جاوید انور
اس دنیا کی آبادی اس وقت تقریباً آٹھ بلین ہے۔ اس میں 195 ممالک ہیں، اور ان ممالک میں سب ملا کر ایک ہزار سے پندرہ سو تک صوبے اور ریاستیں ہیں۔ تقریباً پانچ ہزار سے زیادہ منفرد نسلی گروہ ہیں، جہاں لگ بھگ سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔لیکن، درحقیقت پوری دنیا میں رہنے والوں کی شہریت کی صرف دو اقسام ہیں۔ اور ہم سب کو ان دو شہریتوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہماری مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔
ایک شہریت ہے دنیا کی، اور دوسری شہریت ہے جنت کی۔جن کے پاس دنیا کی شہریت ہے، ان کے لیے جنت نہیں ہے۔
"جو کوئی عاجلہ کا خواہشمند ہو، اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں، پھر اس کے مقسوم میں جہنم لکھ دیتے ہیں، جسے وہ تاپے گا، ملامت زدہ اور رحمت سے محروم ہو کر" (سورۃ الاسرا: 18-19)
ہاں البتہ جن کے پاس جنت کی شہریت ہے، ان کو اکثر دنیا بھی مل جاتی ہے۔ جنت کی شہریت والے، جنت میں اپنے گھر کے لیے جو جدوجہد، جو جتن، جو کوشش کرتے ہیں، جو ایفرٹ لگاتے ہیں، اس سے انہیں دنیا ایسے ہی مل جاتی ہے۔
"ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے" (سورۃ ابراہیم: 27)
جنت کے شہری، دنیا رکھ کر بھی دنیا کے شہری نہیں ہوتے۔جب مال و دولت کی فراوانی ہوتی ہے تو خوب سے خوب، اور زیادہ سے زیادہ صدقات دے کر جنت میں اپنا پلاٹ اور اپنا گھر بڑا کرتے رہتے ہیں، اور اچھے سے اچھے پڑوس والا گھر بک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جان اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں"(سورۃ التوبہ: 111)
کمال کا سودا ہے! جان اور مال دونوں اللہ کا ہی دیا ہوا۔ اللہ اسے دے کر کہہ رہے ہیں کہ آؤ! اب ہماری دی ہوئی انھی چیزوں سے جنت کا سودا کر لو۔
دنیا اور جنت کی دوہری شہریت ممکن نہیں۔ ایسا چاہنے والا دنیا کا ہی شہری قرار پائے گا، آخرت کا نہیں۔
"اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا، اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا۔ اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ" (سورۃ الحج: 11)
"جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے، اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے، اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے" (سورۃ الشوریٰ: 20)
جنت کی شہریت والے بہت اسمارٹ لوگ ہوتے ہیں۔ اگر دنیا میں تنگی بھی ہوتی ہے تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اللہ سے ملاقات، حوضِ کوثر، وہاں اپنے محبوب ﷺ کا دیدار، اور جنت کی آرزو ان کے دل کو خوشیوں سے لبریز رکھتی ہے۔اور اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت یہی "خوشی" ہی تو ہے۔
ان کا نفس، "نفسِ مطمئنہ" ہوتا ہے۔ اس دنیا کا بڑا سے بڑا غم، ان کے لیے کوئی غم نہیں ہوتا، کوئی بڑی سے بڑی تکلیف، تکلیف نہیں لگتی۔کیونکہ دنیا کی اس رہائش کو وہ حالتِ سفر سمجھتے ہیں۔ اور یہ خوب جانتے ہیں کہ سفر میں تکلیف ہوتی ہے۔ سب کو بزنس اور ایگزیکیٹو کلاس نہیں ملتی۔ اکنامی میں بھی سفر کرنا ہوتا ہے۔ ٹرین اور بس سے بھی، تانگہ، رکشہ، بیل گاڑی اور خچر پر بھی سفر کرنا پڑ سکتا ہے۔
سات ستارہ، پانچ ستارہ، چار ستارہ، تین ستارہ — تو کیا — بہت معمولی ہوٹل میں بھی رہنا ہوتا ہے۔ کسی گیسٹ ہاؤس میں یا موٹیل میں بھی۔
پےئنگ گیسٹ بن کر، کرایہ کا مکان لے کر، یا کسی رشتہ دار کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھا کر، سفر کے دنوں کو گزار لیا جاتا ہے۔
سفر تو سفر ہے نا!
گھر پہنچ کر سستا لیں گے، آرام کر لیں گے تو سفر کی تکان دور ہو جائے گی۔
اور ہمارا جو گھر ہے، وہ تو ہے ہی مستقل آرام کی جگہ۔
وہاں تو نہ ختم ہونے والا آرام ہے۔
نہ بیماری، نہ صحت کی خرابی، نہ گھٹنوں کی تکلیف، نہ شوگر، نہ بلڈ پریشر، نہ کولیسٹرول، نہ دل، جگر اور گردے کی بیماریاں۔
نہ کسی قسم کا انفلوئنزا، نہ کورونا، نہ دوا، نہ انجیکشن، نہ ویکسین، اور نہ موت کا خوف۔
ہر مطلوبہ چیز مہیا ہے، خدّام خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
کوئی غم نہیں ہے، وہاں کوئی ناگوار بات نہیں سنی جائے گی۔
وہاں کی آوازیں مترنم ہوں گی، کانوں کو بہت بھلی لگیں گی۔
یہ طے ہے کہ دنیا کی شہریت رکھنے والے جنت میں نہیں جائیں گے۔
لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں دنیا میں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
وہ یہاں مٹی میں رُل نہیں جائیں گے، وہ خاک بن کر ادھر رہ نہیں جائیں گے۔
وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے، اور ان کا گھر جہنم میں تیار ہو گا۔ اور وہ ہے — بہت برا ٹھکانہ۔
"ہم نے تم لوگوں کو اس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آ لگا ہے۔ جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے، اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا!" (سورۃ النبا: آخری آیت)
اس دنیا میں رہ کر جو سب سے بڑا ذکر ہے، وہ ہے ذکرِ دار — یعنی "الدار" کا تذکرہ۔
اصل گھر کی بات، یعنی آخرت کا ذکر، جنت کا ذکر۔ اور یہ بہت بڑا ذکر ہے۔
"اور ہمارے بندوں، ابراہیمؑ، اسحٰقؑ، اور یعقوبؑ کا ذکر کرو۔ بڑی قوتِ عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔ ہم نے ان کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، وہ 'الدار' کی یاد تھی" (سورۃ ص: 45-46)
یعنی ان میں "الدار" کو یاد رکھنے کی جو خصوصیت تھی، اس کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں میں برگزیدہ ہوئے۔ یہی لوگ اللہ کے چنندہ ہیں۔
تو معلوم یہ ہوا کہ جنت کی شہریت رکھنے والے ہمیشہ "الدار" کو یاد رکھتے ہیں۔
"الدار" کو یاد رکھنے کا مطلب، "الدار" کی تسبیح یا وظیفہ نہیں ہے۔ اسے یاد کرنے کا مطلب وہ عملی جدوجہد ہے جو اس دنیا میں دین کو قائم کرنے کے لیے کی جاتی ہے، اور جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان کو جنت کا راستہ بتایا جائے، اور ادھر جانے کے لیے جتنی سیاسی، معاشرتی، تعلیمی اور اخلاقی رکاوٹیں ہوں، انہیں دور کیا جائے۔
اور "الدین" کے مطابق ملک کا نظام اس طرح چلا جائے کہ جہنم کے راستوں پر پہرہ بٹھا دیا جائے۔
اسلامی نظام کے ذریعہ تعلیم، تمدن، اور ابلاغ کو اس طرح ہموار کیا جائے کہ لوگوں کے لیے جنت میں جانا آسان، اور دوزخ میں جانا مشکل ہو جائے۔یہی ہے "الدار" کی یاد کا مطلب۔ یہی ہے "الدار" کے وظیفے کا مطلب۔
سورۃ الواقعہ میں تین گروہوں کا ذکر ہے:
ایک گروپ ہے أَصْحَـٰبُ ٱلْمَيْمَنَةِ — دائیں بازو والوں کا، یعنی جنت والوں کا۔
دوسرا گروپ ہے أَصْحَـٰبُ ٱلْمَشْـَٔمَةِ — بائیں بازو والوں کا، یعنی دوزخ والوں کا۔
لیکن ایک سب سے اعلیٰ معیار گروپ کا ذکر بھی ہے جسے ٱلسَّـٰبِقُونَ کہا گیا ہے۔
یہ بہت اعلیٰ درجہ کی جنت، یعنی جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ میں جانے والے لوگ ہیں۔
انہیں ٱلْمُقَرَّبُونَ کہا گیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے: ثُلَّةٌۭ مِّنَ ٱلْأَوَّلِينَ وَقَلِيلٌۭ مِّنَ ٱلْـَٔاخِرِينَ
"اگلوں میں سے بہت ہوں گے، اور پچھلوں میں سے کم" (آیت 13-14)
"اگلوں میں سے" مراد صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین۔
اور "پچھلوں میں سے" مراد ہم لوگ اور آگے قیامت تک کے لوگ۔
اس آیت میں ہم لوگوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ٱلْمُقَرَّبُونَ میں ہم لوگ بھی ہوں گے — خواہ کم ہی سہی۔کمیاب ہوں گے، نایاب نہیں۔
حرام اور حلال کے امور واضح ہیں، لیکن اس کے درمیان کی بھی کچھ چیزیں ہو سکتی ہیں۔
مقام اور احوال بدلنے سے بعض احکام میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔حلال و حرام کے درمیان کچھ سرمئی لائنیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ حرام کے لیے کچھ فقہاء اور مفتیوں کے فتوے بھی موجود ہوتے ہیں۔
شریعت میں "عزیمت" کا بھی پہلو ہوتا ہے، اور "رخصت" کا بھی۔
لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ ایسا کوئی رسک نہ لیں جس سے آپ کا آخرت کا گھر مشکل میں پڑ جائے۔
اپنے ضمیر سے بھی پوچھ لیا کریں۔
جنت کا، کبھی کسی چیز سے سمجھوتہ نہ کریں۔
شک، تذبذب، اور احتمال والے زون سے بھی باہر چلے جائیں۔آخرت میں حساب کتاب کے وقت کوئی فقیہ، مفتی یا عالم آپ کو بچا نہیں سکے گا۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہو گی۔
ہماری اماں حوّا اور بابا آدمؑ جنت سے ہی زمین پر آئے تھے۔
اس لیے ہمارا اصل گھر، ددھیال اور ننھیال — دونوں جنت ہے۔
اور ہمیں وہیں جانا ہے۔
جہاں جانے کا راستہ ہم سب کو معلوم ہے۔
اس راستے سے انحراف نہ کریں۔
اپنی جنت کی شہریت کو محفوظ رکھیں، اسے بچا لیں۔
(پیڈ یا فری سبسکرپشن کے ساتھ، کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے دینا ہرگز نہ بھولیے گا)