Skip to content

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

جاوید انور

دیکھیے، یہ ’’امت‘‘ کی آواز کہاں سے بلند ہو رہی ہے؟ ذرا کان لگائیے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم امت قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اور اس کی پکار دب گئی تھی۔ کسی قومی رہنما یا فوجی سربراہ نے امتِ مسلمہ کو کبھی متحدہ طور پر مخاطب نہیں کیا۔ یہ اصطلاح صرف علما اور عوام تک محدود رہی۔ قومی لیڈروں نے اپنے وطن کی جغرافیائی حدود سے باہر کے مسلمانوں یا مظلوموں کی بات نہیں کی، اور اگر کی بھی تو صرف زبانی جمع خرچ۔ صرف خلافت کے دور میں ہی ’’امت‘‘ کا عملی تصور موجود تھا، جب خلیفہ وقت تمام مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اب مسلم امت کی دبی ہوئی آواز پھر سے بلند ہو رہی ہے۔

نسیمِ سحر کا تازہ جھونکا ایران سے آیا ہے۔ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں مسلم امت کے نام خطاب میں سورۃ آل عمران کی آیت 126 کا حوالہ دیا: ’’اور فتح صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ انہوں نے قرآنی آیات کی روشنی میں امت سے اتحاد، استقامت، اور اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھنے کی اپیل کی، تاکہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔

علامہ محمد اقبالؒ، جنہیں مغربی سیاست و تہذیب کی چالاکیوں کا گہرا ادراک تھا، نے  1938  (انتقال کا سال) سے قبل ایران میں اسلامی انقلاب کی پیش گوئی کر دی تھی:
’’طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!‘‘
اقبالؒ نے جینیوا (اقوام متحدہ) سے کوئی امید نہیں رکھی، بلکہ مشرق میں ایک نئے جینیوا کی توقع مسلم  ایران سے کی۔ کیا آج کا ایران امتِ مسلمہ کی قیادت کا اہل ہے؟ جواب ہے: ہاں، بدرجہ اتم۔ افسوس کہ پاکستانی علماء نے ایران کے اسلامی انقلاب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ انقلاب علماءاور عوام کی پرامن جدوجہد سے آیا تھا۔ اگرچہ پاکستان کا اسلامی انقلاب سنی رنگ کا ہوتا، لیکن ایران کے انقلاب کو مسلکی تعصب کی نظر سے دیکھا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے ملوک نے اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا اور شیعہ-سنی منافرت کو ہوا دی۔ مغرب نے ایران کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے عرب عصبیت کو ابھارا، عراق کے ذریعے ایران پر حملہ کرایا، اور مسلکی علما کی ایک کھیپ تیار کی گئی، جس کے پیچھے پیٹرو ڈالرز تھے۔

پاکستان میں شیعہ-سنی تشدد عالمی ایجنسیوں کے ذریعے کرایا گیا۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے ہوئے، دیواریں ’’شیعہ کافر‘‘ کے نعروں سے بھر گئیں۔ تاہم پاکستانی دینی و سیاسی قیادت کی بیداری کی وجہ سے یہ خون خرابہ زیادہ نہ بڑھا۔ خصوصاً قاضی حسین احمدؒ اور مولانا طارق جمیل کی کوششیں بہت نمایاں رہی ہیں۔

پاکستان کی دینی قیادت میں اتحاد و اتفاق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سن 1951ء میں 31 جید علماء نے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے 22 نکاتی متفقہ پروگرام پیش کیا تھا، جس میں تمام مکاتبِ فکر، بشمول شیعہ، شامل تھے۔ یہ پروگرام فرقہ پرستی کے خلاف اور پاکستان کے ان حکمرانوں کے منہ پر ایک طمانچہ تھا، جو علما کو یہ چیلنج کر رہے تھے کہ مسلکی اور مذہبی اختلافات کے باعث یہاں اسلام کا سیاسی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد بھی تاریخ کے ہر موڑ پر، ہر نئے فتنے کے بعد علمائے پاکستان کے تمام گروہوں نے متفقہ فیصلے کیے، متفقہ قراردادیں پاس کیں۔ تازہ ترین چند ماہ قبل کا اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ اس کی مثال ہے، جس پر تمام سنی اور شیعہ، اور تمام مکاتبِ فکر کے علما کے دستخط موجود ہیں۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، امام خمینیؒ کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ ایران کے انقلاب کے بعد وہ چند ماہ ہی حیات رہے۔ اگر وہ ایرانی انقلاب کے بعد مزید زندہ ہوتے تو مغربی چیلنجز کا موثر جواب دے سکتے تھے۔ ایران نے اپنے مذہبی نظریات میں اصلاحات بھی کیں، لیکن تعصب کی وجہ سے اسے نظر انداز کیا گیا۔

1980 کی ایران-عراق جنگ کے بعد ایران نے براہِ راست کوئی جنگ نہیں لڑی، بلکہ اپنے حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے فلسطینیوں کی مدد کی۔ جون 2025 کی 12 روزہ جنگ نے ثابت کیا کہ ایران عالمِ اسلام کی قیادت کے لیے تیار ہے۔ اس کے پاس ایمان، نظریاتی و فوجی اسلحہ، ٹیکنالوجی، معیشت، اور تربیت کی صلاحیت موجود ہے۔ اسرائیلی حملوں سے سپاہِ پاسداران اور جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، لیکن ایران نے تزویراتی صبر اور منظم حکمتِ عملی کے ساتھ 550 بیلسٹک میزائل اور 1000 ڈرونز سے جوابی حملے کیے، جنہوں نے اسرائیل کی کمر توڑ دی۔ قطر میں امریکی اڈے پر حملے نے امریکا کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای کی سیاسی گرفت مضبوط ہوئی، اور ایران نے عالمی سطح پر اپنی عسکری صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو اجلاس میں ایران کی صلاحیت کا اعتراف کیا، جو اس کی قائدانہ قوت کا ثبوت ہے۔

ای میل: jawed@seerahwest.com

Comments

Latest

ایران کی طاقت

ایران کی طاقت

جاوید انور نئی عالمی جنگ القدس کے گرد گھوم رہی ہے، جسے بعض تیسری یا آخری عالمی جنگ کی ابتدا بھی کہتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی یہ جنگ اسلام اور شہادت کے جذبے سے سرشار انتفاضہ اور فلسطینی نوجوانوں کے غلیل سے شروع ہوئی۔ ان نوجوانوں کو حماس جیسی

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

تحریر: ثروت جمال اصمعی، کراچی (مصنف پاکستان کے سینئر صحافی اور جماعت اسلامی پاکستان کے رکن ہیں۔ ان کے والد مرحوم بھی جماعت کے رکن تھے۔ ایڈیٹر السیرہ اردو) کیا پاکستان میں پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ انتخابی سیاست

ایران پر یلغار کیوں؟

ایران پر یلغار کیوں؟

تحریر: حفید اختر مختار  برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے 6 اپریل 2024 کو ڈیلی میل کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ اگر یوکرین روس کے خلاف جنگ ہار جاتا ہے تو یہ "مغرب کے غلبے کا خاتمہ" ہوگا، جو مغربی تہذیب کے

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

تحریر: حفید اختر مختار  اسرائیل اگر مغرب کی ناجائز اولاد ہے، تو کشمیر برطانیہ کی ناجائز وراثت کی بدترین تقسیم کا نتیجہ ہے۔ کشمیر برطانوی بے ایمانی کا شاہکار ہے، جو برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے فراڈ کا ایک انمول نمونہ ہے۔ برطانیہ نے ہندوستان کو مسلمانوں سے