Skip to content

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (1)

جاوید انور

پاکستان کے آئین میں جو 27ویں ترمیم ہوئی ہے، اسے تاریخی، فوجی، عالمی اور علاقائی جیو پالیٹکس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امن کے راستے کی باتیں تو کرتے ہیں، مگر دراصل وہ جنگ کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں۔ انہوں نے اپنے محکمہ دفاع کا نام بدل کر محکمہ جنگ قرار دے دیا، تاکہ کسی کو ان کے مقاصد پر شک کی خلش ہی نہ ہو۔ اسرائیل کو فلسطین میں نسل کشی کی کھلی چھوٹ مل جائے گی، اور اسے مسلسل ہتھیاروں کی فراہمی جاری رہے گی۔ یوکرین میں لڑائی کا شعلہ بھڑکتا رہے گا، اور تیسرا محاذ انڈیا، پاکستان اور افغانستان کا کھلا ہے۔ مگر اصل میں یہ صرف افغانستان کا محاذ ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی فضائی سرکس تو محض عوامی تفریح ہے—دونوں ملکوں کے عوام کی خوشی کے لیے۔ دونوں طرف کے حکمرانوں کی یہ ’’خوش قسمتی‘‘ ہے کہ ان کے عوام فوجی اور ریاستی جنگی  بیانیوں پر اندھا بھروسہ  کرتے ہیں، سو فی صد یقین کے ساتھ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں کوئی بھی جنگ ایسی نہیں ہوئی جس میں امریکا براہ راست یا بالواسطہ ملوث نہ ہو۔ جب بھی امریکا کو پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی، پاکستان نے آگے بڑھ کر اس کی خدمت کی۔ یہ خدمت گزاری 1947 سے شروع نہیں ہوئی—یہ تو انیسویں صدی سے چلی آ رہی ہے، جب پاکستانی فوج برطانوی سامراج کی وفادار سپاہی تھی۔امریکا کو ہر نازک موقع پر پاکستان کی فوجی قیادت کی ضرورت پڑی ہے۔ ایسے مواقع پر سویلین حکومتیں اسے پسند نہیں آتیں، اور انہیں گھر کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔

سوویت یونین کی افغانستان آمد فوجی جارحیت کی صورت میں ہوئی، مگر امریکا کو پہلے سے خبر تھی کہ یہ طوفان آنے والا ہے۔ روس کے مقابلے میں امریکی مدد سے پاکستان کو جہاد کے لیے تیار کرنا تھا۔ ایک نمازی، مذہبی جنرل محمد ضیا الحق کو آرمی چیف کا عہدہ دلایا گیا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی سویلین حکومت تھی، جو امریکا کو بالکل ناپسند تھی۔ ان کے خلاف عوامی تحریک کا طوفان برپا ہوا۔ میرے مرحوم چچا فرماتے تھے کہ جب یہاں امریکا کسی سے ناراض ہوتا ہے اور اسے ہٹانا چاہتا ہے، تو بچوں سے لے کر بڑوں تک سب چھ فٹ اچھلنے لگتے ہیں، اور نعرہ گونج اٹھتا ہے: ’’گنجے کے سر پر ہل چلے گا، گنجا سر کے بل چلے گا!‘‘ (یہ نعرہ بھٹو مرحوم کے خلاف لگایا جاتا تھا، جن کے سر پر بال تو بہت کم تھے ہی)۔

جنرل ضیا الحق نے سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انہیں یہ خدشہ تھا کہ بھٹو زندہ رہے تو بدلے کی آگ میں جل جائیں گے۔ وہ سوچنے لگے کہ ایک قبر تیار ہے—اس میں سے بھٹو یا ضیا الحق، کوئی ایک تو لیٹنا ہی پڑے گا۔ بھٹو کو پھانسی دے کر وہ قبر بھر دی گئی۔ اب بے خوف جنرل ضیا الحق کی قیادت میں پاکستانی انٹیلی جنس اور افغان مجاہدین کے تعاون سے امریکا نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی، اور اسے کرار کر دیا۔ کامیابی کے بعد افغانستان میں امریکا کو جس طرح کی  حکومت چاہیے تھی، افغان مجاہد تنظیمیں تیار نہ ہوئیں۔ البتہ جنرل ضیا الحق مجاہد تنظیموں کے محبوب قائد بن چکے تھے۔اسی لئے وہ امریکا کے غیر محبوب بن گئے۔

1989 میں جنرل ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا، اور ان کے ساتھ ان کی بڑی ٹیم بھی شہید ہو گئی۔ جنرل اسلم بیگ نئے آرمی چیف بنے۔ انہوں نے فوری الیکشن کروائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نئی منتخب وزیراعظم بنیں۔ صدر غلام اسحاق خان کو منتخب حکومت برخواست کرنے کا اختیار تھا۔ انہوں نے بے نظیر کی مدت پوری نہ ہونے دی، پھر نواز شریف کی حکومت بنی، اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ بے نظیر اور نواز دونوں سویلین حکمران ’’ان فٹ‘‘ تھے، کیونکہ افغانستان میں امریکا کی پسندیدہ رجیم بنانے میں وہ بے بس تھے۔

بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ان کے وزیر داخلہ نصرت اللہ بابرجو فوج میں خدمات دے چکے تھے،نے پاکستان کے مدارس میں پڑھنے والے افغان طلبہ کو تیار کیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ خانہ جنگی زدہ افغانستان جا کر حکومت سنبھال لو۔ انہیں اسلحہ، تربیت دی گئی، اور مسلح ہو کر افغانستان میں داخل کر دیا گیا۔ خانہ جنگی کے وار لارڈز ان کا مقابلہ نہ کر سکے، اور معمولی جھڑپوں کے بعد انہوں نے کابل کی حکومت قبضے میں لے لی۔

 سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کے برعکس، طالبان کا امریکی انتخاب غالباً اس لیے تھا کہ مجاہدین گلوبل اسلام کے پرچم بردار تھے، جبکہ طالبان مقامی، محدود اسلام کے۔ امریکا کا خیال تھا کہ ان کا اسلام داڑھی، ٹوپی، پاجامہ، تسبیح اور اذکار تک محصور رہے گا—اور وہ عالمی تجارت، فوج اور سامراجی مفادات کا آلہ کار بن جائیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ طالبان کو گلوبل اسلام اور جیو پالیٹکس کی گہرائیاں جلد سمجھ آ گئیں۔ وہ امریکی مفادات کے سامنے نہ جھکے، بلکہ سود سے پاک معیشت قائم کی اور شریعت نافذ کر دی۔ سود، ڈالر اور سرمایہ دارانہ مغربی نظام کا سرغنہ امریکا اس پر آگ بگولہ ہو گیا، اور سزا دینے کی تیاری شروع کر دی۔

جنرل پرویز مشرف جن کے امریکا اور اسرائیل دونوں سے گہرے رابطے تھے،کو نچلے رینک سے تیزی سے اوپر چڑھایا گیا۔ جب وہ آرمی چیف بنے، تو انہیں قومی ہیرو بنانے کے لیے کشمیر میں کارگل کی چڑھائی کا حکم دیا گیا۔ امریکا پاکستان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں برسوں سے الجھائے رکھا تھا۔ مقصد بھارت کو سوویت/روس کیمپ سے نکال کر امریکی کیمپ میں لانا، اور امریکی کمپنیوں کے لیے بھارتی دروازے کھولنا۔اندازہ یہی ہے کہ یہ مقاصد جنرل مشرف کے کارگل ایڈونچر کے بعد پورے ہو گئے۔ 2019 میں جب پاکستان کا سیاسی و فوجی وفد امریکا گیا، تو اس کے بعد بھارت نے دستور ہند کی دفعہ 370 ہٹا دی، جو کشمیر کی خصوصی حیثیت تھی۔ کشمیر کی وہ جہادی تنظیمیں،جو امریکی مقاصد کے لیے تیار کی گئی تھیں،سب غیر قانونی قرار پائیں، اور ان کے قائدین جیلوں میں مجاہد کمانڈرز سے قیدی بن گئے۔

پاکستان کی مقتدرہ عوام کو جو بھی بتاتی رہے، حقیقت یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول ہی اب بارڈر لائن بن چکی ہے۔ پاکستان سے کہہ دیا گیا: ’’مشرقی سرحد پر تمہاری ضرورت ختم، اب مغربی بارڈر پر افغانستان فوکس کرو اور ہماری خدمت جاری رکھو۔‘‘ مقصد اب صرف امریکی اتحادی فوج کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان مجاہد قوت کا خاتمہ تھا—اور پاکستان کے شمال مغرب میں طالبان کے حامی پٹھانوں کی نسل کشی۔ عمران خان اس نسل کشی میں امریکا کی مطلوب حد تک نہ جانا چاہتے تھے، اس لیے ان کی ’’چھٹی‘‘ کر دی گئی۔ اور اب میاں شہباز شریف امریکا کو سیلوٹ مارنے میں نہیں تھکتے۔

جنرل پرویز مشرف ایک لبرل تھے—اسرائیل اور امریکا کے دیرینہ دوست، کمال اتا ترک کے پرستار۔ وہ فطری طور پر اسلامی طالبان کے مخالف تھے۔ امریکا نے جب افغانستان سے طالبان (اور عراق سے صدام حسین) کو صاف کرنے  کا ارادہ کیا، تو پاکستان میں دو تہائی اکثریت والی سویلین حکومتِ مسلم لیگ (ن) کو ہٹایا گیا۔ کارگل کے ’’فاتح‘‘ مشرف کو قومی ہیرو بنا دیا گیا تھا—پروپگنڈہ کی طاقت نے ایک زیرو کو ہیرو، دشمن کو دوست بنا دیا۔ فوجی کودٹہ سے جنرل مشرف پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ امریکا میں 11 ستمبر کا سانحہ کروا کر افغانستان اور عراق پر حملے کا منصوبہ بنایا گیا۔ افغانستان پر پہلے بمباری ہوئی۔ مشرف نے افغانستان کے پاکستان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالہ کر کے سفارتی تاریخ کا بدترین باب لکھ دیا۔ ہزاروں پاکستانیوں اور پٹھانوں کو گرفتار کر کے امریکا کو سونپ دیا، جن سے گوانتانامو بے کے تشدد خانے سجے، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عالمی ڈھول پیٹا گیا۔

جنرل مشرف نے بلوچستان اور وزیرستان میں پاکستانی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اسلام آباد کی لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر بمباری کر کے سیکڑوں طالبات اور اساتذہ کو شہید کر دیا—جن میں سے اکثر وزیرستان اور شمال مغرب سے تھیں۔ مشرف امریکا کے ’’دینِ اسلام‘‘ (مذہبِ اسلام نہیں، دین تو زندگی کا نظام ہے، مذہب مسجد تک محدود) کے خلاف اس جنگ کے لیے بہترین جنرل تھے—جسے دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا۔ اسرائیل اور امریکا کے ہر دل عزیز چہیتے۔ مشرف اور ان کے بعد کے تمام جنرلز اسی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں لڑتے رہے۔ اب اسی مشن کے لیے ایک ’’حافظ‘‘ کو منتخب کیا گیا ہے، اور ستائیسویں ترمیم سے اسے ناقابلِ تسخیر طاقت دے دی گئی ہے۔

یہ سب کچھ افغانستان پر حملے کی تیاری کا حصہ ہے۔

WhatsApp Channel: AsSeerah

E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com

Subscribe: AsSeerah+subscribe@groups.io

Follow:  AsSeerah Facebook Page         AsSeerah X     

Be the Writer’s Friend   

https://www.facebook.com/JawedAnwarPage

Comments

Latest

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

جاوید انور حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور

تعلیم کی ترجیحات

تعلیم کی ترجیحات

اسلام نے تعلیم کو ہر انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور قرآن و سنت کو اولین ترجیح دی۔ مغربی مادہ پرست نظام نے ہماری سمت بدل دی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی اصل اسلامی ترجیحات کے مطابق نصاب مرتب کریں تاکہ نئی نسل مقصدِ حیات اور اسلامی تہذیب سے جڑی رہے۔