ہماری کمیونٹی اور ہمارے  بیک ہوم ہم وطنوں اور ان کے   رہنماوُں کو نہیں معلوم وہ یہ کہ  مغرب  سے نکلی ہوئی  یہ فاحش تحریک  قوم لوطؑ کو  بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے ۔ مثال کے طور پرقوم لوطؑ کے ہاں کوئی  صنفی  کنفیوژن نہیں تھا  ۔وہاں  صنف کی سیال ہونے اور ہر آن بدلتی جنس و صنف    کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سب یہ مانتے تھے کہ  جنس صرف دو ہی ہوتے ہیں۔بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ یا تو    لڑکا ہوتا ہے یا لڑکی۔  ان کے یہاں تیسری جنس کو کوئی تصور نہیں تھا۔

دوسری بات یہ کہ  ہم جنسیت  کو وہ برا فعل ہی   سمجھتے تھے جو اس میں ملوث نہیں تھے وہ اسے ’’پاک باز‘‘ لوگ کہتے تھے۔سورۃ الاعراف  آیت نمبر  81   اور  82میں آیا کہ  جب لوطؑ نے ان سے کہا کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو؟  حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو‘‘۔تو ان کی قوم   نے انھیں جواب یہ دیا کہ ” نکالو اِن لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ۔‘‘

تیسری بڑی بات  یہ کہ  ان کے یہاں دو مردوں اور دو عورتوں کے درمیان   شادی بیاہ کا کوئی  تصور نہ تھا۔ وہاں   بچوں کی  دو ماوُں اور   اور  دو باپوں  کی کوئی  روایت  نہ تھی۔  چوتھی بات یہ کہ وہاں  چھوٹے ننھے معصوم بچوں کے دماغوں  میں جینڈر اور سیکس کے حوالے سے  اگڑم بگڑم  بھرنے کی کوئی روایت نہیں تھی۔  تو ان سب حوالوں سے موجودہ دور کے جنسی منحرفین اور  صنفی مُرتَدین اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں جو لوطؑ کی  ظالم قوم سے کہیں  زیادہ خطرناک ہے۔  اور یہ انسانی وجود کے لیے ایک بہت  بڑا  خطرہ ہے۔وہ       اس معاملہ  میں  تباہی کی ریڈ لائن کراس کر چکے  ہیں۔

کینیڈا میں فاحشہ کی نئی تحریک بھی  75 سال سے زیادہ پرانی ہے۔  اس درمیان میں   یہ لوگ کیا کچھ   کرتے رہے ، اس کی بہت لمبی تفصیل  ہے۔ہم اس میں ابھی نہیں جاتے ہیں۔  سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ اس  فاحش تحریک  نے کس طرح  کینیڈین  فیڈریل پارلیمنٹ سے   کا قانون پاس کرایا۔ اور اس کے بعد اس طرح کے تعلقات کو  قائم    کرنے کے لئے اور اسے بچوں اور بڑوں میں   فروغ دینے کے لئے مرکزی اور صوبائی  سطح پر  کیا کیا قانون سازی کی اور کیا  کیا اقدام اٹھائے۔ اور کس طرح ہماری پوری مسلم  ا ور اسلامی کمیونٹی ، دیگر مذہبی گروہ،  اور ایشین کمیونٹی ٹُک ٹُک دیِدَم دَم نَہ کَشیِدَم کی حالت میں اور لاپرواہی کی   مُدرا میں رہی  ہے۔  اس پر ان شا ء اللہ اگلے کالم میں بات کریں گے۔

کینیڈا میں فاحش قوتیں اور حیاء تحریک - Daily Jasarat News
گزشتہ کالم میں آپ نے پڑھا کہ کس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ امریکا کی ریاستی پالیسی میں صرف دو جنس ہوں گی، مرد اور عورت۔ تیسری کس صنف کی کوئی گنجائش نیست۔ ہمیں یہاں کینیڈا میں بھی ایک ایسی لیڈر شپ چاہیے جو یہی اسٹیٹ پالیسی لے کر آئے۔ […]

Comments

Latest

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

تحریر: حفید اختر مختار جنگِ مہابھارت کا ذکر ہندوؤں کی کئی اہم مذہبی و تاریخی کتب میں آیا ہے، جیسے بھگوت گیتا، ہری ونش پران، وشنو پران اور بھوشے پران وغیرہ، لیکن اس کا تفصیلی بیان مہاکاوی "مہابھارت" میں موجود ہے۔ اس جنگ کو ایسے بیان کیا جاتا

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

راشد مشتاق ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا  آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا تحریکِ اسلامی کے فکری و عملی تسلسل میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا وجود خود ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم بھی ایسی ہی ایک شخصیت

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (مندرجہ ذیل مضمون 1938 میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانانِ ہند، بخوبی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ وہ موجودہ حالات تک کیسے اور کیوں پہنچے۔ دوسری جانب، وہ مہاجرین جو ہجرت کرکےپاکستان آگئے،اور جو

1946   کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946  کے انتخابات  کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت اسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ ذیل میں ہم وہ مضمون اور اس کا جواب جوں کا توں نقل کر رہے ہیں۔ ۔ مدیر ترجمان القرآن کچھ دنوں سے اخبارات