جاوید انور
اللہ ہمیں معاف کرے۔ ہم غلطی پر تھے۔ ہماری عقل پر پردہ پڑ گیا تھا، ہم نسیان میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اب تک ہم جاہلی سیاست کے کسی نہ کسی طور سے معاون و مددگار بنے رہے۔ ہماری مسلم اور اسلامی برادری نے اسلامی سیاست کو چھوڑ کر جاہلی سیاست کی دلدادہ بن کر اپنا مقام کھو دیا ہے۔
ہمیں یہ کیا ہو گیا کہ اسلام کے مکمل نظام حیات، رہنمائی، اور زندگی گزارنے کے طریقوں کے باوجود ہم نے سیاست اور تمدن کو دوسروں کے حوالے کر دیا؟ ہم طاغوت کے پیروکار بن گئے اور اسی کے دست و بازو بن کر رہ گئے۔
کس نے یہ آواز بلند کی کہ سیاست میں تمہیں برائی، باطل، اور طاغوت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے؟ کس نے کہا کہ دو برائیوں میں سے ایک کو چننا ہے؟ کس نے کہا کہ کسی نہ کسی فاسق و فاجر کے نام پر ووٹ کی مہر لگانا ضروری ہے؟ کس نے کہا کہ تم غیر الٰہی نظام کے حامی و مددگار بنو؟
تم الیکشن میں امیدوار بنتے ہو، کسی ایسی سیاسی جماعت کی طرف سے جو خواہشات نفس کو اپنا خدا بنا چکی ہے۔ تم ان نفس پرستوں کے لیے سیاسی مہم چلاتے ہو، ان کی حمایت کرتے ہو، اور انہیں ووٹ دیتے ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا؟ کیا تم اسے راہ راست پر لا سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔" الفرقان 25: 43-44
تم (مسلم ارکان) اسمبلیوں میں ان کے پیش کردہ فاحش بلوں کی حمایت میں سب سے آگے کھڑے ہوتے ہو اور ان قوانین کی تائید کرتے ہو۔ وہ الٰہی نظام کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اور تم ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہو۔ یہ کیسے عالم، مفتی، فقیہ، اسلامی دانشور، اور شریعت کے پی ایچ ڈی یافتہ ہیں جو یا تو تمہاری اس گمراہی میں شریک ہوتے ہیں یا خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں؟
جب اسمبلیوں میں برائیوں کے قوانین کا سیلاب آتا ہے، تو یہ لوگ ائمہ مساجد کو خط لکھتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے کا موضوع زمانے کے حالات یا کوئی برائی نہ ہو، بلکہ "روحانی تجربات" ہوں۔ یہ کیسے "جدید" علماء ہیں؟ (میں نے "جدید" کا لاحقہ اس لیے استعمال کیا کہ ہمیں اب بھی قدیم و روایتی علماء سے ہی امید ہے جو جدیدیت سے متاثر نہیں ہوئے۔) یہ وہ علماء ہیں جو سیاست سے توحید و شرک کی بحث کو خارج رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسے دانشور ہیں جو ایک طرف "اقامت دین" پر کتابیں لکھتے ہیں اور دوسری طرف اپنے سیاسی دروس میں کسی نہ کسی غیر الٰہی، مفسد سیاسی جماعت یا نظریات سے جڑنے کی تلقین کرتے ہیں؟ یہ اپنی پوری زندگی دین لبرلزم کی اقامت میں کھپاتے ہیں۔ یہ کیسے علماء، امراء، دانشور، اور جماعتیں ہیں جو برائی کے خلاف اٹھنے والی ہر کمزور آواز کو بھی دبانے کی کوشش کرتی ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:
"نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔" المائدہ 5: 2
لیکن یہ لوگ عملاً اس کے برعکس کرتے ہیں۔ وہ گناہ و زیادتی پر تعاون کرتے ہیں اور نیکی و تقویٰ کی مدد سے گریزاں ہیں۔
یہ کیسے ہمارے نام نہاد تحریکی بھائی ہیں جو لبرل پلیٹ فارم سے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کے بجائے "امر بالمنکر و نہی عن المعروف" کا فریضہ انجام دیتے ہیں؟ یہ کیسے تحریکی رہنما ہیں جو خالص فاحِش سیاسی جماعت کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، انتخاب لڑتے ہیں، اور ان کی فاحش پالیسیوں کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں؟ وہ الیکشن ڈیبیٹ میں کہتے ہیں کہ ہم کینیڈین چارٹر پر ایمان رکھتے ہیں، جو فاحش (ہم جنس)تعلقات کو تحفظ دیتا ہے، اور پھر اپنے ساتھیوں کے درمیان جا کر قرآن کے دروس دیتے ہیں۔ وہ خود کو ماہر مدرس قرآن بھی کہلاتے ہیں، لیکن ان کا پورا سیاسی سرمایہ فاحِش و فاحِشہ امیدواروں کی انتخابی مہم ہے۔
کس نے ان کی تربیت کی کہ وہ اپنے نوجوانوں کو فاسق و فاحش جماعتوں کا کارکن بنائیں؟ یہ کون لوگ ہیں جو سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام لیتے ہیں، لیکن ان کے برعکس کام کرتے ہیں؟ سید مودودیؒ کی پوری زندگی دین کو سیاست پر غالب کرنے کی جدوجہد میں گزری، جبکہ یہ لوگ دین سے سیاست کو الگ کرنے میں مصروف ہیں۔
یہ کیسے نئے استاد ہیں جو "سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا"؟
علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہ دین سے جدا سیاست کی چنگیزیت اور فاحشیت کے ہمنوا کون ہیں؟ دیکھیےان کے حمایتیوں کی لمبی لسٹ—امام، علماء، فقہاء، اور تحریکی ساتھی، جو منبر رسولﷺ سے بھی ان کی حمایت میں بولتے ہیں۔ افسوس، صد افسوس!
کینیڈا میں فیڈرل الیکشن کا اعلان ہو چکا ہے، جو رواں ماہ اپریل کی 28 تاریخ کو مکمل ہو جائے گا۔ برطانوی مغربی جمہوری نظام میں دو جماعتوں (لبرل یا کنزرویٹو) میں سے ایک ہی کو حکومت بنانا ہے۔ باقی جماعتیں چند سیٹوں پر "چٹنی اور اچار" کی طرح نمائندگی حاصل کرتی ہیں یا بیلٹ پیپر پر ہی فنا ہو جاتی ہیں۔ ان کی حیثیت موسمی پتنگوں جیسی ہے جو ایک دن میں مرجھا جاتی ہیں۔
نئی سیاسی جماعتیں بنانے والوں اور امیدوار بننے والوں کو چاہیے کہ وہ اس نظام کی تاریخ اور مقصد کا مطالعہ کریں۔ وہ خود کو "جنت الحمقاء" سے نکالیں اور اپنا وقت و سرمایہ بے فائدہ سیاست میں ضائع کرنے کے بجائے کسی مفید مقصد میں لگائیں۔
یہ واضح ہے کہ اس الیکشن میں لبرل یا کنزرویٹو میں سے ایک جیتے گی۔ لبرل پارٹی مذہب دشمن ہے، جو خواہشات نفس کی پوجا کرتی ہے۔ اس نے صوبائی و فیڈرل سطح پر خاندان، معاشرہ، اور تعلیم کو تباہ کرنے والے فاحش قوانین بنائے، جنہوں نے اس ملک کی اخلاقیات و روحانیت کو برباد کر دیا۔ اس نے ایسی شیطانی فضا قائم کی، جہاں سانس لینا دشوار ہو گیا۔ اس نے روایتی و مذہبی خاندانوں کا جینا حرام کر دیا اور فحش کلچر کا گند پھیلایا۔ لبرل پارٹی (بشمول این ڈی پی) ایسی فحش تہذیب کی بانی ہے جو تاریخ انسانی میں بے مثال ہے۔
کنزرویٹو پارٹی، جو کبھی سماجی قدامت پسندی کی حامی تھی، اب فاحش سیاسی گروہوں کے سامنے سرنڈر کر چکی ہے۔ اس نے سابق رہنما ایئرن او ٹول کی قیادت میں لبرل پارٹی کے "اینٹی کنورژن تھراپی بل" کی مکمل حمایت کی۔ اس کا موجودہ لیڈر خود کو اسرائیل کا دوست کہتا ہے، جو فلسطین میں خونریزی اور تباہی پر خوش ہوتا ہے۔ اسے ظالم سے محبت اور مظلوم سے نفرت ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے 2015 کے الیکشن ڈیبیٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کے معاملے میں سب جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ لبرل پارٹی نے ہمیشہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ این ڈی پی نے بھی اونٹاریو میں ایک مسلم رکن اسمبلی، معذور، سارہ جامع، کو فلسطین کی حمایت پر پارٹی سے نکال دیا۔ سارہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن ہار گئیں، کیونکہ یہ نظام حق کی آواز کو جیتنے نہیں دیتا۔
تم کہتے ہو کہ دو برائیوں میں سے چھوٹی کو ووٹ دو۔ میں پوچھتا ہوں: تمہارا ضمیر کیسا ہے؟ تمہاری سمجھ کہاں ہے؟ تمہاری خودی کہاں گئی؟ تمہارا علم اور ایمان کہاں ہے؟
تمہارے ووٹ سے جو جیتے گا، وہ کوئی ظالمانہ یا فاحش قانون بنائے گا تو اس کا گناہ تمہیں بھی ملے گا۔ ثواب و گناہ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
"جس نے ذرہ برابر نیکی کی، وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بدی کی، وہ اسے دیکھ لے گا۔" الزلزال 99: 7-8
اسلامی سیاست کا مقدمہ
ہمیں بہت پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کا مطلب کیا ہے۔ پھر بھی ہم غفلت میں رہے۔ زمانے کے رواج اور ماحول نے ہمیں ووٹ دینے سے نہ روکا۔ ووٹ ایک امانت ہے، ایک گواہی ہے—الٰہی نظام کے لیے یا غیر الٰہی نظام کے لیے۔ ہم ووٹ کسی فرد یا پارٹی کو نہیں دیتے، بلکہ اس نظام کو دیتے ہیں جو اللہ کو قبول نہیں۔
لا إله إلا الله محمد رسول الله
اس گواہی کا مطلب ہے کہ ہماری پوری زندگی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت یعنی قرآن و سنت کے مطابق چلے گی۔ تاریخ کا کوئی تجربہ یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ قرآن کی دی ہوئی رہنمائی—عقائد، اخلاق، قانون، تہذیب، معیشت، معاشرت، اور سیاست میں—غلط ہے۔
ہم نے مانا کہ اللہ الواحد(یکتا) ، الملک (بادشاہ) ، مالک الملک (تمام بادشاہی کا مالک )، ملک السماوات والأرض (آسمانوں اور زمین کا مالک) ، اور حاکم ہے۔ اس کا حکم آسمانوں اور زمین میں چلتا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ وہ کبھی سوتا نہیں، نہ اسے اونگھ آتی ہے۔
’’ وہ زندہ جاوید ہستی ، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔نہ وہ سوتا ہے ، اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔‘‘ البقرہ2: 255
ہم نے مانا کہ وہ بدیع السماوات والأرض (آسمان اور زمین کا موجد) ، العلی (سب سے بلند ) ، المتعالی ( بلند و بالا)، الکبیر(سب سے بڑا)، ، العظیم، الجلیل ( عظمت والا) ، المجید( بزرگی والا) ، اور ذو الجلال والإکرام (عظمت و بزرگی والا)ہے۔ وہ القادر( قدرت والا) ، المقتدر( زبردست طاقت والا ) ، القوی ( طاقتور)، ، المتین(مضبوط)، المحی( زندہ کرنے والا) ، اور الممیت(موت دینے والا) ہے۔ وہ الوالی( کارساز، حاکم) ، القھار (ہر چیز پر غالب) ، الحکم (فیصلے کرنے والا) ، الحکیم (حکمت والا) ، المہیمن ( نگہبان و محافظ )، العزیز ( غالب، زبردست)، الوھاب(بہت عطا کرنے والا) ، الرزاق (روزی دینے والا)، ، الواسع (وسعت والا)، المغنی (غنی کرنے والا)، الفتاح (کھولنے والا، فیصلہ فرمانے والا) ، القابض (روکنے والا) ، الرافع (بلند کرنے والا) ، الخافض (نیچا کرنے والا) ، المعز(عزت دینے والا)، ، المذل (ذلت دینے والا )، السمیع ( سب کچھ سننے والا) ، البصیر(سب کچھ دیکھنے والا) ، الحفیظ ( حفاظت کرنے والا) ، الرقیب( نگرانی کرنے والا) ، الولی (دوست، کارساز) ، العدل(انصاف کرنے والا) ، الحق( برحق، سچائی والا) ، الھادی( ہدایت دینے والا) ، الوکیل( کارساز، کفایت کرنے والا) ، اور الشھید(گواہ) ہے۔
کیا ہم بھول گئے کہ ہمارے معبود، ہمارے رب نے ہم سے زمین کی خلافت اور وراثت کا وعدہ کر رکھا ہے:
’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا “اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو وہ چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انہی کے لیے ہے جو اُس سے ڈرتے ہوئے کام کریں”۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا ”تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔“ اس نے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟‘‘الاعراف 7: 128-129
’’ تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور اُنہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ اُنہوں نے ہماری نشانیوں کو جُھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہوگئے تھے اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیا تھا۔؟‘‘الاعراف 7: 136-137
’’اور زَبُور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار (اطاعت گزار) لوگوں کے لیے‘‘۔الأنبياء 21: 105-106
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بُنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالےٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے ، اور اُن کی (موجودہ )حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی (اطاعت) کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کُفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔النّور24: 55
’’کون ہے جو بے قرار کی دُعا سُنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو)تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی (یہ کام کرنے والا)ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔النّمل27: 62
’’اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں-اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دِکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا‘‘۔ القصص28: 5-6
اللہ نے ہم سے الدین، یعنی دین حق کے غلبہ کا وعدہ بھی کیا تھا:
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو پورے جنس دین پر غالب کردے۔ اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔‘‘الفتح28: 48
’’ یہ لوگ اپنے مُنہ کی پُھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُور کو پُورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پُورے کے پُورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ الصّف 61: 8
خلافت کا نظام
دین حق کا سیاسی نظام خلافت ہے، جس کی تین بنیادیں ہیں:
1. توحید: اقتدار اعلیٰ اللہ کا ہے۔ وہ قانون ساز ہے۔ نہ کوئی بادشاہ، نہ آمر، نہ جمہوری اسمبلی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
’’ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے ‘‘۔یوسف 12: 40
’’لوگو، جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو ‘‘۔اعراف۔ 7: 37
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔المائدہ 5: 44
- رسالت: رہنمائی محمد رسول اللہﷺ سے ہے۔ وہی ہمارے سیاسی و تمدنی رہنما ہیں۔
’’ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔ النساء4: 64
’’جو رسول کی اطاعت کرے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی ‘‘النساء 4: 80
’’پس نہیں، تیرے رب کی قسم وہ ہر گز مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں‘‘۔النساء 4: 65
3.آخرت: حکومت کا مقصد دنیا و آخرت کی بھلائی اور جہنم سے نجات ہے۔
"اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں حسنات دے اور آخرت میں بھی حسنات دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔البقرہ2: 2012:
’’ (یہ اہل ایمان والے وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، بھلائی کا حکم دیں گے، اور برائی سے روکیں گے ‘‘الحج 22: 41
تاہم یہ دین کا اقتدار، دین کا غلبہ، دین کی اقامت، اللہ کے نور کا پھیلاو خود بخود نہیں ہوگا۔ یہ اللہ کی مصلحت کے خلاف ہے۔ اس کے لیے انسانوں کو کاوش کرنی پڑے گی۔اللہ نے اعلان کر دیا ہے کہ:
“اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے” ۔الصّف 61: 8-9
کرنے کا کام
1. دعوت دین: اللہ کا نظام حیات سیاسی رہنماؤں، قانون سازوں، اور عوام تک پہنچائیں۔
"’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بُلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں‘‘۔فُصِّلَت 41: 33
2. اقامت دین: اقامت دین: (سیاسی) امامت صالحہ کا قیام، حکومت الٰہیہ ، نظام مصطفیٰ ﷺ ، اور شریعت کا نفاذ، ہماری زندگی کے اعلیٰ مقاصد ہونے چاہیے۔ اور یہ اسلامی سیاست دراصل شہادت حق اوردعوت دین کا فریضہ، اعلائے کلمۃ اللہ کی بلندی، امر بالمعروف و نہی عنی المنکر کے لیےعملی جدوجہد کا نام ہے۔
’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ’’ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاوٴ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے‘‘۔فُصِّلَت 41: 30-32
طریقہ کار:
جہاد بالقرآن یعنی علمی جہاد
’’پس اے نبیؐ ، کافروں کی بات ہر گز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو ‘‘ ۔ الفرقان 25: 52
نہ صرف قرآن سے (علمی) جہاد کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ اسے جہاد کبیربھی کہا گیا ہے۔
یہاں اقلیت ا اکثریت کا سوال ہی نہیں ہے۔ جب انبیاء آتے ہیں تو وہ ایک فی دنیا ہوتے ہیں۔ ہم جہاں بھی ہیں جس ملک میں ہوں، آبادی کے رجسٹر میں کتنے بھی کم ہوں یا زیادہ ، ہمیں کام یہی کرنا ہے۔پوری دنیا ایک ہے، ایک ہی زمین ہے اور سب کا مالک اللہ ہے اوروہ ہر جگہ سےہمیں دیکھ رہا ہے، ہماری نگہبانی کر رہا ہے۔
ہم اپنی منزل سے آگاہ ہیں اور اس تک پہنچنے کا راستہ بھی جانتے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ ہم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکیں، تو ایک ہی جگہ کھڑے ہوکر اپنی منزل کی طرف دیکھتے رہنا، سمتِ سفر بدلنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔
ہم اعلان کرتے ہیں: ’’ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے۔‘‘
میرا اللہ الخبیر (ہر چیز سے باخبر) اور الوارث (سب کچھ واپس لینے والا) ہے۔
what's app: +1.416.568.8190 Facebook/JawedAnwarPage Twitter/AsSeerah