Skip to content

جاوید انور

نئی عالمی جنگ القدس کے گرد گھوم رہی ہے، جسے بعض تیسری یا آخری عالمی جنگ کی ابتدا بھی کہتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی یہ جنگ اسلام اور شہادت کے جذبے سے سرشار انتفاضہ اور فلسطینی نوجوانوں کے غلیل سے شروع ہوئی۔ ان نوجوانوں کو حماس جیسی تنظیم مل گئی، جس نے غزہ پر اپنی گرفت مضبوط کی۔ سیکولر اور لبرل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کمزور پڑ گئی ،لیکن حماس جہاد، فتح، عزت، اور ہمت کا استعارہ بن گئی۔

ایران کے اسلامی انقلاب کو محدود کرنے کے لیے، امریکا، مغرب، اور مشرق وسطیٰ کی سنی ریاستیں اسے "شیعہ انقلاب" کہہ کر شیعہ-سنی منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس کے باوجود، ایران نے فلسطین کی سنی جہادی قوت حماس کی مدد کی  اور مصر میں سنی اخوان المسلمون کی حمایت کی۔

اسرائیل نے حماس کی قوت کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی۔ اس نے حماس کے اہم رہنماؤں کو شہید کیا، جن میں شیخ احمد یاسین (2004)، عبد العزیز رنتیسی (2004)، صلاح شحادہ (2002)، یحییٰ عیاش (1996)، اسماعیل ہنیہ (2024)، یحییٰ السنوار (2024)، صالح العاروری (2024)، مروان عیسیٰ (2025)، احمد الجعبری (2012)، روحی مشتہیٰ (2024)، عدنان الغول (2004)، نزار ریان (2009)، جمیلہ الشنطی (2023)، رافع سلامہ (2024)، زکریا ابو معمر (2023)، جواد ابو شمالہ (2023)، اسماعیل برہوم (2025)، باسم نوفل، اور عماد عقل (1993) شامل ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس نے میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ کر کے ثابت کیا کہ وہ ابھی زندہ، متحرک، اور شوقِ شہادت سے سرشار ہے۔ حماس نے اسرائیل کی غلامی قبول نہیں کی اور نہ کبھی کرے گی۔ وہ آخری سانس تک لڑے گی۔ حماس کی اس نئی طاقت کا اصل سہرا ایران کو جاتا ہے۔ ایران نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے حماس کے ساتھ ساتھ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثیوں، اور شام کی حکومت کے ذریعے عسکری امداد فراہم کی۔ تاہم، اسرائیل اور امریکا نے ان قوتوں کو ایک ایک کر کے کمزور کیا۔ حزب اللہ کی پوری قیادت شہید کر دی گئی، اور شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے ابو محمد الجولانی (حقیقی نام: احمد حسین الشعرہ)، جو مبینہ طور پر مغربی ایجنسیوں کی حمایت یافتہ "اسلامک اسٹیٹ" کا سابق رکن ہے، کو اقتدار دیا گیا۔ الجولانی کی حکومت نے شام کے ایک بڑے علاقے پر اسرائیلی قبضے کی کوئی مزاحمت نہیں کی۔

اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک اسرائیلی حملوں سے فلسطین میں 57,800 سے زائد ہلاکتیں، 130,000 سے زائد زخمی، 360,000 عمارتوں کی تباہی، 100 سے زائد اسکولوں اور متعدد ہسپتالوں کو نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غزہ میں 10,000 سے زائد بچے ہلاک ہوئے، جبکہ مغربی کنارے میں 195 بچوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔ 10,000 سے زائد افراد مفقود ہیں، جن میں 21,000 بچے شامل ہیں (17,000 غیر ہمراہ اور 4,000 ملبے تلے دبے ہوئے)۔ اسرائیل غزہ پر مسلسل حملے کر رہا ہے، جہاں بھوکے اور پیاسے بچے ریلیف ٹرکوں کے پاس خوراک لینے جاتے ہیں تو ان پر حملے ہوتے ہیں۔ بچوں اور عورتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود، فلسطینی مجاہدین ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں، اور اسرائیل اپنے ایک بھی قیدی کو طاقت سے چھڑانے میں ناکام رہا ہے۔

قدیم مصر میں فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا تھا، لیکن آج بنی اسرائیل فلسطینی بچوں کے قتل میں فرعون سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ وہ ظلم کی نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل نے ایران کو مستقل نشانہ بنایا۔ امام خمینیؒ کے فتوے کی وجہ سے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا، اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے تھا۔ لیکن ایران کی فوجی ترقی اور اسلحہ سازی کی صلاحیت اسرائیل کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ گزشتہ بیس سال سے خبریں تھیں کہ اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کرے گا۔ بالآخر، 13 جون 2025 کو اسرائیل نے تہران، اصفہان، نطنز، اور دیگر علاقوں میں فوجی تنصیبات، جوہری سہولیات، سویلین آبادی، عمارتوں، میڈیا ہاؤسز، اور بنیادی ڈھانچے پر وسیع پیمانے پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی اور جوہری قیادت شہید ہوئی، جن میں 20 سینئر فوجی کمانڈرز اور 14 جوہری سائنسدان شامل ہیں۔ ایرانی ذرائع کے مطابق، 657 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 70 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ سیکڑوں عمارتیں (فوجی، جوہری، توانائی، اور رہائشی) تباہ یا متاثر ہوئیں، اور 1,100 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

لیکن ایران نے 24 گھنٹوں میں اپنی فوجی قیادت کو ازسرنو منظم کیا اور اسرائیل پر جوابی حملہ کیا۔ ان حملوں میں اسلامی جنگی اخلاقیات کا خیال رکھا گیا، یعنی کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا۔ نتیجتاً، اسرائیل میں صرف 28 افراد ہلاک اور 3,238 زخمی ہوئے (اسرائیلی ذرائع کے مطابق)۔ ایرانی حملوں سے تل ابیب، رامات گان، پیٹح تکوا، بات یام، اور رشون لیزیون میں 100 سے 200 عمارتیں، بشمول آئل ریفائنری اور ٹیکنالوجی پارکس، تباہ یا متاثر ہوئیں۔ اسرائیل نے اپنے دفاعی نظام کی ناکامی اور نقصانات کو چھپانے کی کوشش کی تاکہ اس کی طاقت کا بھرم برقرار رہے۔ ایک ہفتے بعد ہی اسرائیل نے امریکا سے مدد مانگنی شروع کر دی۔ آخر کار، ڈونلڈ ٹرمپ نے دھوکے سے B-2 طیاروں سے بنکر بسٹر بموں کے ذریعے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کیا۔ ٹرمپ کی غیر سنجیدگی، مسلسل بدلتے بیانات، اور اسرائیل کی حمایت نے ان کی ساکھ کو ناقابلِ اعتماد بنا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آتی ہے، تو اس کے لیڈر عقل سے عاری ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ کا غیر سنجیدہ رویہ اور اسرائیل کی غلامی امریکا کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔

اصل نکتہ نقصانات کی مقدار نہیں، بلکہ طاقت کا توازن ہے۔ ایران نے اپنے جدید ڈرونز اور میزائل ٹیکنالوجی سے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف اسرائیل، بلکہ مشرق وسطیٰ میں موجود تمام امریکی فوجی اڈوں کو تباہ کر سکتا ہے۔ ایران کے پاس طاقت، ایمانی جوش، جدید ٹیکنالوجی، معیشت، جرأت، اور صبر موجود ہے۔ اس نے اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی دہشت گردی کو بھرپور طریقے سے چیلنج کیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک عظیم قوت کے طور پر ابھرا، جس نے طاقت کا توازن بدل دیا۔

اگلے کالم میں ہم ایران کی قائدانہ صلاحیت اور اس کی بناؤ کی طاقت پر بات کریں گے۔

Comments

Latest

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

جاوید انور دیکھیے، یہ ’’امت‘‘ کی آواز کہاں سے بلند ہو رہی ہے؟ ذرا کان لگائیے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم امت قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اور اس کی پکار دب گئی تھی۔ کسی قومی رہنما یا فوجی سربراہ نے امتِ مسلمہ کو کبھی متحدہ طور پر

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

تحریر: ثروت جمال اصمعی، کراچی (مصنف پاکستان کے سینئر صحافی اور جماعت اسلامی پاکستان کے رکن ہیں۔ ان کے والد مرحوم بھی جماعت کے رکن تھے۔ ایڈیٹر السیرہ اردو) کیا پاکستان میں پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ انتخابی سیاست

ایران پر یلغار کیوں؟

ایران پر یلغار کیوں؟

تحریر: حفید اختر مختار  برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے 6 اپریل 2024 کو ڈیلی میل کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ اگر یوکرین روس کے خلاف جنگ ہار جاتا ہے تو یہ "مغرب کے غلبے کا خاتمہ" ہوگا، جو مغربی تہذیب کے

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

تحریر: حفید اختر مختار  اسرائیل اگر مغرب کی ناجائز اولاد ہے، تو کشمیر برطانیہ کی ناجائز وراثت کی بدترین تقسیم کا نتیجہ ہے۔ کشمیر برطانوی بے ایمانی کا شاہکار ہے، جو برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے فراڈ کا ایک انمول نمونہ ہے۔ برطانیہ نے ہندوستان کو مسلمانوں سے