Skip to content

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

Syed Abul A'la Maududi

تحریر: ثروت جمال اصمعی، کراچی


(مصنف پاکستان کے سینئر صحافی اور جماعت اسلامی پاکستان کے رکن ہیں۔ ان کے والد مرحوم بھی جماعت کے رکن تھے۔ ایڈیٹر السیرہ اردو)

کیا پاکستان میں پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ انتخابی سیاست اوربالغ رائے دہندگی کے ذریعے ملک میں صالح قیادت کا برسراقتدار آنا ممکن نہیں لہٰذا جماعت اسلامی کو  دعوت عام کے ذریعے معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے والے انبیائے کرام کے اس طریق کار کی جانب لوٹ جانا چاہیے جو روز اول سے جماعت کے پیش نظر تھا ؟ کیا انہوں نے جماعت کو اس راستے پر واپس لانے کی خاطر کوئی عملی کوشش بھی کی تھی لیکن بوجوہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ؟ اس تحریر میں حقائق کی روشنی میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کم از کم مستقبل کا مورخ اور  اسلامی تحریکیں درست نتائج تک پہنچ سکیں۔         

.............................................................................................

  سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی تھے،جن وجوہ سے وہ انسانیت کی خیر وفلاح کے لیے اسے ناگزیر سمجھتے تھے اور اس کے لیے جو طریق کار ان کی نگاہ میں درست تھا‘ اُس کی پوری تفصیل ان کے چھوڑے ہوئے تحریری و تقریری سرمایے میں محفوظ ہے۔اس کا جائزہ لے کر کوئی بھی بآسانی جان سکتا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے لیے ان کا زاویہ نظر کیا تھا۔

      عین عالم جوانی میں وہ انسانی معاشرے میں جس تبدیلی کے داعی اور اس کے لیے جس طریق کار کے علم بردار بن کر اٹھے تھے،زندگی کے آخری لمحات تک اس حوالے سے ان کی فکر میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ان کے تحریری کام اورعملی جدوجہد کا سلسلہ اگرچہ نصف صدی سے زیادہ مدت تک پھیلا ہوا ہے،اس کے باوجود اس میں مکمل ہم آہنگی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کے آغاز سے پہلے رائج الوقت افکار و نظریات اور قرآن و سنت کا گہرا مطالعہ کیا‘ پھر خوب سوچ سمجھ کراپنے مقصد زندگی کی بنیاد کاملاً قرآن وسنت پر رکھی اور اس میں کسی ملاوٹ اور مدا ہنت سے قطعی مجتنب رہے، چنانچہ جو کچھ انہوں نے35سال کی عمر میں لکھا70 سال کی عمر میں بھی انہیں اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کی ضرورت نہیں پڑی۔ان کے کسی دور کی تحریر اٹھا کر دیکھ لیجیے، ان کی بنیادی فکر میں مکمل یکسانیت ملے گی۔

     ذیل میں ان کے افکار کی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشرے میں جس تبدیلی کی جدوجہد انہوں نے شروع کی تھی‘اس کی تفصیلات ان کی نگاہ میں کیا تھیں۔

ظلم و استحصال سے پاک نئی دنیا کی تعمیر

     سید مودودیؒ انسانی معاشرے میں جو تبدیلی لانا چاہتے تھے،اس پر روشنی ڈالتے ہوئے جولائی 1939ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں ”تعارف مقصد“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

    ’’اگر اسلام صرف اسی مذہب کا نام ہوتا جو اس وقت مسلمانوں میں پایا جاتا ہے تو شاید میں بھی آج ملحدوں اور لامذہبوں سے جاملا ہوتا۔لیکن جس چیز نے مجھے الحاد کی راہ پر جانے یا کسی دوسرے اجتماعی مسلک کو قبول کرنے سے روکا اور ازسرنو مسلمان بنایا وہ قرآن اور سیرت محمدیؐ کا مطالعہ تھا۔اس نے مجھے انسانیت کی اصل قدرقیمت سے آگاہ کیا۔اس نے آزادی کے اس تصور سے مجھے روشناس کرایا جس کی بلندی تک دنیا کے کسی بڑے سے بڑے انقلابی کا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا۔اس نے انفرادی حسن سیرت اور اجتماعی عدل کاایسا نقشہ میرے سامنے پیش کیا جس سے بہتر کوئی نقشہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس کے تجویز کردہ لائحہ زندگی میں مجھے ویساہی کمال درجے کا توازن نظر آیا جیسا ایک سالمے کی بندش سے لے کر اجرام فلکی کے قانون جذب و کشش تک ساری کائنات کے نظم میں پایا جاتا ہے۔‘‘

     ’’میں صرف غیرمسلموں ہی کو نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘اور اس دعوت سے میرا مقصد اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کو باقی رکھنا اور بڑھانا نہیں ہے جوخود ہی اسلام کی راہ سے ہٹ گئی ہے،بلکہ یہ دعوت اس بات کی طرف ہے کہ آؤ اس ظلم و طغیان کو ختم کردیں جودنیا میں پھیلا ہوا ہے، اور انسان پر سے انسان کی خدائی مٹادیں۔“(تحریک آزادی ہند اور مسلمان، جلد 2، ص24-25)۔

   ’’انسان پر سے انسان کی خدائی کا خاتمہ اور قرآن کی بنیاد پر ظلم و بے انصافی سے پاک ایک نئی دنیاکی تعمیر“.... یہ ہے وہ تبدیلی جس کی دعوت لے کر سید مودودیؒ اٹھے تھے۔  

خرابی کی جڑ -غیراللہ کی بندگی

     انسانی دنیا میں بار بار رونما ہونے والے فساد و انتشار کے اصل سبب اور اس کے ازالے کے لیے مطلوب اس تبدیلی کی مزید تشریح کرتے ہوئے مئی وجون 1940ء کے ترجمان القرآن میں ”اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کا نصب العین“کے عنوان سے لکھتے ہیں:

’’دنیا میں جہاں جو خرابی پائی جاتی ہے‘ اس کی جڑ صرف ایک چیز ہے‘ اور وہ ہے اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت تسلیم کرنا۔ یہی اُمّ الخبائث ہے۔اسی سے وہ شجر خبیث پیدا ہوتا ہے جس کی شاخیں پھیل پھیل کر انسانوں پرمصیبتوں کے زہریلے پھل ٹپکاتی ہیں۔یہ جڑ جب تک باقی ہے‘ آپ شاخوں کی کتنی ہی قطع و برید کرلیں‘بجز اس کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا کہ ایک طرف سے مصائب کا نزول بند ہوجائے اور دوسری طرف سے شروع ہوجائے۔‘‘(ایضاً، ص 94)۔

فلاح و سعادت کی واحد راہ

     پھر اسی سلسلہ گفتگو میں انسانی معاشرے کے مسائل کے مستقل حل کی درست راہ کی نشان دہی اس طرح کرتے ہیں:

’’انسانی زندگی کو حقیقی فلاح و سعادت سے ہم کنار کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ غیراللہ کی حاکمیت سے کلیتاً انکار کیا جائے اور اس کی حاکمیت تسلیم کی جائے جو فی الواقع مالک الملک ہے.... ہر اس حکومت کے حق حکمرانی کو ماننے اسے انکار کردیا جائے جس میں انسان بذات خود حاکم اور صاحب امر ونہی وہونے کا مدعی ہو ،اور صرف اسی حکومت کو جائز قرار دیا جائے جس میں انسان اصلی اور حقیقی مالک کے ماتحت خلیفہ ہونے کی حیثیت قبول کرے۔یہ بنیادی اصلاح جب تک نہ ہوگی، اور جب تک انسان کی حاکمیت خواہ کسی شکل اور کسی نوعیت کی ہو، جڑ پیڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دی جائے گی،اور جب تک انسانی حاکمیت کے غیرواقعی تصور کی جگہ خلافت الٰہی کا واقعی تصور نہ لے لے گا، اس وقت تک انسانی تمدن کی بگڑی ہوئی کل کبھی درست نہ ہوسکے گی‘ چاہے سرمایہ داری کی جگہ اشتراکیت قائم ہوجائے، یا ڈکٹیٹر شپ کی جگہ جمہوریت متمکن ہوجائے، یا امپیریلزم کی جگہ قوموں کی حکومت خود اختیاری کا قاعدہ نافذ ہوجائے۔ صرف خلافت ہی کا نظریہ انسان کو امن دے سکتا ہے۔اسی سے ظلم مٹ سکتا اور عدل قائم ہوسکتا ہے‘ اور اسی کو اختیار کرکے انسان اپنی قوتوں کا صحیح مصرف اور اپنی سعی و جہد کا درست رخ پاسکتا ہے۔“(ایضاً، ص 98)۔

اسلام فلاح انسانیت کا علم بردار

اسی سلسلہ بیان میں مزید کہتے ہیں:

’’اسلام انسانی زندگی میں یہی بنیادی اصلاح کرنے آیا ہے۔ اس کو کسی ایک قوم سے دلچسپی اور کسی دوسری قوم سے عداوت نہیں کہ ایک کو چڑھانا اور دوسری کو گرانا اس کا مقصودہو بلکہ اسے تمام نوع انسانی کی فلاح و سعادت مطلوب ہے جس کے لیے وہ ایک عالم گیر کلیہ اور ضابطہ پیش کرتا ہے۔وہ ایک تنگ زاویے سے کسی خاص ملک یا کسی خاص قوم کو نہیں دیکھتا بلکہ وسیع نظر سے تمام روئے زمین کو اس کے تمام باشندوں سمیت دیکھتا ہے، اور چھوٹے چھوٹے وقتی حوادث و مسائل سے بالاتر ہوکر ان اصولی و بنیادی مسائل کی طرف توجہ کرتا ہے جن کے حل ہوجانے سے تمام زمانوں اور تمام حالات ومقامات میں تمام ضمنی و فروعی مسائل آپ سے آپ حل ہوجاتے ہیں۔(ایضاً، ص99)۔

جدوجہد کا درست طریق کار

     انسانی معاشرے میں یہ بنیادی تبدیلی جس کی دعوت لے کر سید مودودیؒ اٹھے‘بندگی رب کی عین وہی دعوت ہے جس کے لیے تاریخ کے ہردور میں انبیاء مبعوث کیے جاتے رہے۔لہٰذا اس تبدیلی کے لیے درست طریق کار بھی وہی ہوسکتا ہے جو اللہ کے رسولوں نے ہر زمانے میں اختیار کیا، یعنی تمام وقتی اور مقامی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے تمام انسانوں کو براہ راست اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے کی دعوت دینا۔سید مودودیؒ اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جولوگ آج اس دعوت کو لے کر اٹھیں انہیں بھی وقت کے فروعی مسائل‘قومی حقوق کے جھگڑوں‘سیاسی قضیوں اور معاشی تنازعوں سے بالاتر ہوکراپنی پوری توجہ دنیا کے سارے انسانوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینے اور غیراللہ کی حاکمیت ختم کرنے پر صرف کرنی چاہیے کہ انسانی معاشروں میں اس تبدیلی کو برپا کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔

     ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران مسلمان قائدین اس بنیادی کام کے بجائے جن مسائل میں الجھے ہوئے تھے، ان کا ذکر کرتے ہوئے اسی سلسلہ تحریر میں لکھتے ہیں:

’’مغربی طرز کے لیڈروں پر تو چنداں حیرت نہیں کہ ان بے چاروں کو قرآن کی ہوا تک نہیں لگی، مگر حیرت اور ہزار حیرت ہے ان علمائے کرام پر جن کا رات دن کا مشغلہ ہی ’قال اللہ و قال الرسول ‘ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ قرآن کس نظر سے پڑھتے ہیں کہ ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی اس قطعی اور دائمی پالیسی کی طرف ہدایت نہیں ملتی جو مسلمانوں کے لیے اصولی طور پر مقرر کردی گئی ہے۔جن مسائل کو انہوں نے اہم اور اقدم قرار دے رکھا ہے  ، قرآن میں ہم کو ان کی فروعی اور ضمنی اہمیت کا نشان بھی نہیں ملتا۔برعکس اس کے قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی پر نبی آتا ہے اورایک ہی بات کی طرف اپنی قوم کو دعوت دیتا ہے: یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من الٰہ غیرہ۔خواہ بابل کی سرزمین ہو یا ملک مدین‘ یا حجر کا علاقہ‘یا نیل کی وادی۔ خواہ چالیسویں صدی قبل مسیح ہو یا بیسویں یا دسویں۔خواہ وہ قوم غلام ہو یا آزاد‘خستہ و درماندہ ہو یا تمدنی و سیاسی حیثیت سے بام عروج پر۔ہرجگہ ،ہر دور میں،ہر قوم میں، اللہ کی طرف سے آنے والے رہنماؤں نے انسانوں کے سامنے ایک ہی دعوت پیش کی، اور وہ یہ تھی کہ: اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے‘‘

(ایضاً‘ ص 104-105)۔

اُمُّ المسائل- غیراللہ کی حاکمیت

اس کے بعد متعدد اہم انبیائے علیہم السلام کی اقوام کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

’’یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جن ملکوں اور قوموں میں انبیاء علیہم السلام آئے، ان میں سرے سے کوئی سیاسی، معاشی، تمدنی مسئلہ حل طلب تھا ہی نہیں جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہوتی۔پس جب واقعہ یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے ہر رہنما نے ہر ملک اور ہر زمانے میں تمام وقتی اور مقامی مسائل کو نظرانداز کرکے اسی ایک مسئلے کو آگے رکھا اور اسی پر اپنا سارا زور صَرف کیاتو اس سے صِرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ مسئلہ اُمُّ المسائل تھا اور وہ اسی کے حل پر تمام زندگی کے مسائل کا حل موقوف سمجھتے تھے۔‘‘

    اسی سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اب یا تو یہ کہہ دیجیے کہ اسلامی تحریک کے وہ رہنما جو خدا کی طرف سے آئے تھے، سب کے سب عملی سیاسیات سے نابلد تھے۔نہ جانتے تھے کہ انسانی زندگی کے معاملات میں کون سی چیز مقدم اور کون سی مؤخر ہونی چاہیے۔انہیں خبر نہ تھی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کس طرح کی جاتی ہے اور ملکی معاملات کو حل کرنے کی کیا تدبیریں ہیں۔یا پھر یہ تسلیم کیجیے کہ اس دور میں جو لوگ اسلام کے نمائندے اور مسلمانوں کے قائد اور رہنما بنے ہوئے ہیں،وہ جزئیات شرع پر کتناہی عبور رکھتے ہوں،بہرحال اسلامی تحریک کے مزاج کو نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ اس تحریک کو چلانے اور آگے بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔“(ایضاً‘ ص 106)۔ 

 انبیاء کا راستہ ہی مسلمانوں کا راستہ ہے

    پھر اس پوری بحث سے جو حتمی نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں حقیقی خیر و فلاح کی حامل تبدیلی لانے کی جدوجہدکرنے والوں کو وہی طریق کار اختیار کرنا ہوگا جو ہر دور میں اس تحریک کے اصل رہنماؤں یعنی اللہ کے نبیوں نے اس کی ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے اختیار کیا،نانچہ کہتے ہیں:

’’تمام مسلمانوں کو جان لینا چاہیے کہ بحیثیت ایک مسلم جماعت ہونے کے ہمارا تعلق اس تحریک سے ہے جس کے رہبر و رہنما انبیاء علیہم السلام تھے۔ہر تحریک کا ایک خاص نظام فکر اور ایک خاص طریق کار ہوتا ہے۔اسلام کا نظام فکر اور طریق کار وہ ہے جوہم کو انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں میں ملتا ہے۔ہم خواہ کسی ملک اور کسی زمانے میں ہوں،ہمارے گردوپیش مسائل ومعاملات خواہ کسی نوعیت کے ہوں،ہمارے لیے مقصد اور نصب العین وہی ہے جو انبیاء کا تھا اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ وہی ہے جس پر انبیاء ہر زمانے میں چلتے رہے۔اُوْلٰءِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھَدٰاھُمُ اقْتَدِہ۔ (الانعام90:6)۔

    ہمیں زندگی کے سارے معاملات کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے انہوں نے دیکھا۔ ہمارا معیارِ قدر وہی ہونا چاہیے جو ان کا تھا، اور ہماری اجتماعی پالیسی ان ہی خطوط پر قائم ہونی چاہیے جن پر انہوں نے قائم کی تھی۔اس مسلک کو چھوڑ کر اگر ہم کسی دوسرے مسلک کا نظریہ اور طرز عمل اختیار کریں گے تو گمراہ ہوجائیں گے۔یہ بات ہمارے مرتبے سے فروتر ہے کہ ہم ایک تنگ زاویے سے دنیا پر نظر ڈالیں جس سے ایک قوم پرست یا ایک جمہوریت پسند یا ایک اشتراکی اس کو دیکھتا ہے۔جو چیزیں ان کے لیے بلند ترین منتہائے نظر ہیں ،وہ ہمارےلیے اتنی پست ہیں کہ ادنیٰ التفات کی بھی مستحق نہیں۔اگر ہم ان کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کریں گے،ان ہی کی زبان بولیں گے،اور ان ہی گھٹیا درجے کے مقاصد پر زور دیں گے جن پر وہ فریفتہ ہیں تو اپنی وقعت کو خود ہی خاک میں ملادیں گے... یہ تعداد کی بناء پر اکثریت اور اقلیت کے نوحے، یہ تحفظات اور حقوق کی چیخ پکار... یہ بولیاں بول کر ہم خودایک غلط حیثیت اختیار کرتے ہیں اور اپنی حیثیت غلط طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں... خدا نے ہمیں اس سے بہت اونچا منصب دیا ہے۔ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم کھڑے ہوکر تمام دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت مٹادیں اور خدا کے بندوں پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں... اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے۔“ (ایضاً: ص106 تا 108 )۔

     ان اقتباسات سے واضح ہے کہ سید مودودیؒ دنیا میں اسی ہمہ گیر تبدیلی کی دعوت لے کر اٹھے تھے جس کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے۔انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ قرآن کی رو سے اسی تبدیلی کی جدوجہد دنیا میں ان کا فرض منصبی ہے اوراس کا طریق کار وہی ہے جو اللہ کے رسولوں نے اپنے ادوار میں اختیار کیا۔

اسباب اور وسائل کا مسئلہ

    ان کے اس مطالبے پر جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس کام کو آخر اس حالت میں کیسے شروع کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان دنیوی وسائل کے اعتبار سے اپنے حریفوں سے کہیں پیچھے ہیں۔ اس لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ اس جدوجہد کو شروع کرنے سے پہلے مسلمان دنیاوی اسباب سے مالامال اپنے حریفوں سے مقابلہ کرنے کے لیے خود بھی پہلے کسی نہ کسی حد تک ان کے ہم پلہ بن جائیں اور اپنے آپ کو بحیثیت قوم منظم کرلیں، تو سید مودودیؒ کا جواب تھا:

’’حقیقت یہ ہے کہ جن مشکلات کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں اُن میں قطعاً کوئی وزن نہیں،بلکہ خود یہی بات کہ حکومت الٰہیہ کے راستے میں انہیں اس نوعیت کی مشکلات نظر آتی ہیں، اس امر کا صریح ثبوت ہے کہ انہوں نے اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کے طریق کار کو سرے سے سمجھا ہی نہیں۔زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں،اگر اس تحریک کی تاریخ ہمارے سامنے ہو تو بادی النظر ہی میں ان عذرات کی غلطی نمایاں ہوجاتی ہے۔” (ایضاً‘ ص 111)۔

  اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہ عمل

     مندرجہ بالا عنوان سے جولائی 1940ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں چھپنے والے اس مضمون میں جو اَب’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘نامی کتاب کے دوسرے حصے میں شامل  ہے ،اس نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے، اکیلا ہی آیا ہے۔اقلیت اور اکثریت کا کیا سوال ،وہاں سرے سے کوئی مسلمان قوم ہی موجود نہ تھی۔ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اٹھتا ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔چند گنے چنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت حکومت الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے.... بارہا وہ (انبیائے کرام)اس مقصد میں ناکام ہوئے۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردیا گیا اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں ان کی تحریک کا قلع قمع کرکے چھوڑا۔تاہم جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تھے اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا،انہوں نے آخری سانس تک بس اسی مقصد کے لیے کام کیا، اور کسی ایک نے بھی اکثریت یا حکومت کا رنگ دیکھ کر،یا وقتی اور مقامی مصیبتوں کا خیال کرکے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس تحریک کو اٹھانے یا چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی سازگاری کی ضرورت ہے۔جس سامان اور جس سازگار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں، وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے نہ کبھی فراہم ہوگا۔در اصل خارج میں نہیں بلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے کہ یہی مقصد حق ہے،اور اس عزم کی ضرورت ہے کہ میرا جینا اور مرنا اسی مقصد کے لیے ہے۔یہ ’ایمان‘یہ شہادت‘ یہ عزم ‘موجود ہو تودنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں۔(ایضاً‘ ص 112-111)۔

 اصولی تحریک کی طاقت

     اس تحریر میں اس امر کی صراحت کے بعد کہ مسلمان ایک قوم نہیں جس کی دلچسپیوں کا میدان صرف ان کی قوم ہو،بلکہ ایک عالمی نظریاتی جماعت ہیں اور ان کا نظریہ پوری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے،یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ایسا نظریہ رکھنے والی جماعت حالات کی تمام تر ناسازگاریوں کے باوجود پوری انسانی برادری کے دل جیت لینے کی صلاحیت رکھتی ہے،سید مودودیؒ کہتے ہیں:

     ’’دراصل ایک ملک نہیں بلکہ ساری انسانیت پر چھاجانے کی قوت اگر ہے تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے جوانسان کو بحیثیت انسان خطاب کرتی ہو،ور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔قومیت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔قومیت کے حصار، نسلوں کے تعصبات، اورقومی ریاستوں کے مضبوط بند کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہر طرف، ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروؤں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ایک اکیلا آدمی اس کو اٹھانے کے لیے کافی ہے۔پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔وہ اپنے دشمنوں میں اپنے دوست پیدا کرتی ہے۔سب قوموں کے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں، ان پر بھی وہ اپنے اصولوں کے تیر چلاتی ہے۔خون کے پیاسے دشمنوں سے وہ اپنے حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔سپاہی، جنرل، ماہر فن، سرمایہ دار، صناع اور کاریگر،سب ان ہی میں سے اس کو مل جاتے ہیں، اور بے سروسامانی میں ہر قسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔‘‘

     ’’قومیتیں اس سیلاب کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھہرسکتیں۔بڑے بڑے پہاڑ اس کے سامنے آتے ہیں اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آب رواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس لیے اقلیت و اکثریت کے سارے سوال بے معنی ہیں۔وہ اس کی ہرگز محتاج نہیں ہوتی کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔وہ قومی حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں اٹھتی کہ قومیں اس کی مزاحمت کرسکیں۔اسے تو ایک اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے جو سب قوموں کے لوگوں کی فطرت کو اپیل کرتا ہو۔ جاہلی تعصبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں مگر جب فطرت ِ انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ:

 ہمہ آہوانِ صحرا، سرخود نہادہ برکف

   باامید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد

    یعنی صحرا کے تمام ہرن اپنے سر اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے ہیں اس امید پر کہ کسی دن تو وہ شکار کرنے آئے گا۔

 اسلامی تحریک اور قومی حقوق کے جھگڑے

     جغرافیائی، نسلی یا لسانی رشتوں کی بنیاد پر بننے والی قوم کے مقابلے میں ایک آفاقی نظریے کی بنیاد پر تشکیل پانے والی جماعت کی قوت اور دائرہ اثر کی اس تشریح اور مسلمانوں کو اس کے مطابق ایک جماعت قرار دینے کے بعد سید مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’اگر... مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک عالم گیر اصولی تحریک کے پیروؤں اور داعیوں کی ہے تو وہ سارے مسائل یک قلم اُڑ جاتے ہیں جن پر اب تک مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی رہنما وقت ضائع کرتے رہے ہیں... نہ ہمارا کوئی قومی حقوق کا جھگڑا ہے،نہ وطنیت کی بنیاد پر ہماری لڑائی ہے،نہ ان ریاستوں سے ہمارا کوئی رشتہ ہے جہاں نام نہاد مسلمان خدا بنے بیٹھے ہیں ، نہ اقلیت کی حیثیت سے اپنے تحفظ کی ہمیں ضرورت ہے، نہ اکثریت کی بنیاد پر اپنی قومی حکومت ہمیں مطلوب ہے۔ہمارے سامنے تو صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے بندے اللہ کے سوا کسی کے محکوم نہ ہوں۔بندوں کی حاکمیت ختم ہوجائے اور حکومت اس قانونِ عدل کی قائم ہو جو اللہ نے خود بھیجا ہے۔اس مقصد کو ہم انگریز، ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور مردم شماری کے مسلمان، سب کے سامنے پیش کریں گے۔جو اسے قبول کرے گا،وہ ہمارا رفیق ہے، اور جو اس سے انکار کرے گا،اس سے ہماری لڑائی ہے،بلا لحاظ اس کے کہ اس کی طاقت کتنی ہے اور ہماری کتنی۔“(ایضاً‘ ص 118-117)۔

     اس وضاحت کے بعد کہ پوری انسانیت کی فلاح کی علم بردار ایک عالم گیر اصولی تحریک کے داعیوں کی حیثیت سے مسلمانوں کا دنیا کی دوسری اقوام کے ساتھ مادّی مفادات کا کوئی جھگڑا نہیں،اس حیثیت کے عملی تقاضوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

     ’’یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد اور اغراض کو بھول جائیں،تمام تعصبات سے بالا تر ہوجائیں اور اُن چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظریں ہٹالیں جن سے ہمارے حقیر دنیاوی فوائد مفاد کا تعلق ہے... اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصب میں مبتلا ہوں تو کوئی وجہ نہیں ہندو،سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔اگر ہم ریاستوں (غیرمنقسم ہندوستان کی مسلم ریاستیں مراد ہیں ) کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے حکمراں مسلمان ہیں اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے تو کوئی احمق ہی ہوگا جو اس کے بعد بھی یہ باور کرلے کہ ہم اسلام کے نظریہ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں اور واقعی حکومت الٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے۔“(ایضاً‘ ص118)۔

جماعت اسلامی کا مقصود-فلاح عالم انسانی

     اس فرق کو پوری طرح جاننے ہی کا نتیجہ تھا کہ اگست 1941ء میں جب سید مودودیؒ کی دعوت پر پورے ہندوستان سے لبیک کہنے والے 75 افراد پر مشتمل جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا توبانی تحریک کی حیثیت سے اپنی تاسیسی تقریر میں انہوں نے واضح کردیا کہ یہ جماعت دنیا بھر کے انسانوں کی فلاح کے لیے اٹھی ہے۔اُس دور میں مسلمانوں کی جو دوسری تنظیمیں موجود تھیں ،ان کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے امتیاز پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا:

    ’’ان تحریکوں کی نظر صرف(ہندوستان کی) مسلم قوم تک محدود رہی ،کسی نے وسعت اختیار کی تو زیادہ سے زیادہ بس اتنی کہ دنیا کے مسلمانوں تک نظر پھیلادی۔مگر بہرحال یہ تحریکیں صرف ان لوگوں تک محدود رہیں جو پہلے سے’مسلم قوم‘                                                                                                         میں شامل ہیں اور ان کی دلچسپیاں بھی ان ہی مسائل تک محدود رہیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ان کے کاموں میں کوئی چیز ایسی شامل نہیں رہی جو غیرمسلموں کو اپیل کرنے والی ہو، بلکہ بالفعل ان میں سے اکثر کی سرگرمیاں غیر مسلموں کے اسلام کی طرف آنے میں الٹی  سَدّ ِ راہ بن گئیں۔لیکن ہمارے لیے چونکہ خود اسلام ہی تحریک ہے، اور اسلام کی دعوت تمام دنیا کے انسانوں کے لیے ہے،لہٰذا ہماری نظر کسی خاص قوم یاکسی خاص ملک کے وقتی مسائل میں الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پوری نوع انسانی اورسارے کرہ زمین پر وسیع ہے۔تمام انسانوں کے مسائل زندگی ہمارے مسائل ہیں، اور اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے ہم ان تمام مسائل زندگی کا وہ حل پیش کرتے ہیں جس میں سب کے لیے فلاح و سعادت ہے۔‘‘(رودادِ جماعت اسلام، حصہ اول ص:11)۔

 اسلامی تحریکیں صرف نسلی مسلمانوں تک محدود کیوں؟

     یہاں ایک اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ اسلامی تحریک کی آفاقی حیثیت کا اتنا واضح شعور موجود ہونے کے باوجودجماعت اسلامی سمیت عالمی اسلامی انقلاب کی کوئی بھی تحریک آخر آج بالفعل پوری دنیا کے انسانوں کو یکساں طور پر مخاطب کرتی اور مسلمانوں کے وقتی اور مقامی مسائل اور مختلف قوموں کے ساتھ ان کے حقوق اور مفادات کے جھگڑوں سے بالاتر رہتے ہوئے مکمل غیرجانبداری کے ساتھ دنیا کے تمام انسانوں کوبندگی رب کی وہ دعوت دیتی کیوں دکھائی نہیں دیتی جو خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیثیت سے مسلمانوں کا اصل مشن ہے؟برائے نام مستثنیات کو چھوڑ کر ان کا سارا کام صرف نسلی مسلمانوں تک کیوں محدود ہے؟ عملاً ان کی ساری دلچسپیاں صرف مسلمانوں کے مفادات کے گرد کیوں گھومتی ہیں؟اور خیرخواہی کے سچے جذبے کے ساتھ غیر مسلم دنیا کو دوزخ سے بچاکر جنت میں لے جانے کی کوئی واضح فکر اور اس کے لیے کوئی عملی کوشش ان کے ہاں کیوں نظر نہیں آتی؟

 

ماڈل اسلامی ریاست کے قیام کی حکمت عملی

     ہماری عاجزانہ رائے میں کم ازکم پاکستان کی حد تک اسلامی تحریک کے عملی رویے میں یہ فرق آزادی کے بعد ساری توجہات کے اس بات پر مرتکز ہوجانے کی وجہ سے رونما ہوا کہ پہلے پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنایا جائے اوراس کے بعد پوری دنیا کو اسلام کی دعوت عام دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔کیو نکہ جب نمونے کی ایک اسلامی ریاست موجود ہوگی تو پوری دنیا اسلام کے نظام عدل و رحمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی اور اس کے لیے دلوں کے دروازے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔یہ کوئی غیرشعوری رویہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اسے اختیار کیا گیا تھا۔چنانچہ 1970 میں پاکستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے موقع پرجماعت اسلامی کے انتخابی منشور کے دیباچے میں یہ بات ان الفاظ میں کہی گئی:  ’’یہ جماعت کوئی قوم پرست یا وطن پرست جماعت نہیں ہے بلکہ اس کا نظریہ حیات عالم گیر ہے اور پوری انسانیت کی فلاح اس کے پیش نظر ہے، مگر وہ یقین رکھتی ہے کہ جب تک ہم خود اپنے ملک کو اسلامی نظام کا مثالی نمونہ نہ بنادیں، اور جب تک ہم یہ ثابت نہ کردیں کہ جس حق وصداقت پر ہم ایمان کا دعویٰ کررہے ہیں اُس پر خود بھی عمل کررہے ہیں، اور جب تک ہم یہ نہ دکھادیں کہ اس پر عمل کرنے کے کیسے بہتر نتائج ہمارے ملک میں برآمد ہوئے ہیں، اُس وقت تک ہم دنیا کو اس کے حق و صداقت ہونے کا قائل نہیں کرسکتے۔‘‘

     جماعت اسلامی نے اسی وجہ سے قراردادمقاصدکی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر اسلامی نظریاتی ریاست قرار پاجانے کے بعد انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔تاہم انتخابات میں حصہ لینے کا اصل مقصد اس ذریعے سے اپنی دعوت لوگوں تک پہنچانا تھا اور مقصود یہ تھا کہ اس طرح عوام الناس تک بڑے پیمانے پر رسائی سے معاشرے کی فکری اور عملی اصلاح کی جاسکے گی اور معاشرہ اس تبدیلی کے لیے تیار ہوجائے گا جو جماعت اسلامی کو مطلوب ہے،بانی تحریک نے اپنی کتاب ’’تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل‘‘ میں انتخابی سیاست میں شرکت کا سبب اسی حکمت عملی کو بتایا ہے۔

 

 پائیدار انقلاب کی بنیاد

     سیاسی جوڑ توڑ یا کسی اور شارٹ کٹ کے ذریعے سے معاشرے کو ذہنی طور پر تیار کیے بغیراقتدار کا حصول کبھی ان کے پیش نظر نہ تھا۔یہ بات وہ ہر اس جگہ کہتے رہے جہاں اس کی ضرورت تھی۔مثلاً تفہیمات  جلد سوم کے آخری صفحے پر ان کی یہ ہدایت آج بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ:

  ’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انہیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔یہ بھی بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے اورنتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی نسبت زیادہ خراب۔ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پائیدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے مٹایا بھی جاسکے گا۔‘‘

داعی الی اللہ کی اصل ذمہ داری نتیجہ نہیں کوشش

     سید مودودیؒ اپنی اس رائے پر زندگی کے آخری مراحل تک پوری طرح قائم رہے۔چنانچہ 1970ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی انتخابی ناکامی کے تناظر میں جب نوجوانوں کے ایک اجتماع میں ان سے پوچھا گیا کہ ’’جماعت اسلامی تیس چالیس سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود اقتدار حاصل نہ کرسکی جبکہ پیپلز پارٹی چند سال کے اندر ہی اقتدار تک پہنچ گئی اور آج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہے،کیا یہ بات تحریک اسلامی کی غیر مقبولیت کا ثبوت نہیں؟‘‘  توا نہوں نے جواب دیا:

 ’’جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی، جھوٹ نے شکست دی ہے۔جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام ہوتا۔لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے،اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے تھے۔کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی کرنا چاہیے۔لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں ،وہ آپ نہ کیجیے۔کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمے داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کا اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔آپ بھی اس قوم کو جھوٹ، گالی گلوچ اوردوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔جو ذمے داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور رسولؐ کا بتایا ہوا راستہ ہے،اس کے مطابق کام کریں۔آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک میں ضرور ہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔ اسلامی نظام کا قیام تو اللہ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے۔اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالا مال کرے یا ان تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھا رہی ہے۔آپ کا کام اللہ اور رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے،جان کھپانا ہے۔اس میں اگر آپ کوتاہی کریں گے تو ماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کامیاب ہیں خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں۔‘‘(تصریحات‘ص:277-278)۔

 معاشرہ اسلامی اقدار سے دور کیوں ہوتا جارہا ہے؟

     یہ بات واضح ہے کہ پوری دنیا کو اسلام کی دعوت عام سے پہلے پاکستان میں انتخابی سیاست کے ذریعے سے مطلوبہ معاشرتی تبدیلی کو اولیت دینے کا جو فیصلہ کیا گیا،اس کے پیچھے اصل خیال یہی تھا کہ ماڈل اسلامی ریاست کے قیام سے دنیا کے لیے اس نظام کو عملی شکل میں دیکھ اور سمجھ کر قبول کرنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ یہ بات ایک تدبیر کے طور پر اگرچہ درست تھی لیکن پاکستان کا قیام چونکہ کسی شعوری اسلامی تحریک کے بجائے مسلم قومیت کی جذباتی تحریک کا نتیجہ تھا، لہٰذا نہ یہاں قیادت کسی حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تیار تھی نہ عوام ہی اس کے تقاضوں سے آگاہ تھے۔نتیجہ یہ کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام نہ صرف یہ کہ عشروں پہ عشرے گزرجانے کے باوجود آج تک عمل میں نہیں آسکا بلکہ عملاً معاشرہ اسلامی اقدار سے دور ہوتا چلاگیا۔ملک کا آئین عوام پر گہرا اثر و رسوخ رکھنے والی دینی قوتوں کے دباؤ کی وجہ سے اگرچہ بڑی حد تک اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے لیکن کیونکہ مقتدر طبقے ان اصولوں کے نفاذ کے معاملے میں نہ پہلے مخلص تھے نہ آج ہیں اس لیے معاشرہ نہ صرف یہ کہ نظام عدل و رحمت کی برکات سے محروم ہے بلکہ اس پر عملاً خدائی ہدایت و رہنمائی سے بے نیاز سیکولر مغربی تہذیب کی تقریباً مکمل بالادستی قائم ہوچکی ہے۔ بہت سی ایسی باتیں جو اسلامی تعلیمات کے اثرات کی وجہ سے پہلے سماجی سطح پر انتہائی ناپسندیدہ اور معیوب سمجھی جاتی تھیں، اب انہیں عموماً کسی اظہارِ ناگواری تو کیا کسی احساسِ ناگواری کے بھی بغیر برداشت کیا جاتا ہے اور ان حوالوں سے عملاً ’’تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا، کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘‘ کی سی کیفیت ہے۔ دینی قوتوں اور خود سید مودودی ؒکی برپا کردہ تحریک کا بھی معاشرے اور عوام پر اب وہ اثر نظر نہیں آتا جو اس ملک کے ابتدائی عشروں میں تھا اور جس کی وجہ سے عملاًدین سے دور  سیکولر حکمراں طبقات بھی ملک کو آئینی طور پر ملک کو آئین سازی کی حد تک اسلامی نظریاتی ریاست بنانے پر مجبور ہوئے۔

 معاشرے پردینی قوتوں کے اثر میں کمی  کیوں؟

      ’’تحریک آزادی ہند اور مسلمان‘‘ حصہ دوم میں سید مودودیؒ نے مسلمانان برصغیر کے سامنے جو انقلابی فکر رکھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے والی تحریک کی دعوت کا میدان پورا انسانی معاشرہ ہوتا ہے۔وہ مذہب، قومیت، رنگ، نسل، زبان، علاقے، سیاسی نظریات اور گروہ بندیوں کے امتیازات سے بالاتر رہتے ہوئے پوری انسانیت کی خیرخواہ ہوتی ہے۔اس کے دل کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ وہ بھی نبیوں کے طریقے کے مطابق اپنی دعوتی خدمت پر کسی سے کسی بھی شکل میں کوئی اجر طلب نہیں کرتی۔ قرآن میں مذکور سارے ہی نبیوں کی زبان سے کرایا جانے والا یہ اعلان کہ: وَمَا اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اجرٍ، اِنْ اَجْرِیَ اِلا عَلیٰ رَبِّ الْعَالَمِیْنْ، یعنی ’’میں اس کام پر تم سے کسی طرح کا کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجرتو صرف رب العالمین کے ذمے ہے‘‘ اُس کا بھی مسلک ہوتا ہے۔ دعوت الی اللہ کی تحریک کی یہ بے لوثی اس کے اخلاص کا یقینی ثبوت بن جاتی ہے۔ لہٰذاایسی تحریک بدترین مخالفوں تک کے دل و دماغ جیتنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہے۔ اپنی دعوت کی کامیابی کے لیے وہ رائج الوقت نظام ہائے زندگی کی خامیاں بھرپورمعیاری اور مدلل تعمیری تنقید سے واضح کرتی اور اس کی جگہ اللہ کے عطاکردہ نظام زندگی کو بہترین متبادل کے طور پر پیش کرکے اپنے نظریہ حیات کے علمی و فکری غلبے کا اہتمام کرتی ہے کہ پائیدار سماجی تبدیلی کا یہی واحد نتیجہ خیز طریقہ ہے۔ اسی طریقے سے وہ اخلاقی اور سماجی انقلاب پرپا ہوتا ہے جو مستحکم سیاسی انقلاب کا ذریعہ بنتا ہے۔جبکہ سید مودودیؒ کی اس فکر کے برعکس انتخابی سیاست میں شرکت، دعوت الی اللہ کی تحریک کو پہلے قدم پر متنازع بنادیتی ہے۔ تمام دوسرے سیاسی گروہوں اور مکاتب فکر سے اس کا رشتہ خیرخواہی اور داعی و مدعو کے بجائے سیاسی حریف کا ہو جاتا ہے۔نتیجتاً دوسروں تک اپنی دعوت پہنچانے کی راہ اس کے لیے مسدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری جانب انتخابی کامیابی کے لیے اسے قدم قدم پر سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اصولوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔عوامی حمایت حاصل کرنے کی خاطر یا اس سے محروم ہو جانے کے خدشے کے باعث ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو بسا اوقات خود کرنے والوں کی نگاہ میں بھی درست نہیں ہوتے۔ اس راستے پر چلتے رہنے کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کی تحریک بالآخر محض ایک سیاسی جماعت بن کررہ جاتی ہے اور اس کا دائرہ اثر پھیلنے کے بجائے سکڑنے لگتا ہے۔ اس ملک میں آٹھ دہائیوں کے تجربات اس حقیقت کے گواہ ہیں۔

   مستند معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ سید مودودیؒ نے انتخابی سیاست کو تجرباتی طور پر اختیار کیا تھا لیکن ملک میں پہلے ہی عام انتخابات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ معاشرے میں کوئی بامعنی تبدیلی اور اسلامی انقلاب کا برپا ہونا انتخابی سیاست کے ذریعے سے ممکن نہیں اور اس مقصد کے لیے دعوت عام اور تربیت کا معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کا وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا جو انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اس حوالے سے حقائق یہ ہیں:

تبدیلی بذریعہ انتخابی سیاست سے سید مودودیؒ کی مایوسی   

     قیام پاکستان کے ایک سال بعد ماہنامہ ترجمان القرآن ستمبر 1948ء کے شمارے میں ایک سوال کے جواب میں سید مودودیؒ نے پاکستان کے تناظر میں “نظام اسلامی کے قیام کی صحیح ترتیب” کے زیر عنوان وضاحت کی تھی کہ:

’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے: ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے،وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اوراپنے اُن وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے اپنی قوم سے کیے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کرلیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہوگیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرناان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ اس صورت میں معقول طریق کار یہ ہے کہ پہلے ہماری دستور ساز اسمبلی ان بنیادی امور کا اعلان کرے جو ایک غیراسلامی نظام کو اسلامی نظام میں تبدیل کرنے کے لیے اصولاً ضروری ہیں، پھر وہ اسلام کا علم رکھنے والے لوگوں کود ستور سازی کے کام میں شریک کرے اور ان کی مدد سے ایک مناسب ترین دستور بنائے۔پھر نئے انتخابات ہوں اور قوم کو موقع دیا جائے کہ وہ زمام کار سنبھالنے کے لیے ایسے لوگوں کو منتخب کرے جو اس کی نگاہ میں اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے اہل ترین ہوں۔اس طرح صحیح جمہوری طریق پر اختیارات اہل ہاتھوں میں بسہولت منتقل ہوجائیں گے اور وہ حکومت کی طاقت اور وسائل سے کام لے کرپورے نظام زندگی کی تعمیر جدید اسلامی طرز پر کرسکیں گے۔

      دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور و ارادہ کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخوداس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آجائے۔

     ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔اگر اس میں ہم کامیاب ہوگئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اسی کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آگیا۔لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اوراس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کردی گئی تویہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انہوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کردیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کررہے تھے۔‘‘ (اسلامی ریاست، ص:741-742)۔

     اس کے بعد کے دو صفحات میں “سیاسی انقلاب پہلے یا سماجی انقلاب” کے عنوان سے ایک اور سوال کے جواب میں مولانا کا کہنا تھا “بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔”

     مولانا کے بیان کردہ پہلے آپشن والی حکمت عملی کے تحت،1949ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری کے نتیجے میں پاکستان کے اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست بن جانے کے بعد، جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ سید علیہ الرحمہ نے ذی الحجہ1369 ہجری یعنی ستمبر1950ء کے ترجمان القرآن میں “جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد: اس کے مقاصد اور طریق کار” کے عنوان سے ایک نہایت اہم تحریر سپرد قلم کی جس میں مغربی جمہوریت کے انتخابی طریق کار کا اسلامی اصولوں کی روشنی میں جائزہ لے کے اس کے نقائص کی بھرپور نشان دہی کی گئی ہے۔(قارئین مروجہ طریق انتخاب پر بانی تحریک کی اس مدلل تنقیدکے کچھ حصے اس تحریرکے اختتام کے بعد ضمیمہ سوم میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں)۔

     سید مودودی ؒ کی اس تحریر میں منصب کی خواہش اور اس کے حصول کی کوشش کو قرآن و حدیث کے حوالوں کی روشنی میں قطعی ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے الیکشن میں انفرادی ہی نہیں اجتماعی اور جماعتی امیدواری کو بھی اسلامی تعلیمات کے منافی بتایا گیا ہے اور اس موقف کے حق میں نہایت وزنی عقلی دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔مروجہ مغربی طریق انتخاب پر اس بھرپور تنقید کے بعد صراحت کی گئی ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں اس طرح حصہ لے گی کہ اسلامی احکام کی خلاف ورزی سے محفوظ رہے۔ اس طریق کار کا خلاصہ یہ تھا کہ جماعت انتخابی حلقے کے عوام کو اس بات پر آمادہ کرے گی کہ وہ خود یہ دیکھیں کہ ان کے علاقے میں ایسے لوگ کون ہیں جوپارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کے لیے دیانت و امانت اور اہلیت کے معیارات پر پورا اترتے ہوں لیکن خود غرضی، مفاد پرستی اور منصب کی حرص سے پاک ہوں اور خود رکن اسمبلی بننے کے خواہش مند نہ ہوں۔اس طریق کار کو پنچائتی نظام کا نام دیا گیااور1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں جماعت نے اس کے تحت شرکت کی۔   

       پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج جماعت کے لیے اگرچہ حوصلہ افزاء نہیں رہے تاہم ریکارڈ پر موجود تفصیلات کے مطابق اس سے زیادہ اہم معاملہ وابستگان جماعت میں اُبھرنے والا یہ احساس بنا کہ انتخابات میں شرکت کارکنان پر اسلامی اخلاق و کردار اور اور اخلاص و للّٰہیت کے حوالے سے منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب ثابت ہوئی ہے۔ ان شکایات کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد جماعت کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کے سوال پر سنجیدہ اختلاف رائے ابھرا۔ یہاں تک کی فروری 1957ء میں ماچھی گوٹھ میں وہ تاریخی اجتماع ارکان ہوا جس میں پارٹی پالیسی کے طور پر انتخابات میں شرکت کی قرارداد منظور ہوئی اور بانی جماعت سیدمودودیؒ نے اس قرارداد کی منظوری سے پہلے وہ طویل خطاب کیا جو “تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل” کے عنوان سے کتابی شکل میں دستیاب ہے۔

     اس حکمت عملی کی پہلی آزمائش دسمبر1970ء میں ملک میں پہلے عام انتخابات کی شکل میں ہوئی۔جماعت اسلامی اس وقت فی الحقیقت اپنی مقبولیت کے بام عروج پر تھی۔ سوشلزم کے خلاف جماعت کی سربراہی میں فکری محاذ پر جنگ جیتی جاچکی تھی۔ ملک کی کئی بڑی مزدور یونینوں میں جماعت کے حامی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا کرتے تھے۔کراچی سے پشاور تک جامعات اور کالجوں میں جمعیت مقبول ترین طلبہ تنظیم تھی۔ اسی سال یوم شوکت اسلام کی شکل میں جماعت کی بھرپور عوامی مقبولیت کا نہایت متاثر کن مظاہرہ ہوچکا تھا۔ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی اصل مدمقابل جماعت اسلامی ہی نظرآتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں بیشتر نشستوں پر جماعت نے اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ لیکن اسباب جو بھی ہوں عملی نتیجہ بہرکیف یہ رہا کہ جماعت قومی اسمبلی کی تین سو میں سے صرف چار نشستوں پر کامیاب ہوسکی۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور بالآخر اس کی علیحدگی کا سانحہ پیش آنے کی وجہ سے ملک میں شدید افراتفری رہی۔ لہٰذا انتخابی نتائج کے جائزے کے لیے مرکزی شوریٰ کا اجلاس فروری 1972ء سے پہلے نہیں ہوسکا۔

    اس اجلاس میں سید مودودی ؒ نے جو تجزیہ پیش کیا اور جماعت کے لیے جو لائحہ عمل تجویز کیا، اس کی روداد مجھے برادر محترم سید منور حسن ؒ نے لاہور سے واپسی پر کراچی میں ادارہ معارف اسلامی کے دفتر میں بالمشافہ ملاقات میں سنائی تھی، اور نومبر 2020ء میں برادرم محمد عبداللہ عبداللہ نے مولانا وصی مظہر ندویؒ کے حوالے سے فیس بک پر اس کی مکمل تصدیق کی ہے جبکہ بعض دوسرے حوالوں سے بھی اس کی بازگشت سنی جاتی رہی ہے۔ پہلے مولانا وصی مظہر صاحب کی روایت بزبان محمد عبداللہ عبداللہ سن لیجیے:

      1970ء کے الیکشن کے بعد مولانا سید مودودیؒ کی رائے بدل گئی تھی اور انہوں نے اپنی رائے بدل کر دعوت و تربیت کے کام کو دلجمعی کے ساتھ کرنے پر زور دیا تھا اور اس بات کا اظہار مرکزی شوریٰ میں کیا تھا مگر بدقسمتی سے جماعت کی قیادت نے اس بات کو منظر عام پر آنے نہیں دیا۔اس بات کے راوی مولاناسید وصی مظہر ندوی مرحوم تھے۔ جن سے لاہور آمد پر 1996ء میں ان کے کزن ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کے گھرنشتر بلاک علامہ اقبال ٹاؤن میں ملاقات پر معلوم ہوئی۔ اور انہوں نے یہ بات حلفاً بتائی۔اور یہ بھی بتایا کہ مولانا مودودیؒ طرز انتخاب کے حوالے سے پریشان رہتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔74سال کے تجربات نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے کہ الیکشن پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی کبھی ایک سیٹ اور کبھی دو جیت لیں۔وہ بھی اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں ملتی۔اس پریکٹس سے آزاد ہوکردین اسلام کی دعوت اور ساتھ آنے والوں کی تربیت کی طرف راغب ہوا جائے۔”

     مرکزی شوریٰ کے اس جائزہ اجلاس کی جو روداد برادر محترم سید منور حسن مرحوم نے مجھے سنائی، اب وہ پیش خدمت ہے:

     منور صاحب نے بتایا کہ شوریٰ کے اجلاس میں مولانا تشریف لائے اور کہا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک میں انتخابات کے ذریعے سے کوئی بامعنی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اس کی وجوہات میں مولانا نے برادری ازم، جاگیر داری، وڈیرہ شاہی، دھونس، دھاندلی، جھوٹ، فریب، عمومی بے شعوری، مقتدر طاقتوں کے کردار وغیرہ جیسے تمام اسباب کو شامل کیا اورکہا کہ تبدیلی کے لیے دعوت اور تربیت کے اصل کام پر پوری توجہ دینا ہوگی۔

     سید منور حسن مرحوم کے مطابق مولانا کے اس تجزیے کی روشنی میں ایک قرارداد کا مسودہ بھی نہ صرف تیار ہوابلکہ اس کی منظوری بھی عمل میں آئی لیکن امیر جماعت میاں طفیل محمد مرحوم نے گاڑی کی پٹری بدلنے اور اسے دوبارہ سابقہ ٹریک پر لانے کے اس کام سے معذرت کرتے ہوئے عرض کیاکہ وہ اس کی اہلیت نہیں رکھتے اور درخواست کی کہ مولانا خود اس کا بیڑہ اٹھائیں۔ تاہم مولانا نے اپنی خرابی صحت کے باعث یہ عذر پیش کیا کہ اس کام کے لیے جو توانائی درکار ہے، وہ اپنے اندر اس کا فقدان پاتے ہیں۔ اس طرح یہ قرارداد عمل درآمد سے محروم رہی۔

     منور صاحب نے اس بارے میں مجھ سے خود اپنی جس رائے کا اظہار کیا وہ تقریباً ان ہی کے الفاظ میں یہ تھی کہ:

’’جماعت اب تحریک نہیں رہی بلکہ تنظیم بن گئی ہے اور اسے دوبارہ تحریک بنانا اسی طرح محال ہے جیسے آٹھ سال کے بچے کو وہ کپڑے پہنانا جو وہ چار سال کی عمر میں پہنا کرتا تھا۔“  سید مودودیؒ اس کے بعد شوریٰ کے فیصلے کے مطابق انتخابی سیاست کی پالیسی کے ساتھ چلتے تو رہے لیکن زندگی کے آخری برسوں تک اِس پر اُن کے دلی طور پر مطمئن نہ ہونے کے بعض اور شواہد بھی بعد میں سامنے آئے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

     ان میں سے ایک ممتازایرانی اسکالر سید ولی رضا نصر کی سید مودودیؒ پر تحقیقی تصنیف ہے جس میں انہوں نے دیگر موضوعات کے علاوہ انتخابی طریقہ کار سے بانی جماعت کی مایوسی کے حوالے سے حقائق بھی جمع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے مولانا وصی مظہر ندوی علیہ الرحمہ کو بھی سوالنامہ بھیجا جس کا تفصیلی جواب مولانا ندوی کی جانب سے دیا گیا اور ان کی تحریروں کے مجموعے ”صریر خامہ“ میں 168 تا 185 صفحات میں شامل ہے۔

     یہ کتاب میرے پاس نہیں ہے لیکن پچھلے دنوں ان صفحات کا عکس ایک دوست نے مجھے بھیجا تو میرے علم میں یہ بات آئی کہ سید مودودیؒ کے تجزیے کی روشنی میں انتخابی سیاست سے غیرمحسوس کنارہ کشی اور جماعت کی داعیانہ حیثیت کو ابھارنے اور معاشرے کو دعوت و تربیت کے ذریعے جڑ سے ٹھیک کرنے کے کام کی طرف تحریک کو واپس لانے والی فروری 1972ء کی محولہ بالا قرارداد مرتب کرنے کی ذمہ داری ممتاز تحریکی اسکالر جناب نعیم صدیقی اور مولانا وصی مظہر ندوی کو دی گئی تھی اور عاملہ اور شوریٰ دونوں میں اس کی متفقہ منظوری بھی عمل میں آئی تھی لیکن مولانا ندوی کے بقول عملاً جماعت کی پالیسی میں اس کے مطابق کوئی تبدیلی واقع نہ ہوسکی۔اس کے بعد 28نومبر1975ء کو سید مودودی ؒ نے واضح الفاظ میں بالغ رائے دہی پر مبنی انتخابی طریق کار کے ذریعے سے اسلامی انقلاب کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے معاشرے کے تمام طبقوں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے بنیادی کام پر توجہ مرتکز کرنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن جماعت کی قیادت عملاً جن ہاتھوں میں تھی وہ بانی تحریک کی رہنمائی کی روشنی میں جماعت کی عملی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔

     مرکزی شوریٰ کے اجلاس منعقدہ 17 فروری 1972ء میں منظور کی گئی یہ قرار داد میاں طفیل محمد مرحوم سے سوال جواب پر مشتمل سلیم منصور خالد کی مرتب کردہ کتاب ”مشاہدات“میں بطور ضمیمہ شامل ہے۔ اس تحریر کے اختتام کے بعد قارئین مولانا وصی مظہر ندوی کی کتاب”صریر خامہ“ کے محولہ بالا صفحات اور سید مودودیؒ کی ہدایت کے مطابق مرتب کی گئی تاریخی قرارداد کامتن ضمیہ اول اور ضمیمہ دوم میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔ ’’مشاہدات‘‘ کے صفحہ 326 اور 327 پر انتخابی سیاست پرمولانا مودودیؒ کے موقف میں تبدیلی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں میاں طفیل محمدؒ نے مولانا وصی مظہر ندویؒ کے نقطہ نظر کی توثیق نہیں کی لیکن جو حقائق پچھلی سطور میں پیش کیے گئے ہیں وہ میاں طفیل محمد کے موقف کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں۔

مولانا ابوالحسن ندویؒ کی گواہی  

 اس حوالے سے ایک اور نہایت اہم گواہی مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ہے۔ وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وفاقی حکومت کے زیراہتمام ہونے والی سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے جولائی 1978ء میں پاکستان تشریف لائے اور یہاں تقریباً تین ہفتے ان کا قیام رہا۔ اس عرصے میں مولانا مودودیؒ سے بھی انہوں نے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی جو خبراخبارات میں شائع ہوئی اُس کے مطابق مولانا ندویؒ نے بتایا کہ بانی جماعت اسلامی نے اس امرکا واضح طور پر اظہار کیا کہ’’ حقیقت تو یہی ہے کہ اخلاقی اور سماجی تبدیلی پہلے آتی ہے اور سیاسی تبدیلی بعد میں‘‘۔

    اس ملاقات کا ذکر مولانا ندویؒ نے اپنی کتاب’ پرانے چراغ‘ میں سید مودودیؒ پر لکھے گئے مضمون میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ یہ ایک تقدیری بات ہے کہ پاکستان پہنچنے کے بعد ان کی توانائی کا بڑا حصہ جماعت کی تنظیم و توسیع، اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے اور دستوری و انتخابی ذرائع سے اقتدار جماعت کی طرف منتقل کرنے پر مرکوز ہوگئی، میرا اندازہ ہے کہ ان کو اپنے آخری دور میں اس کا احساس ہوگیا تھا کہ جن پیرؤوں اور ہم خیالوں سے وہ اس کی توقعات وابستہ کر رہے ہیں اور جس معاشرے کی زمین پر وہ یہ عمارت اٹھانا چاہتے ہیں، اس میں ا س کا بوجھ برداشت کرنے اور اس کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔ اور شاید ان کو یہ احساس بھی ہو چلا تھا کہ اس درمیانی منزل کو طے کرنے میں کسی قدر عجلت اور خوش گمانی سے کام لیا گیا،اس کو اس سے زیادہ دینی و اخلاقی تربیت اور خود ان ہی کے الفاظ میں سیرت سازی اور تعمیر کردار کی ضرورت تھی جتنی اس کو حاصل نہ ہوئی۔( پرانے چراغ، حصہ دوم، صفحات 267-266 )

  بفیلو میں دوران علاج انتخابی سیاست میں شرکت پر عدم اطمینان   

   سیدمودودیؒ زندگی کے آخری دنوں میں امریکہ کی ریاست نیویارک کے شہر بفیلو میں زیر علاج رہے‘ کنیڈا میں مقیم معروف تحریکی ساتھی اور تجزیہ کار برادرم جاوید انور صاحب نے ٹیلی فون پرہونے والی گفتگو میں مجھے بتایا کہ مولاناکی باقاعدگی سے عیادت کرنے والے تین تحریکی اشخاص  میں سے  جناب امراللہ حسینی کے مطابق ان سے تبادلہ خیال میں بھی مولانا دعوت و تربیت کے ذریعے سے معاشرتی و اخلاقی تبدیلی کے بجائے انتخابی سیاست کے طریق کار پرعدم اطمینان کا اظہار کیا کرتے تھے۔ جب جاوید انور نے امراللہ حسینی سے  استفسار کیا کہ  بانی جماعت ، جماعت اسلامی کو انتخابی اور جمہوری  سیاست  سے کیوں نہ نکال سکے  تو  امراللہ حسینی نے کہا کہ  اس وقت تک جماعت پر ڈیموکریٹز  (Democrats) کا قبضہ ہو چکا تھا۔

بانی تحریک کی فکر میں اس تبدیلی کی ایک اور شہادت کراچی یونیورسٹی کے مجلے الجامعہ میں جو 1978 میں شائع ہوا تھا، ان کی زندگی کے آخری برسوں میں کیے گئے ایک انٹرویو میں بھی ملتی ہے۔ اس مجلے کے مدیر شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم برادرم طاہر مسعود تھے جو بعد میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کی حیثیت سے  اس شعبے کے سربراہ بھی رہے ۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کے مطابق اس انٹرویو میں مولانا نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ’’ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستے سے آسکتا ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر طاہر مسعود نے یہ بات فیس بک پر سلسلہ وار شائع ہونے والی اپنی یاد داشتوں میں 20 مارچ 2025 کو بھی لکھی ہے۔

     حقیقت یہ ہے کہ 1970ء کے بعد انتخابی سیاست کے بارے میں بانی تحریک کی رائے میں یہ تبدیلی جس کا اظہار انہوں نے مولانا وصی مظہر ندویؒ اور سید منور حسنؒ کی روایات کے مطابق شوریٰ کے فروری 1972ء اور 28نومبر 1975ء کے اجلاسوں میں اور پھر زندگی کے آخری ایام میں مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اور دیگر افراد سے کیا، وہ اُن کے اُس اصل موقف کے عین مطابق تھی جو ستمبر 1948ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں سوالوں کے جواب میں انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جس کا حوالہ اس تحریر کی ابتداء میں دیا جاچکا ہے۔اس اظہار خیال میں انہوں نے انتخابات کے راستے سے سیاسی قیات میں تبدیلی لانے کا تجربہ کامیاب نہ ہونے کی صورت میں “معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کے طریقے” کو از سرنو اولین ترجیح کے طور پر اپنانے کا اعلان کیا تھا۔

     درحقیقت انتخابات سے ملک میں صالح قیادت کی آمد کی جو توقع بانی جماعتؒ نے قائم کی تھی اس کی بنیاد صاف ستھرے منصفانہ انتخابات تھے۔ اسی تصور کے تحت ان کا خیال تھا کہ چند انتخابات کے بعد لوگ کھرے کھوٹے کا فرق جان لیں گے اور ملک کو جدید ترقی یافتہ اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کے لیے جیسی قیادت درکار ہے، اپنے ووٹوں سے اُسے برسراقتدار لے آئیں گے۔لیکن ان کی فراست نے پہلے ہی عام انتخابات کے بعد جان لیا کہ اس ملک میں دھن دھونس دھاندلی دجل و فریب اور بے جا مداخلت سے پاک غیرجانبدارانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور عوام کی ترجیحات میں بھی گروہی مفادات اور مختلف قسم کے تعصبات کا ایسا سخت جان عمل دخل ہے کہ ان سے کسی مثالی رویے کی امید خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔

     حالات اور واقعات گواہ ہیں کہ1970ء کے پہلے عام انتخابات اور اس کے بعد اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، انہوں نے مولانا کے اس نتیجہ فکر کی اصابت کی بھرپور توثیق کی ہے۔دوسری جانب انتخابی مہمات میں انتہائی خلوص اور جاں فشانی سے کام کرنے کے باوجود پے درپے شکستوں کے نفسیاتی اثرات اور انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے والے اُن عوامل نے جن کا پہلے کوئی درست اندازہ نہ تھا، قیادت اور کارکنوں کو “تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل” میں بیان کردہ اس اصول پر قائم نہیں رہنے دیا کہ انتخابات معاشرے میں تحریک کے پیغام اور دعوت کی مقبولیت کے پیمانہ ہوں گے لہٰذا جلد اور مصنوعی کامیابی کی خاطر کوئی شارٹ کٹ اختیار نہ کیے جائیں۔ اس کے بجائے حالات نے انہیں عام سیاسی جماعتوں جیسے ایسے سیاسی تجربات پر مجبور کیا جو امکانی طور پر کامیابی کا تناسب بہتر بناسکیں۔ ان میں اسلامی فرنٹ، پاسبان، شباب ملی وغیرہ جیسے تجربات شامل ہیں۔ تاہم واقعاتی حقائق گواہ ہیں کہ ان سے انتخابی کامیابیاں تو کم ہی حاصل ہوئیں لیکن دعوت الی اللہ کی تحریک کی حیثیت سے جماعت کا تشخص یقینا بہت متاثر ہوا جو اس کا اصل امتیاز تھا۔ اہل علم و فکر کا جو رجوع جماعت کی جانب ہوا کرتا تھا اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی، قیادت اور کارکنوں کا معیار پست ہوا،اور پچاس سال پہلے ان حوالوں سے  جماعت جس مقام پر تھی، شاید ہی یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ آج اس سے کہیں زیادہ نیچے نہیں آچکی ہے۔ جبکہ انتخابی نتائج اور رائے عامہ کے جائزوں سے واضح ہے کہ جماعت کی عوامی مقبولیت اور ووٹ بینک میں بھی اضافے کے بجائے مسلسل کمی واقع ہوتی چلی آرہی ہے۔  

      مولانا وصی مظہر ندویؒ اور سید منور حسن ؒکے حوالے سے بیان کی گئی عاملہ اور شوریٰ کے اجلاسوں کی روداد--جن کے مطابق سید علیہ الرحمہ نے انتخابی سیاست میں شرکت کے ذریعے سے معاشرے میں تبدیلی سے مایوسی ظاہر کی اور اس کے بجائے دعوت و تربیت کے بنیادی کام پر توجہات مرتکز کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا--اگر درست نہیں اور مرکزی شوریٰ کے ریکارڈ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی تو نظم جماعت کی جانب سے اس کی تردید میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں جبکہ بصورت دیگر اسے پوشیدہ رکھنا کسی بھی طرح دعوت دین کی جدوجہد کے مفاد میں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی فکر کی بنیاد پرجماعت اسلامی کی پوری تحریک اٹھی تھی، اگر اس نے انتخابی سیاست میں شرکت کے تجربے کے بعد اسے ترک کردینے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا تو وہ محض ایک عام رکن شوریٰ کی رائے نہیں بلکہ تحریک کے فکری مؤسس کی رائے تھی اور حکمت عملی کے ایسے اہم ایشو پر اس کی رائے کو ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘والے جمہوری اصول کی بنیاد پر طاق نسیاں کی زینت بنادینا بہرصورت محل نظر ہے۔

     مزید یہ کہ یہ ٹھیک وہی بات تھی جو 1951ء میں پنجاب کے صوبائی انتخابات میں شرکت کے تجربے کے بعد جماعت میں ایک بڑے خلفشار کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی اور بالآخر فروری 1957ء میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں جماعت کی صف اول کی علمی و فکری قیادت کے بنیادی ارکان کی جماعت سے علیحدگی کا سبب بنی تھی۔ سید مودودیؒ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں جو “تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل”کے نام سے کتابی صورت میں دستیاب ہے، انتخابات میں شرکت کی حکمت عملی کی پرُزور حمایت کی تھی۔ اب اگر اس کے 31 سال بعد 1970ء میں ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر بانی جماعت علیہ الرحمہ بھی اپنے سابق ساتھیوں کی ظاہر کردہ رائے سے متفق ہوگئے تھے اور شوریٰ کے اجلاس میں انہوں نے اس کا بھرپور اظہار کرکے معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے والے طریقے کی طرف لوٹنے کی ضرورت پر زور دیا تھا تو یہ ایک انتہائی انقلابی واقعہ تھا۔

      جماعت اسلامی کی شوریٰ اور امیر کی طرف سے اس رائے پر عمل درآمد کے محال ہونے کی بات اپنی جگہ باوزن ہوسکتی ہے، دستور کی رو سے انہیں اکثریت کی بنیاد پر بانی تحریک کی رائے سے مختلف رائے رکھنے اور اس کے مطابق حکمت عملی وضع کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے،لیکن تجدید و احیائے دین کا اگلا باب لکھنے والے مؤرخ کو برصغیر میں بانی تحریک اسلامی کی رائے میں حکمت عملی کے حوالے سے اس بنیادی تبدیلی کا مکمل علم بہرحال ہونا چاہیے تاکہ مستقبل کی اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی میں اسے ملحوظ رکھ سکیں لہٰذا ہماری عاجزانہ رائے میں اس کا ریکارڈ پر لایا جانا نہایت ضروری ہے۔ 

موجودہ حالات میں ممکنہ درست حکمت عملی

     انتخابی سیاست سے الگ رہنے کا مطلب سیاسی سرگرمی سے الگ رہنا ہرگز نہیں۔جماعت اسلامی سمیت پاکستان کی دینی قوتوں نے انتخابی سیاست سے الگ رہنے کے باوجود آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں رائے عامہ کو اپنے موقف کا قائل کرکے مطالبہ نظام اسلامی کی کامیاب مہم جوئی، قرارداد مقاصد کی تیاری و منظوری،  آئین مملکت کے لیے بائیس نکات کی شکل میں اسلامی نظریاتی ریاست کے خدوخال کی مکمل صورت گری اور 1956ء  کے آئین میں مؤثر اسلامی دفعات کی شمولیت جیسے کارنامے انجام دیے ہیں۔1973ء میں نافذ ہونے والا موجودہ دستوربھی جس میں علمائے کرام کے 1951ء میں مرتب کردہ بائیس نکات بہت بڑی حد تک سمو دیے گئے ہیں، دینی جماعتوں کی پارلیمانی اکثریت اور قوت کا نتیجہ نہیں بلکہ معاشرے اور عوام پر ان کے اثرات کا ثمرہے کیونکہ اس پارلیمنٹ میں دینی جماعتوں کی نمائندگی آٹے میں نمک سے زیادہ نہ تھی۔لہٰذا یہ سمجھنا کہ اسلامی تحریک انتخابی سیاست سے الگ ہوکر کاروبار مملکت اور سیاسی امور پر اثرانداز ہونے کی طاقت کھوبیٹھے گی، کسی بھی طور درست نہیں۔ اس کی انتخابی سیاست سے علیحدگی عوام پر اس حقیقت کو واضح کرے گی کہ تحریک اسلامی کی جدوجہد کے پیچھے کسی قسم کی سیاسی اغراض اور مفادات نہیں ہیں جس کے نتیجے میں اس پر لوگوں کا اعتبار بڑھے گا اور حکمرانوں سمیت تمام سیاسی عناصر سے اپنی بات منوانے کی اس کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ملک کے پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد فروری 1972ء میں سید مودودیؒ نے اسی لیے باقاعدہ قرار داد کی شکل میں معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی طرف واپس لوٹنے کی حکمت عملی اختیار کرنے پر مرکزی شوریٰ کو قائل کیا تھا۔

     دعوتی اور تربیتی سرگرمیوں کے ذریعے سے ہمہ گیر اصلاح کی یہ جدوجہد معاشرے کے تمام شعبوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف سیاسی میدان میں بھی جماعت کااخلاقی اثر و رسوخ بڑھانے کا سبب بنے گی بلکہ فلاح انسانی کی عالم گیر تحریک کے طورپر اس کے اُس اصل تشخص کو بحال کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی جو قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں کے بعد بیشتر وسائل، توجہات اور توانائیاں انتخابی سیاست پر صرف ہونے کی وجہ سے بالکل دھندلا گیا ہے۔ انتخابات میں شرکت کے ذریعے سے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ماڈل اسلامی ریاست بنانے کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات نہ صرف ماضی کے مقابلے میں سماجی رجحانات میں تبدیلیوں کے سبب نمایاں طور پر کم ہوئے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے تحریک کی دلچسپیوں کا دائرہ رفتہ رفتہ صرف پاکستان یا زیادہ سے زیادہ عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور مفادات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور سید مودودیؒ کی اصل فکر کے مطابق جس کے متعدد حوالے اس تحریرکے ابتدائی حصے میں دیے گئے ہیں، پوری انسانی برادری کو یکساں طور پر اور مکمل غیرجانبداری کے ساتھ اللہ کی طرف بلانے کا کام نہیں ہوپارہا ہے۔اسی وجہ سے اس کے پروگرام میں غیرمسلم دنیا کو اپنے لیے کوئی کشش نظر نہیں آتی۔اس لیے مقامی سطح پر جدوجہد کے ساتھ ساتھ بانی تحریک کی رہنمائی کے مطابق اس کی دعوت  یعنی تمام انسانوں کو بندگی رب کی طرف بلانے کو کوششوں کے دائرے کو پوری انسانی برادری تک وسعت دینے کا پروگرام مرتب کیے جانے اور روبعمل لائے جانے کی ضرورت بالکل واضح ہے۔        

علمی و فکری انقلاب-غلبہ اسلام کی واحد راہ

     دنیا سے غیراللہ کی حاکمیت کے خاتمے اوراللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت کے قیام کا یہ کا م سید مودودیؒ کے مطابق صرف ایک ہی طریقے سے ممکن ہے‘ اور وہ ہے عالمی سطح پر علمی و فکری انقلاب۔ لکھتے ہیں:

     ’’اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِ اعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکاراور مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں اور یہ انحراف بڑھتاہی چلا جارہا ہے۔سیاسی غلبہ و استیلاء سے قطع نظر،مغرب کا علمی و فکری دبدبہ اور تسلط دنیا کی ذہنی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمان کی نظر سے دیکھنا اورسوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔یہ اشکال اس وقت تک دور نہ ہوگا جب تک مسلمانوں میں آزاد اہل فکر پیدا نہ ہوں گے..... اب اگر اسلام دنیا کا دوبارہ رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں جن پر (خدائی ہدایت سے بے نیاز) مغربی تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اورحقائق کی جستجو سے ایک نئے نظام فلسفہ کی بنیاد رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو۔ایک نئی حکمت طبیعی(نیچرل سائنس) کی عمارت اٹھائیں جو قرآن کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اٹھے۔ ملحدانہ نظریے کو توڑ کر الٰہی نظریے پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو۔‘‘

(تنقیحات ص(20-19:

وقت کا اصل تقاضا

     در اصل یہی وہ راستہ ہے جسے اختیار کرکے دنیا کو یہ حقیقت باور کرائی جاسکتی ہے کہ اسلام تمام نوع انسانی کو ظلم و نا انصافی سے نجات دلانے اور عزت و شرف اور فلاح و ترقی کی حقیقی شاہراہ پر گامزن کرنے  کا ضامن واحد نظام زندگی ہے، اور کسی مخصوص انسانی گروہ کے مفادات کا تحفظ اس کا مقصود نہیں۔پوری دنیا کے انسانوں کے دلوں کے دروازے اسلام کے لیے کھلنے کے امکانات اسی طرح روشن ہوسکتے ہیں۔سید مودودیؒ پوری دنیا کے انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر صرف اللہ کی بندگی کی راہ پر ڈالنے کی جس عظیم الشان تبدیلی کا پرچم لے کر اٹھے تھے، اس راستے کو اختیار کیے بغیر اس کے وقوع پذیر ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔مادّی وسائل میں ساری کمتری کے باوجود عقیدے اور فکر کا یہ میدان وہ ہے جس میں دنیا کی کوئی طاقت اسلام کو شکست نہیں دے سکتی۔مغرب کی مادّی تہذیب پر اس میدان میں اسلام کو یقینی برتری حاصل ہے۔خدائی ہدایت سے بے نیاز مغربی نظام زندگی، انسانیت کے مسائل کو حل کرنے، ظلم کو ختم اور عدل کو قائم کرنے میں قطعی ناکام ہوچکا ہے اور اپنے ہی تضادات کا شکار ہوکر تیزی سے زوال پذیر ہے۔یہ تہذیب قرآن کی روشنی میں کی گئی تنقید اور پیش کیے گئے متبادل نظریہ حیات کا مقابلہ کرنے کی ہرگز سکت نہیں رکھتی۔

ایک فی دنیا کی حقیر اقلیت سے اس تحریک کا آغاز ممکن

     اس کام کو شروع کرنے کے لیے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسلمان پہلے سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں جدید مادّہ پرست قوتوں کے ہم پلہ ہوجائیں،صنعت و حرفت میں ان کی برابری کرنے لگیں اور فوجی طاقت میں ان کی ٹکر پر آجائیں۔سید مودودیؒ کے بقول اس کام کا آغاز تمام مادّی وسائل سے محروم ایک اکیلا شخص بھی کرسکتا ہے۔تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے کہ وقت کی نمرودی اور فرعونی تہذیبوں کو چیلنج کرنے کا یہ کام ہمیشہ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام جیسے ظاہری دُنیوی وسائل سے سراسر محروم انسانوں ہی نے انجام دیا ہے۔البتہ آج کی اسلامی تحریکوں کو یہ کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو عملاً محض مسلمانوں کے قومی مفادات کی وکالت اور اس سلسلے میں دوسری اقوام کے ساتھ ان کے تنازعات میں ناروا جانبداری سے بالا تر ہونا پڑے گا،کیونکہ ایسا نہ کرنے کا مطلب سید مودودیؒ کے الفاظ میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم ’’وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیں‘‘۔اس حوالے سے اپنے مشہور مقالے’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ میں کہتے ہیں:

 اصولی حکومت کے تخیل کی بنیاد   

’’اصولی حکومت کے تخیل کی تو بنیاد ہی یہ ہے کہ ہمارے سامنے قومیں اور قومیتیں نہیں، صرف انسان ہیں۔ہم ان کے سامنے ایک اصول اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ اسی پر تمدن کا نظام اور حکومت کا ڈھانچہ قائم کرنے میں ان کی فلاح ہے، اور جو اس کو قبول کرلے وہ اس نظام کو چلانے میں برابر کا حصہ دار ہے۔غور کیجیے اس تصور کو لے کر وہ شخص کس طرح اٹھ سکتا ہے جس کے دماغ، زبان، افعال اور حرکات، ہر چیز پر قومیت اور قوم پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہو۔اس نے تو وسیع تر انسانیت کو اپیل کرنے کا دروازہ خود ہی بند کردیا۔پہلے ہی قدم پر اپنی پوزیشن کو آپ غلط کرکے رکھ دیا۔قوم پرستی کے تعصب میں جو قومیں اندھی ہورہی ہیں،جن کے لڑائی جھگڑوں کی ساری بنیاد ہی قوم پرستی اور قومی ریاستیں ہیں،ان کو انسانیت کے نام پر پکارنے اور انسانی فلاح کے اصول کی طرف بلانے کا آخر یہ کون سا ڈھنگ ہے کہ ہم خود اپنے قومی حقوق کے جھگڑوں سے اس دعوت کی ابتداء کریں؟“(تحریک آزادی ہند اور مسلمان جلد دوم، ص:166)۔

اعتراف حق کی منزل قریب ہے

     حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے حالات بندگی رب کی دعوت کی اشاعت اور قبولیت کے لیے جتنے سازگار آج ہیں،انسانی تاریخ کے کسی دور میں نہیں رہے۔ہر نبی کی دعوت کی راہ میں عموماً سب سے بڑی رکاوٹ تقلید آباء کا روگ ہوتا تھا۔لوگ صاف کہہ دیتے تھے کہ ہم تو وہی کچھ کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔لیکن آج یہ روایت پرستی بالکل ختم ہوچکی ہے اور جدید دور کے انسان سے دلیل کی بنیاد پر بات کی جاسکتی ہے۔سائنس کے نام پر انکارِ خدا کا فتنہ بھی دم توڑ چکا ہے اور جدید سائنس تخلیق کائنات کے پیچھے ایک ماسٹر مائنڈ یا خالق کی موجودگی کی پوری طرح قائل ہے۔خالص الحاد کی بنیاد پر ابھرنے والااشتراکیت کا نظریہ جنگ ہار چکا ہے جبکہ نظام سرمایہ داری نے دنیا کو ظلم اور فساد سے بھر دیا ہے۔اس کے نتیجے میں آج کا انسان شعوری یا لاشعوری طور پر ایک ایسے نظام زندگی کا متلاشی ہے جو اس کی روحانی پیاس بھی بجھائے اور دنیا کے معاملات میں اس کے لیے عدل و عافیت اور خوش حالی کا ضامن بھی ہو۔

جدید ذرائع مواصلات اور ابلاغِ حق کے مواقع

     مزید یہ کہ جدید اور واقعتا برق رفتارذرائع مواصلات نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں کیا عملاً ایک گھر بنادیا ہے۔انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد کرہ ارض کے ہر باشندے کے لیے دنیا کے دوسرے تمام لوگوں تک لمحوں میں اپنی بات پہنچانا اتنا ہی آسان ہے جیسے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے کسی شخص سے تبادلہ خیال کرنا۔ان حالات سے واضح ہے کہ دنیا میں اب جو تبدیلی بھی آئے گی ،عالمی سطح ہی پر آئے گی۔افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں سے دنیا کا کوئی گوشہ اثر پذیر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس کا پیغام زیادہ مؤثر اور جان دار ہوگا، بالآخر  وہی جدید انسان کے ذہن کو مسخر کرنے اوراس کا دل جیتنے میں کامیاب رہے گا۔آج اگر مغرب اپنے پروپیگنڈے کی طاقت سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دوسرا نام ہے تو ان ہی جدید ذرائع سے لوگوں تک اسلام کی اصل دعوت پہنچا کر صورت حال یکسر بدلی بھی جاسکتی ہے، کیونکہ اسلام بہر حال حق ہے اور یہ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روشنی کے سامنے اندھیرا کبھی ٹھہر نہیں سکتا۔جاء الحق و زھق الباطل، ان الباطل کان زھوقا۔

خاتم الانبیاء کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا

     دنیا کی یہ کیفیت اس امر کا کھلا اشارہ ہے کہ جو نبیؐ پوری انسانیت کے لیے مبعوث کیا گیا ہے اور جس کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کی ذمہ داری اِس امت کے سپرد کی گئی ہے،اُس نبیؐ کے مشن کی تکمیل کا وقت آپہنچا ہے۔لہٰذا دور حاضر میں اسلامی تحریک کو اپنی حکمت عملی وقت کے اس تقاضے کے مطابق ترتیب دینی چاہیے۔ مقامی طور پر نفاذ اسلام کی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ سید مودودیؒ کے افکار کے مطابق عالمی محاذ پر مادّیت پرست مغربی فلسفہ حیات اور معاشرت و معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کے تباہ کن عملی نتائج پربھرپور تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلام کے نظام عدل و رحمت کے پیش کردہ منصفانہ حل کو دنیا کے سامنے لانے کی خاطر علمی وفکری اور تحقیقی کام کے لیے بھی اسے اپنے وسائل اور صلاحیتوں کا معقول حصہ وقف کرنا چاہیے، اور ان کاوشوں کا جدید ذرائع ابلا غ  کو استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا تک پہنچانا چاہیے۔

سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کی ناکامیاں اورتباہ کاریاں

     سوشلزم کو علمی میدان میں شکست دینے کاعظیم الشان کارنامہ پاکستان کی اسلامی تحریک کے اہل دانش ہی نے گزشتہ صدی کی چھٹی ساتویں دہائی میں انجام دیا تھا اور پھر افغانستان میں اس نظریے کے علم برداروں کے خاک نشین افغان مجاہدین اسلام کے ہاتھوں رسوا کن ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد یہ نظام فنا کے گھاٹ اتر گیا۔قدرت کے اشارے واضح ہیں ،بے خدا مغربی تہذیب کے سکے کے دوسرے رخ یعنی سرمایے کے پجاری بھی موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں اسی سرزمین پر ان ہی مجاہدوں کو زیر کرنے کی دو عشروں پر محیط سرتوڑ کوششوں کی ذلت آمیز ناکامی کے بعد ان سے جان کی بھیک مانگ کر راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔

      ’’سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ ِ مفاجات‘‘کے اصول پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں بدترین ارتکازِ دولت کو جنم دیا ہے۔کرہ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کے لیے زندگی اس کے نتیجے میں عذاب بن گئی ہے۔ سرمایہ دار کو سستی لیبر فراہم کرنے کی خاطر عورت کو اس کے فطری دائرہ کار سے باہر نکال کر اور معیشت کی چکی میں جوت کر خاندانی نظام تباہ کردیا گیا ہے۔فحاشی اور بے حیائی اس صورت حال کا منطقی نتیجہ ہے۔ہم جنس پرستی سمیت ناجائز تعلقات کی تمام طریقوں کے فروغ پانے کی وجہ سے مغربی دنیا آبادی میں ہولناک کمی سے دوچار ہے۔تمام مغربی معاشروں میں بوڑھوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور نوجوانوں کا تناسب اسی رفتار سے گھٹ رہا ہے۔یوں مغربی معاشرے اقبالؒ کی اس پیشین گوئی کا مصداق نظر بن گئے ہیں کہ ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی، جوشاخِ  نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا‘‘۔                   

سیکولرزم کا فلسفہ- معقولیت سے عاری

     سیکولرزم کا جو فلسفہ سرمایہ داری نے الٰہی ہدایت پر مبنی نظام حیات کے متبادل کے طور پر اپنایا ہے،جس کے علم بردار معقولیت پسندی ہی کو اپنی منفرد شناخت قرار دیتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ نظریہ انسانوں کے درمیان انصاف ،مساوات، رواداری اور برداشت کے فروغ اور تعصبات کے خاتمے کا ضامن ہے،تھوڑی سی چھان پھٹک اس کی حقیقت کھول دیتی ہے۔سید مودودیؒ نے اس حوالے سے بھی سیرحاصل رہنمائی فراہم کی ہے جس کا خلاصہ آئندہ سطور میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مذہب، انسان اور خدا کے درمیان پرائیویٹ معاملہ؟

     سیکولرزم کی بنیاد یہ خیال ہے کہ مذہب انسان اور خدا کے درمیان ایک پرائیویٹ معاملہ ہے۔اس لیے پبلک لائف یا اجتماعی زندگی کا خدا کی ہدایات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔اس تصور کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اگر خدا کے وجود کا قائل ہے تووہ انفرادی طور پر اس کی عبادت کرنے کا اختیار رکھتا ہے مگر جہاں سے دو انسانوں کے باہمی روابط شروع ہوتے ہیں، وہاں سے انسان اور خدا کے تعلق کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے اور انسان اپنے معاملات اپنے اور کائنات کے خالق کی رہنمائی سے بے نیاز رہتے ہوئے طے کرنے کے لیے آزاد ہوجاتا ہے۔جدید تہذیب کی پوری عمارت اسی نظریے پر اٹھائی گئی ہے۔چنانچہ سیکولر معاشروں میں میاں بیوی اور والدین و اولادکے باہمی تعلقات سے لے کر سیاسی و معاشی اور عدالتی و تعلیمی نظام اور بین الاقوامی روابط تک کہیں بھی خدا کا کوئی عمل دخل دکھائی نہیں دیتا۔کسی بھی اجتماعی معاملے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کبھی یہ سوال نہیں اٹھتا کہ اس سلسلے میں کیا اللہ کی طرف سے بھی کوئی ہدایت موجود ہے،اور اگر ہے تو انسانوں کی جانب سے اس کی پابندی کی کوئی ضرورت ہے یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج مغربی معاشروں میں یکساں اصناف کے درمیان صنفی روابط جیسے انسانی فطرت سے صریحاً متصادم اور دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات کی رو سے قطعی ممنوع فعل تک کو مکمل قانونی جواز حاصل ہے۔

     یہ صورت حال سیکولرزم کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ اجتماعی زندگی کو خدا کی ہدایات سے بالاتر ہونا چاہیے جبکہ اس نظریے کی رو سے انفرادی زندگی میں انسان خدا کی عبادت کرنے کے لیے آزاد ہے۔ چنانچہ جدید معاشروں میں حکومت و سیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں آج وہ لوگ بھاری اکثریت میں ہیں جو خدا کو خالق کائنات کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے نجی طور پر اس کی عبادت بھی کرتے ہیں۔

     تاہم سوال یہ ہے کہ اگر خدا ہے مگر انسان کی اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں تو پھر بھلا نجی زندگی میں بھی اس کی پرستش کرنے اور اس سے تعلق رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟اس سے زیادہ بے عقلی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان ایک ایسی ہستی کے سامنے سر جھکائے جس کا اس کی زندگی اور معاملات زندگی سے سرے سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔لیکن اگر یہ خدا انسان اور اس پورے کارخانہ عالم کو تخلیق کرنے والا اور اس کا حاکم و فرماں روا ہے تو پھر اس سے انسان کے تعلق کا محض نجی زندگی تک محدود رہناایک بالکل لایعنی بات ہے۔آخر اس بات  میں کیا معقولیت ہے کہ جس ہستی سے انسان کا ایسا ہمہ گیر تعلق ہو وہ اسے صرف اپنی پرائیویٹ زندگی تک محدود رکھے اور جہاں سے دو انسانوں کے باہمی روابط کا آغاز ہوتا ہے،وہیں سے وہ اسے اپنی زندگی سے بے دخل کردے۔

     اگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسانوں کو ایسا کرنے کو کہا ہے تو اس کا کوئی ثبوت ہونا چاہیے۔لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور انسان نے کم علمی کے سبب اپنے طور پر ہی اس ہستی کے اختیارات کو جسے وہ اپنا اور پوری کائنات کا خالق ومالک مانتا ہے،صرف اپنی انفرادی زندگی تک محدود کردیا ہے تو یہ روش ہوش و خرد سے صریحاً عاری ہے اور اسے معقولیت قرار دینا نری حماقت ہے۔اور اگر یہ روش جان بوجھ کر اختیار کی گئی ہے تو اسے اپنے خالق اور حاکم و فرماں روا کے خلاف کھلی بغاوت کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔  

معقولیت کے دعویدار- تضادات کا شاہکار

     دورِ حاضر کا انسان خالق کائنات کے وجود سے منکر نہیں ہے۔سائنس کا یہ تصور کہ مادّہ غیرفانی اور کائنات کی اصل حقیقت ہے جس کے ذریعے پورا کارخانہ عالم خود بخود وجود میں آگیا اور خود بخود چل رہاہے،اب خود سائنسی علماء میں ماضی کی طرح معتبر نہیں رہا۔ مادّے کو فنا کرکے ہی جوہری توانائی حاصل کی جاتی ہے اور ایٹم بم اسی کے نتیجے میں ایجاد ہوا ہے۔ لہٰذا آج  ایسے جدید محقق بڑی تعداد میں ہیں جو کائنات کی پیدائش اور اس کے تسلسل کے پس پردہ ایک ماسٹر مائنڈ کے وجود کے پوری طرح قائل ہیں۔ امریکی ڈالر پر سرکاری عقیدے کے طور پر یہ الفاظ چھاپے جاتے ہیں کہ ’’ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں‘‘۔خدا کے وجود کو ماننے کی ایسی مثالیں بیشتر دوسرے سیکولر ملکوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔عیسائی اور یہودی حکمرانوں کی جانب سے دنیا کے خاتمے کے بارے میں بائبل کی پیشین گوئیوں کے مطابق پالیسیاں تشکیل دیے جانے کے واضح شواہد موجود ہیں۔اس کے بعد یہ کہنا کہ ہم اس خدا کی بندگی اپنی پرائیویٹ لائف میں تو کرتے ہیں لیکن جب دو افراد معاشرتی روابط استوار کریں تو خدا کی بندگی سے آزاد ہوجاتے ہیں، ایسی بات ہے جس کے حق میں کوئی عقلی دلیل موجود نہیں۔پھر سوال یہ بھی ہے کہ آخر پرائیویٹ لائف ہے کیا چیز؟

پبلک اور پرائیویٹ لائف کی مضحکہ خیز تقسیم

     حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں اس نام کی کوئی شے سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔انسان وجود ہی میں ایک مرد اور ایک عورت کے سماجی تعلق سے آتا ہے۔ماں باپ اس کی زندگی میں پہلے لمحے سے شامل ہوتے ہیں۔اس کا واسطہ پہلے دن سے ایک خاندان سے پڑتا ہے۔اس کی پرورش، تعلیم تربیت، معاشی جدوجہد، سب اجتماعیت کی مرہونِ منت ہیں جس میں محلہ، پڑوس ،برادری، اسکول، کالج، قوم، ملک، حکومت،  عدالت،سب شامل ہیں۔اب اگر ایک طرف خدا کو کائنات کا خالق و مالک ماننے کا اعلان کیا جائے اور دوسری طرف کہا جائے کہ ہمیں اس کی ضرورت نہ اپنے گھریلو اور خاندانی معاملات میں ہے نہ اپنی بستیوں اور شہر میں، نہ تعلیمی اداروں میں ہے نہ بینک اور بازار میں، نہ اسمبلیوں میں ہے نہ عدالتوں میں،نہ جنگ کے میدان میں ہے نہ امن کی کانفرنسوں میں، تو پھر سوال یہ ہے کہ ایسے خدا کی ہمیں اپنی نجی زندگی میں بھی کیا ضرورت ہے جو زندگی کے کسی مسئلے میں یا تو ہماری رہنمائی کرتا ہی نہیں یا اس کی ہدایات ہماری عقل کی رو سے ایسی ناقص ہیں کہ ہمارے لیے ان کے اندر کسی معقولیت کا تلاش کرنا محال ہے۔یہ سوچ جس قدر مضحکہ خیز ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔

خالق ہی رہنمائی کا حق رکھتا ہے  

     ان دلائل سے واضح ہے کہ سیکولرزم کا یہ بنیادی فلسفہ کہ خدا اور مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے،فی الحقیقت کسی عقلی بنیاد سے مکمل طور پر محروم ہے۔اگر خدا ہے اور انسان اسے اپنی نجی زندگی میں اپنے خالق، مالک اور حاکم کا درجہ دے رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے یہی درجہ اجتماعی زندگی میں بھی نہ دیا جائے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جس ہستی نے انسان اور اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے جس میں انسان رہتا ہے اور جس کے وسائل سے اپنی زندگی کی پہلی سے آخری سانس تک استفادہ کرتا ہے،وہی ہستی انسان کی رہنمائی کا حق بھی رکھتی ہے اور اسی کا قانون تمام انسانوں کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت بھی دے سکتا ہے کیونکہ اسے اپنے تمام بندوں کا مفاد یکساں طور پر عزیز ہے۔

انسانی قانون طبقاتی مفادات سے بالاتر نہیں ہوسکتا

     اپنے لیے قانون سازی کا حق انسان کو خود حاصل ہو تو ہمیشہ طاقت ور طبقے قانون کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اور قانون ان کے ہاتھوں میں محض دوسرے انسانوں کے استحصال کا حربہ بن کر رہ جاتا ہے۔اس کے کھلے مظاہر آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔آج کی انسانی دنیا میں جنگل کا قانون سیکولر تہذیب کے اماموں ہی نے نافذ کررکھا ہے۔عدل و انصاف کے بجائے سارے فیصلے گروہی مفادات کی خاطر اندھی بہری طاقت کے بل پر کیے جارہے ہیں۔اس صورت حال نے سیکولرزم کے اس دعوے کو بالکل غلط ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ انسانوں کے درمیان انصاف، مساوات، رواداری، تحمل اور امن و آشتی کا ضامن ہے۔

خدائی ہدایت کے لیے جدید انسان کی محتاجی واضح

     موجودہ حالات گواہی دے رہے ہیں کہ انسان انصاف،اخوت، مساوات، رواداری اور برداشت پر مبنی معاشرے کے لیے سو فی صد خدائی ہدایت کا محتاج ہے۔یہ ہدایت کہاں ہے؟ غیر مسلموں کے لیے تو یہ ایک مسئلہ ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں کے لیے جو اللہ کے آخری پیغام کے امین ہیں،ہرگز کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اس ہدایت پر اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں خود بھی پورے شرح صدر کے ساتھ عمل کریں اور دنیا کو بھی اس طرف محبت اور خیرخواہی کے ساتھ بلائیں کہ خیر امت کی حیثیت سے یہی ان کا فرض منصبی ہے اور اسی کی تکمیل کی صورت میں اللہ نے انہیں غلبے اور کامیابی کی بشارت ’’انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘ کے فرمان کی شکل میں دی ہے۔

آج بھی کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں مل سکتے ہیں

     ان کوششوں کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ نفاذاسلام کا سلسلہ کسی ایسے غیر مسلم ملک سے شروع ہوجائے جس کے بارے میں ابھی سوچا بھی نہ جاسکتا ہو۔بالکل اسی طرح جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مکے میں ان کے ہم وطنوں سے پہلے حبش کے بادشاہ اور یثرب کے اجنبیوں نے قبول کرلی۔ ’ داس کپیٹل ‘  (Das Kapital)جس ملک میں لکھی گئی، اس کی بنیاد پر انقلاب اس ملک سے ہزاروں میل دور زاروں کی سرزمین اور چیانگ کائی شیک کے وطن میں برپا ہوا۔ابولہب اور ابوجہل کی صفوں سے اگر ڈیڑھ ہزار برس پہلے لشکر اسلام کو عمر بن خطاب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہما جیسے مردانِ کار کی دستیابی ممکن تھی توآخر آج کعبے کو صنم خانوں سے پاسباں کیوں میسر نہیں آسکتے۔

     دنیا کے 57مسلم اکثریتی ملک مغرب کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نفاذِ اسلام میں ناکام ہیں۔مغرب کا سیاسی ،معاشی، تعلیمی اور سماجی نظام ہی پوری اسلامی دنیا میں رائج ہے، لیکن عین ممکن ہے کہ مغرب کی کوئی ذہنی غلامی سے آزاد قوم اسلام کے پیغام کو قبول کرکے نفاذ اسلام کی راہ پر اسی طرح پیش قدمی کرے جیسے مغربی دنیا کے نومسلم نسلی مسلمانوں کی نسبت بالعموم بہتر ثابت ہوتے ہیں۔اور پھر افکار و رجحانات کے عالمی سرچشموں میں رونما ہونے والی تبدیلی تقلید مغرب کی خوگر مسلم دنیا میں بھی تبدیلی کا سبب بنے۔  (مکمل)۔

   

(ضمیہ اول)

انقلاب بذریعہ انتخاب 

بانی تحریک کے عدم اطمینان کے مزید شواہد

       یہ تحریر جماعت اسلامی کے کئی ذمہ دار احباب اور دنیا میں فروغ اسلام کی کوششوں میں مصروف اہل فکر و دانش کی خدمت میں ان کی رائے جاننے کے لیے بھیجی گئی تو ایک صاحب نے مجھے سید وصی مظہر ندوی علیہ الرحمہ کی کتاب صریر خامہ کے پندرہ صفحات کا عکس آن لائن ارسال فرمایاجس میں ندوی صاحب نے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ فروغ کے نومبر 1989ء کے ایک شمارے میں سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی پر تحقیق کرنے والے معروف ایرانی محقق سید ولی رضا نصر کے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ ان صفحات میں دی گئی معلومات سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ1970ء کے انتخابات کے بعد بانی جماعت سلامی کی انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اور دعوت و تربیت کو جدوجہد کا اصل محور بنانے کی رائے کتنی پختہ اور مستحکم تھی اور انہوں نے فروری 1972ء کی مرکزی شوریٰ کے بعد بھی اس کی کوشش جاری رکھی جس کا ایک واضح مظاہرہ 1975ء میں ہوا لیکن جماعت کی قیادت مولانا کی رائے کے برعکس مسلسل انتخابی سیاست کے راستے ہی پر آگے بڑھتی رہی۔ ولی رضا نصر کے سوالنامے کے جواب میں ان کے نام وصی مظہر ندوی مرحوم کا تاریخ ساز اہمیت کا حامل خط ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔ولی رضا نصر کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:

’’جماعت اسلامی کے داخلی معاملات کے بارے میں ریسرچ کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جس کو مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کی کارروائیوں تک دست رس حاصل ہو۔تاہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒاور جماعت اسلامی کی قیادت کے درمیان 1975ء کے آخر میں انتخابات کے سلسلے میں جو اختلاف پیدا ہوگیا تھا، اس کے بارے میں مجھے جو معلومات حاصل ہیں ان کی روشنی میں آپ کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔لیکن سوالات کا جواب دینے سے قبل یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ انتخابات میں شمولیت یا عدم شمولیت کے بارے میں جماعت کے اندر جو اختلاف پایا جاتا تھا وہ یہ نہیں تھا کہ انتخابات میں شمولیت جائز ہے یا ناجائز بلکہ یہ تھا کہ اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے انتخابی طریق کار مفید ہے یا نقصان دہ؟...اس اصولی بات کی وضاحت کے بعد اب میں آپ کے سوالات کی طرف آتا ہوں۔

    آپ کا پہلا سوال ہے وہ کون سی تاریخ تھی جب مولانا مودودیؒ نے الیکشن کی مذمت میں تقریر فرمائی؟... یہ تاریخ 28 نومبر 1975ء ہے۔آپ کے دوسرے سوال سے پہلے میں تیسرے سوال کا جواب دوں گا۔آپ کا سوال ہے: کیا مجھے ان دلائل کا خلاصہ فراہم کرسکتے ہیں جو مولانا مودودیؓ نے انتخابی طریق کار کو مسترد فرماتے ہوئے دیے تھے؟

     میں سمجھتا ہوں کہ یہ تقریر مکمل طور پر شوریٰ کی کارروائیوں کے رجسٹر میں موجود ہوگی۔یہ تقریر قریباً 15 منٹ کی تھی۔اپنی یادداشت سے  میں نے دسمبر 1975ء میں اپنے ایک خط میں اس تقریر کا خلاصہ اس طرح درج کیا تھا:

  ’’میں (سید ابوالاعلیٰ مودودی) خود بالغ رائے دہی کا بڑا مبلغ رہا ہوں، لیکن میری رائے اب یہ ہے کہ بالغ رائے دہی ملک کی قسمت کو جاہلوں کے سپرد کردینا ہے.... تعلیم یافتہ طبقہ ہی ملک کو چلاتا ہے۔ اس طبقے کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، قدیم تعلیم یافتہ طبقہ اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ۔قدیم تعلیم یافتہ طبقے میں سے اچھے اور مخلص افراد کی ایک خاصی تعداد ہمارے ساتھ ہے، اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کی گویا اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔لہٰذااب ہمیں اپنا دعوتی کام تیزی سے کرتے جانا چاہیے تاآنکہ آمر’پلپلا‘ہوجائے اور کارفرما طبقے میں سے کوئی نمبر2 آگے بڑھ کر ملک کا نظام سنبھال لے۔”

     میرے اس خلاصے پر جناب اسلم سلیمی نے اعتراض کیا کہ یہ خلاصہ اصل تقریر کے مطابق نہیں ہے،چنانچہ ان کو جواب دیتے ہوئے میں نے 18 جولائی 1976ء کو تقریر کی زیادہ تفصیل اپنی یادداشت سے لکھی اور جناب اسلم سلیمی کو دعوت دی کہ وہ شوریٰ کی کارروائی میں درج مولانا کی تقریر اور میرے بیان کردہ خلاصے کو آمنے سامنے رکھ کر بتائیں کہ میرے خلاصے میں کہاں کہاں جوہری فرق ہے، مگر انہوں نے میری اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔لیجیے 18جولائی 1976ء کے خط میں درج خلاصہ ملاحظہ کیجیے:

’’تباہی کا اصل سبب بالغ رائے دہی ہے۔ میں خود بالغ رائے دہی کے حق میں دلائل دیتا رہا ہوں لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ سب غلط تھا۔یہ ملت کی قسمت کو جاہلوں کے حوالے کرنا ہے... رائے دہی کے لیے تعلیم وغیرہ کی کوئی کم سے کم شرط عائد کی جاسکتی ہے۔قوم کے دو طبقے ہیں، ایک تعلیم یافتہ طبقہ اور یہی دراصل کارفرما طبقہ ہے۔یہی ملک کو چلاتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ دو حصوں میں منقسم ہے، ایک دنیا دار اور ایک دین دار۔ان میں سے دین دار طبقے کی اکثریت اگرچہ ہمارے ساتھ نہیں لیکن سنجیدہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔دنیا دار طبقے کی بڑی اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور یہ طبقہ آہستہ آہستہ ہمارے بارے میں یکسو ہوتا جارہا ہے۔عوام الناس کی اکثریت کے باوجود ملک کی زمام کار اسی طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ان کے مقابلے میں عوام الناس کا یہ حال ہے کہ وہ بہت جلد دھوکے میں آجاتے ہیں اور دھوکہ دینے والے لوگ بہت موجود ہیں، لہٰذا انتخابات کے ذریعے کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔کیونکہ اولاً تو بھٹو صاحب آمریت کے لیے ہر داؤ استعمال کررہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عام لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں، اس لیے وہ ایسے انتظامات کررہے ہیں کہ اگر صد فی صد رائے بھی ان کے خلاف ہو تو بھی نتیجہ صد فی صد ان کے حق میں نکلے(مارچ 1977ء کے انتخابات میں مولانا مودودی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی)۔عوام صرف اپوزیشن کے لیے اسمبلی میں ارکان بھیجنے کی ضرورت نہیں سمجھتے،وہ صرف اس کو ووٹ دینے کی ہمت کریں گے جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ بھٹو کو Replace کرسکتا ہے، لیکن بھٹو صاحب عوام کو یقین دلادیں گے کہ تم مجھ کو ہٹا نہیں سکتے۔اس حالت میں عوام جو صرف طاقت ور کا ساتھ دیتے ہیں،وہ محض اپوزیشن کی ضرورت کے لیے کسی کو اسمبلی میں بھیجنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ان حالات میں کام کرنے کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ ہم ذہین طبقے کے اندر اپنا کام تیزی سے کرتے چلے جائیں تا آنکہ آمر ’پلپلا   ‘ ہوجائے اور کوئی نمبر2 اُس کی جگہ لے سکے۔اس وقت ذہین طبقے میں ہماری دعوت پوری طرح گھر کرچکی ہوگی۔”

     میں نے اپنے کسی خط میں مولانا مودودی کی زیر حوالہ تقریرکا ایک جملہ یہ بھی نقل کیا تھا کہ: “اس ملک میں کوئی شخص انتخاب کے ذریعے اقتدار پرنہیں آیا۔یہاں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو شخص نمبر2 کی جگہ کھڑا ہوتا ہے وہ نمبر ایک کی جگہ لے لیتا ہے۔میں اس بات کی زیادہ تشریح نہیں کروں گا، آپ خود سمجھ لیں کہ نمبر 2 سے میری مراد کیا ہے؟”

     اب میں آپ(ولی رضا نصر) کے دوسرے سوال کی طرف آتا ہوں، سوال یہ ہے کہ “آپ کے خیال میں وہ کیا اسباب تھے جن کی بناء پرمولانا مودودی نے اس قسم کی تقریر کی اور انہوں نے یہ نقطہ نظر کس طرح اختیار کرلیا؟”

     اس سوال کا جواب بہت طویل ہوگا تاہم میں ممکن حد تک اختصار کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔دراصل جب یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا، اس وقت جماعت اسلامی کے رہنما ایوب خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے،پھر لیگل فریم ورک آرڈر میں یحییٰ خان نے اسلام، پاکستان کی وحدت و سالمیت اور دیگر کئی بنیادی امور میں ان باتوں کو شامل کرلیا تھا جن پر جماعت اسلامی زور دیتی چلی آئی تھی۔علاوہ ازیں یحییٰ خان نے قطعی غیرجانبدارانہ طور پرالیکشن کرانے کا یقین دلایا تھا۔اس زمانے میں مولانا مودودی نے یوم شوکت اسلام کا اعلان کیا اور ان کی اپیل پر یوم شوکت اسلام پورے ملک میں انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا۔ان تمام اسباب کی بناء پر جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ الیکشن میں جماعت اسلامی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔اس یقین کی بناء پر مولانا مودودی نے اعلان کردیا کہ جماعت اسلامی ہر نشست پر اپنا نمائندہ کھڑا کرے گی۔پھر یحییٰ خان کی حکومت نے کم از کم مشرقی پاکستان کے اندر جماعت اسلامی کو کامیاب کرنے کے لیے سرکاری وسائل بھی کسی نہ کسی حد تک استعمال کیے۔مگر جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو مشرقی پاکستان سے جماعت اسلامی کا ایک بھی نمائندہ کامیاب نہ ہوا اور مغربی پاکستان سے جماعت کے بمشکل چار نمائندے کامیاب ہوئے جن میں سے ایک مولانا ظفر احمد انصاری محض جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔ان انتخابی نتائج نے جماعت اسلامی کی قیادت، ارکان، کارکنان اور ہمدردوں پر انتہائی برااثر ڈالا۔یہ تو جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت تھی جو اس سانحہ کو کسی نہ کسی طرح برداشت کرگئی، اور کوئی جماعت ہوتی تو اس کےرہنما اور کارکن اس شکست کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے میں اس طرح دست و گریباں ہوجاتے کہ جماعت ہی سرے سے ختم ہوجاتی۔

     اس زمانے میں جماعت کے اندر اور باہر شکست کے اسباب پر ہزاروں اصحاب فکر نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق لکھنا شروع کیا۔اخبارات و رسائل میں تو اتنے مضامین نہیں چھپے لیکن جماعت کے مرکز میں ان تحریروں کا نبار لگ گیا۔ جماعت ان حالات میں بالکل ہمت ہار نہ بیٹھی بلکہ اپنا کام جاری رکھتے ہوئے ان تمام تحریروں کاجائزہ لینے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تجویز کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی جس کا میں بھی ایک رکن تھا۔کمیٹی کے اجلاس وقتاً فوقتاً ہوتے رہے اور بالآخر فروری 1972ء میں کمیٹی نے اپنی رپورٹ مجلس عاملہ میں پیش کی، میری یادداشت کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ: 1970ء کے الیکشن میں شکست کی وجہ سے جماعت اسلامی کے اندر حسب ذیل تین بڑے سوچ کے دھارے پیدا ہوگئے ہیں:

    ۱)  ہمارے لائحہ عمل یا پروگرام میں کوئی غلطی یا خامی نہیں ہے بلکہ الیکشن میں شکست کے اسباب کچھ اور ہی ہیں، اس لیے جماعت اسلامی کو یکسوئی کے ساتھ اپنے لائحہ عمل اور پرگرام پر عمل کرتے چلے جانا چاہیے۔

    ۲)  جماعت اسلامی انتخابی طریق کار پر انحصار کرکے اور سیاست میں بہت زیادہ مشغول ہوکراپنے اصل نصب العین سے بہت دور ہٹ چکی ہے چنانچہ جماعت کا موجودہ لائحہ عمل اور پروگرام یکسر تبدیل کردینے کے لائق ہے اور جماعت کے لیے مناسب ہوگا کہ وہ اپنے آزادی سے قبل کے طریقہ کار کی طرف لوٹ جائے اور اپنی ساری توجہ دعوت، تنظیم، تربیت اور اصلاح معاشرہ پر صرف کرے۔

    ۳)  جماعت اسلامی میں سوچ کا تیسرا دھارا اُن لوگوں کا تھا جو تسلیم کرتے تھے کہ جماعت کا موجودہ لائحہ عمل اور پروگرام غلط ہے لیکن اگرجماعت اپنی اس غلطی کا علانیہ اعتراف کرکے اپنے پرانے طریقہ کار کی طرف لوٹ جائے تواس سے دو بڑے نقصانات ہوں گے:

     ایک یہ کہ جماعت کا اپنے اوپر سے اعتماد اٹھ جائے گا جس کے بعد وہ کسی کام کی اہل نہ رہے گی۔دوسرے یہ کہ انتخابی مہمات کی وجہ سے جو لاکھوں افراد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے ہیں وہ مایوس اور بددل ہوجائیں گے اور مایوسی کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ غیر اسلامی نظریات کی طرف مائل ہوجائیں،اس لیے جماعت اسلامی کو اپنے لائحہ عمل میں غیر محسوس تبدیلی کرنی چاہیے تاکہ جماعت بے اعتمادی کا شکار نہ ہو اور لاکھوں عوام جماعت سے اپنی وابستگی کسی نہ کسی صورت میں قائم رکھ سکیں۔

     کمیٹی کی رپورٹ پر مجلس عاملہ میں بہت مفصل بحث ہوئی اور اس کی روشنی میں قرارداد مرتب کرنے کے لیے جناب نعیم صدیقی اور راقم الحروف پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی گئی۔مجلس عاملہ کے سامنے جو قرارداد مرتب ہونے کے بعد پیش ہوئی اس میں سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مسلمانان پاکستان کو ان کا ایک بازو کٹ جانے کی صورت میں جو سزا ملی ہے،وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑنے کی سزا ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ قوم اللہ کی طرف رجوع ہو،اپنی کوتاہیوں سے تائب ہو اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کرے۔ مجلس عاملہ نے نہ صرف یہ قرارداد منظور کی بلکہ آئندہ کام کے لیے طے پایا کہ:

     ۰  اس قرار داد کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے.

    ۰  جماعت کے تمام لکھنے اور تقریر کرنے والے افراد اسی قرارداد کو اپنی تحریر و تقریر کا محور بنائیں.       

    ۰  جماعت سیاسی مہمات میں شرکت نہ کرے اور ہر مسئلے پر صرف قراردادوں کی صورت میں اپنی رائے ظاہر کرنے پر اکتفا کرے.

    ۰  حکومت سے براہ راست تصادم سے بچتے ہوئے دعوتی اور تنظیمی کاموں پر توجہ دے.

............   

      طے پایا کہ مجلس عاملہ کی اس قرارداد کو مولانا مودودی خودمجلس شوریٰ میں پیش کرکے اس کی وضاحت فرمائیں گے اور شوریٰ سے اس کی توثیق کرائیں گے۔چنانچہ مولانا نے دوسرے دن اس قرارداد کو شوریٰ کے اجلاس میں پیش کیا اور اس کی وضاحت میں ایک مختصر تقریر فرمائی۔مجلس شوریٰ نے مولانا مودودی پر کلی اعتماد کرتے ہوئے اس قرارداد کی توثیق کردی لیکن شوریٰ میں بحث و مباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے ارکان شوریٰ پر نئی پالیسی اور قرارداد کے مضمرات واضح نہ ہو سکے بالخصوص محترم میاں طفیل محمد پر جو اس وقت قائم مقام امیر کی حیثیت سے کام کررہے تھے اور کسی وجہ سے مجلس عاملہ کی بحثوں میں شریک نہ تھے، انہوں نے پالیسی کو سمجھا ،نہ اس قرارداد کو حتیٰ کہ دوسرے ہی دن کے اجلاس میں انہوں نے شوریٰ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ملک کا نیا دستور بن رہا ہے،اس لیے شوریٰ وہ کم از کم نکات طے کردے جن کو ہم دستور میں شامل کرانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ جماعت ان نکات کے لیے مہم شروع کردے۔چنانچہ مولانامودودی اپنا سرپکڑ کربیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہم نے کل یہی تو طے کیا ہے کہ ہم کسی قسم کی مہم نہ چلائیں گے، دستور ساز اسمبلی میں اسٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعے جو اسلامی دفعات شامل کی جاسکتی ہوں، ان کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے،سردست کسی عوامی مہم کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن جماعت اسلامی پر قابو یافتہ افراد کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہ بھائی۔چنانچہ انہوں نے اولاً تو اس قرارداد کو تین ماہ تک چھپنے ہی نہ دیا اور اس عرصے میں بتدریج حکومت سے محاذ آرائی شروع کردی۔تین اپریل 1972ء کو میں نے اس صورت حال پر احتجاج کرتے ہوئے محترم میاں طفیل محمد کے نام اپنے خط میں لکھا تھا:

’’اپنی بے بضاعتی اور کم عقلی کو جاننے کے باوجود مجھے یہ بات نہایت دکھ اور تکلیف کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ اس وقت جماعت کے جو رہنما ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کررہے ہیں، انہوں نے ان فیصلوں کو قطعاً نظر انداز کردیا ہے(جو شوریٰ کے اجلاس میں کیے گئے تھے)۔اس کے برخلاف ان کی تقاریر اور بیانات کا سارا رخ حکومت کی مخالفت اور دستوری مہم کے آغاز کا پتہ دیتا ہے۔خود آں جناب کی جو تقریر تازہ ”ایشیا“ میں شائع ہوئی ہے،اس پوری تقریرمیں عوام کے لیے کوئی دعوتِ فکر ہے نہ زندگی کی روش میں کسی تبدیلی کا مطالبہ ہے،نہ کارکنوں کی اصلاح و تربیت کا کوئی پہلو ہے،بلکہ ساری کی ساری تقریر حکومت کی مخالفت اور دستور اسلامی کی ترتیب کے دوگانہ مقاصد کے گرد گھوم رہی ہے۔”

  “کسی قائم شدہ حکومت کے خلاف مہم چلانے کے دو ہی مقاصد ہوسکتے ہیں۔اول: پارلیمنٹ میں اس کی اکثریت کو شکست دے کرکوئی اور حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کرنا۔دوم:نئے انتخابات کے لیے مجبور کرنا اور نئے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔لیکن موجودہ حالات میں جماعت اسلامی ان دونوں باتوں میں سے کسی بات کو اپنا مقصود نہیں بناسکتی۔مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر جماعت اسلامی کے لیے مناسب طریقہ یہی تھا اور یہی ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے وہ حکومت کے اقدامات کے بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کرے، غلط اقدامات کی نشان دہی کرے اور صحیح اقدامات کا مشورہ دے، لیکن ان امور کو بنائے مہم نہ بنائے بلکہ اصل دعوت اسلامی،قوم کے اخلاقی زوال،انفرادی زندگیوں میں تبدیلی کے مطالبے، اور دعوت الی اللہ اور رجوع الی اللہ کو مہم کی بنیاد بنائے۔”

 آخر میں ایسی تنقید کو قابل برداشت بنانے کے لیے میں نے لکھا تھا:

’’خلفاء راشدین کے جو واقعات آپ بزرگوں کی زبانی سنے ہیں،اس کے باعث میں یہ حوصلہ کررہا ہوں کہ آپ ’ایشیا‘ میں شائع شدہ اپنی تقریر کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں،اور بتائیں کہ اس کے اندر جماعت کے لائحہ عمل کے پہلے تین اجزاء کے لیے کتنا مواد ہے، اور جماعت اسلامی کی پالیسی اور قرارداد کی وضاحت کے لیے اس میں کتنے حصے کو وقف کیا گیا ہے۔میں ایک بار پھر اپنی گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن رکنیت شوریٰ کا حلف مجھے اپنی بے لاگ رائے کے اظہار پر مجبور کرتا ہے۔”

     محترم میاں طفیل محمد نے اس خط کا جواب دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی چنانچہ میں نے 9 جون 1972ء کو ایک اور مفصل خط لکھا، اس کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

    "میری ناچیز رائے میں جماعت اس موقف سے برابر دور سے دور تر ہوتی جارہی ہے جو مرکزی مجلس شوریٰ نے فروری 1972ء میں طے کیا تھا اور اپریل 1972ء میں مجلس عاملہ نے جسے برقرار رکھا تھا۔مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ آں جناب کی رہنمائی میں ہورہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشورے کے بعد جو قدم اٹھایا جاتا ہے،اسے اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوتی ہے اور اس سے خیروبرکت کی توقع کی جاسکتی ہے لیکن جو اقدامات مشوروں کے بغیر یا مشوروں کے علی الرغم ہوتے ہیں،وہ اللہ کی تائید سے محروم ہونے کے باعث بالعموم نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔”

     “میں اپنے مدعا کو واضح کرنے کے لیے عرض کروں گا کہ جماعت کی اس پالیسی کا مقصد جو فروری 1972ء میں طے کی گئی تھی،یہ تھا کہ جماعت کی داعیانہ حیثیت کو ابھارا جائے اور سیاسی جماعت کی اس حیثیت کو دبایا جائے جوگزشتہ حالات کے باعث بجاطور پر ابھر کر سامنے آگئی تھی۔اس فیصلے کی تنفیذ بہت توجہ اور یکسوئی کی طالب تھی۔ہر تحریر و تقریر اورچھوٹا بڑا قدم اس فیصلے کے معیار پر جانچا جانا چاہیے تھا اور جماعت کے مزاج کو کمال حکمت کے ساتھ اس کی داعیانہ حیثیت کی طرف واپس لانا تھا۔لیکن بدقسمتی سے آپ پے درپے ایسے اقدامات کرتے چلے جارہے ہیں،جن کے باعث جماعت کی یہ طے شدہ پالیسی عملاً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف آپ کا رویہ ہے۔اس رویہ کو آپ حسب ذیل حقائق کی روشنی میں جانچیں:

ا)... آپ حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے اور لب و لہجہ میں درشتی نمایاں نظر آتی ہے۔

ب)... آپ کی یہ تنقید داعیانہ رنگ کے بجائے حریف سیاسی جماعت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔

ج)... بیشتر بلکہ تمام تر تنقیدیں ایک پاکستانی یا حد سے حد ایک مسلم قوم پرست کے نقطہ نظر کی غماز ہوتی ہیں۔

د)... ان تنقیدوں سے مترشح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے زوال سے جو سیاسی خلا رونما ہونے والا ہے، اسے جماعت  پر کرنے کی تیاری کررہی ہے، حالانکہ یہ انتہائی غیر حکیمانہ خیال ہے کیونکہ:

....اولاً موجودہ معاشرہ دینی فکر اور اخلاق و عمل کے لحاظ سے اقامت دین کے نصب العین سے اتنا دور ہوچکا ہے کہ اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خالص اسلامی نظام کی علم بردار کسی جماعت کی قیادت مستقبل قریب میں منتخب کرے گا،انتہائی خوش فہمی ہے... اور ثانیاً1970ء کے انتخابات کے تجربے کا جو نچوڑ امیر جماعت نے مرکزی مجلس شوریٰ اور عاملہ کی بحث کی روشنی میں اپنی افتتاحی تقریر میں بیان کیا تھا،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:   وہ عوام جن کی اسلام کے ساتھ جذباتی وابستگی سے فائدہ اٹھا کرصالح قیادت کو بروئے کار لانے کی توقع کی جاسکتی تھی،مختلف اسباب کی بناء پر اب دو گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔اول مذہبی عوام، دوم معاشی عوام، اور یہ دونوں گروہ اب جماعت کی طرف نہیں آسکتے۔

      مولانا کے اس تجزیے کی روشنی میں واضح ہے کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش رہنے کا نتیجہ وہی ہوگا جو ایوب خان کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہنے کا نکل چکا ہے یعنی دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔مذکورہ بالا حالت میں صحیح طریقہ کار وہی تھا جو مرکزی مجلس شوریٰ نے طے کیا تھا کہ سیاسی حریف کی حیثیت کو حتی الوسع ہلکا لیا جائے اور داعیانہ رنگ اختیار کرکے ملک کے بااثر طبقات طلبہ، اساتذہ، وکلا، مزدور،کسان، کارخانے دار،زمیندار وغیرہ میں منظم دعوتی کام کے ذریعے یا کسی دوسرے مناسب حال وسیلے سے اسلامی کی ضرورت کا احساس پروان چڑھایا جائے۔

(مولانا وصی مظہر ندوی کے نقطہ نظر پر میاں طفیل محمد کی وضاحت سلیم منصور خالد کی مرتب کردہ کتاب ’’مشاہدات‘‘کے صفحہ 326 اور 327پر  موجود ہے۔انتخابی سیاست پر مولانا مودودیؒ کے موقف میں تبدیلی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں میاں طفیل محمد نے مولانا وصی مظہر ندویؒ کے نقطہ نظر کی توثیق نہیں کی لیکن جو حقائق پچھلی سطور میں پیش کیے گئے ہیں وہ میاں طفیل محمد کے موقف کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط نظر آتے ہیں)۔

۔۔۔۔۔۔۔

(ضمیمہ دوم)

 قرارداد مرکزی مجلس شوری

(17فروری 1972)

      سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس مولانا مودودیؒ کے زیر صدارت لاہور میں منعقد ہواجہاں 17 فروری 1972ء کو یہ قرارداد منظور کی گئی۔

.....................

     جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب اور اس سے پیدا شدہ مسائل کا جائزہ لینے کے بعد اس یقین کااظہار کرتی ہے کہ ہم سب بحیثیت قوم جس ذلت اور تباہی سے دوچار ہوئے ہیں اور جن خطرات میں گھر گئے ہیں،وہ دراصل ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ مسلسل بے وفائی، منافقت اور انحراف کی وجہ سے ہم پر نازل ہوا ہے۔

     اب وقت ہے کہ ملت کا ایک ایک فرد اورپوری قوم بحیثیت مجموعی خلوص اور ایمان داری کے ساتھ اپنے کردار کا بے لا گ احتساب کرے۔خرابی کے حقیقی اسباب کو سمجھے، ماضی کی غلطیوں پر توجہ اور استغفار کرے اور مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنے کی فکر کرے جن پر ہماری ملّی زندگی کی عمارت قائم ہوئی ہے۔

      ہمیں جس ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے،اس کی وجوہ میں بلاشبہ قیادت کی مجرمانہ کوتاہیوں اور غلطیوں ہی کا نہیں،سرخ و سفید اور برہمنی سامراج کی بین الاقوامی سازشوں اور ان کے نہایت شرمناک جارحانہ کردارکا بہت بڑا حصہ ہے۔لیکن اصلاً یہ تباہی نتیجہ ہے ان تباہ کن پالیسیوں اور پروگراموں کاجن پر یہاں گزشتہ 42 سال (1971-1947) سے عمل ہوتا رہاہے، اور بار بار کے انتباہ کے باوجود جن کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ یہ ناکامی ہے اس ظالمانہ اور قول و فعل میں مطابقت سے عاری اس قیادت کی جسے تحریک پاکستان کے واضح مقاصد اور خدا اور خلق سے کیے گئے وعدوں کے برعکس یہاں غلبہ حاصل رہا۔یہاں تک کہ اس کی مسلسل غلط کاریوں نے پوری ملت کو اس عذاب ِالٰہی میں مبتلا کردیا۔

    پاکستان اس وعدے اور اعلان کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ اس میں زندگی کا سارا نقشہ لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ کی انقلابی بنیاد پر استوارکیا جائے گا اور اس سرزمین کو اسلامی نظام حیات کی عملی تجربہ گاہ بنادیا جائے گا۔لیکن قیام پاکستان کے بعد نعرہ تو  اسلام ہی کا لگایا جاتا رہا مگر عملاً:

    O   عہدوں اور اقتدار کی جنگ، ذاتی اغراض و مفادات کی کشمکش،فسق و فجور کے فروغ،اور انفرادی و اجتماعی ہر شعبہ حیات میں ظلم و ناانصافی اور دین و اخلاق سے بے پروائی کو زندگی کا محور بنادیا گیا۔

    O  زندگی کی ہر سطح پر منافقت اور دورنگی کا دور دورہ ہوگیا۔شریعت اسلامی کے نفاذ کی ہر راہ کو مسدود کرنے کی کوشش کی گئی۔

     O  معیشت و معاشرت، قانون و سیاست، تعلیم و تربیت اور تمدن و ثقافت کے ہر میدان میں خدا سے کھلی بغاوت کی روش اختیار کی گئی۔

     اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور اسلامی قدروں کی ترویج اور پیروی کے بجائے یہاں شراب، جوئے، زنا، فواحش و بے حیائی، اختلاط مردوزن، لادین تہذیب اور غیراسلامی نظریات کو فروغ دیا گیا۔

     یہی وہ جرائم ہیں جنہوں نے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں وہ بگاڑ پیدا کیا جس نے چوتھائی صدی کے اندر مسلمانوں کی بے شمار قربانیوں سے بننے والے اس ملک  کا شیرازہ منتشر کردیا۔جس قوم کے مختلف گروہوں نے حقیقی بھائیوں کی طرح متحد ہوکر یہ ملک حاصل کیا تھا،وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے اور ایک دوسرے کی جان اور مال اور آبرو کے دشمن بن گئے۔حد یہ ہے کہ پانچ چھ کروڑ مسلمان پھر اسی ہندو سامراج کے پنجہ استبداد میں گرفتار ہوگئے جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پاکستان کی جنگ لڑی تھی اور پاکستان کا جو حصہ بچا رہ گیا ہے اس پر بھی روز افزوں انتشار، خانہ جنگی، نسلی و لسانی اور علاقائی عصبیتوں اور فسطائیت کے سیاہ بادل چھاتے چلے جارہے ہیں۔

     پاکستان کے قیام کے بعد جو نظام تعلیم یہاں رائج رکھا گیا اس نے نسلوں کو پاکستان کے نظریے، اس کے مقاصد، اس کی ضرورت، تاریخ اور روایات اور اس کے عالم گیر مشن سے نہ صرف یہ کہ نا آشنا رکھا بلکہ اس درجہ بے گانہ کردیا کہ آخرکار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نام لیوا اس قوم کی نوجوان نسل میں کثیر تعداد میں جاہلیت کے ایسے علم بردار پیدا ہوگئے جو اسلام اور اسلامی قدروں کے مقابلے میں ان ہی ملحدانہ نظریات اور اطوار زندگی کی خاطرلڑنے مرنے کے لیے تیار ہوگئے جن سے بچنے کے لیے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی جدوجہد کی گئی تھی۔

     جو ملک سراسر جمہور کی طاقت سے اور جمہوری طریقے سے وجود میں آیا تھا،اس میں سیاست و حکمرانی کا وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو جمہوریت کی نفی تھا۔صاف اور سیدھے جمہوری طریقے سے حکومت چلانے کے بجائے یہاں محلاتی سازشوں، فوجی انقلاب اور آمریت کا راستہ اختیار کیا گیا۔مفاد پرست سیاسی عناصر، خود غرض سول بیوروکریسی اور طالع آزما فوجی افسروں کا جتھا نتائج سے بے پروا ہوکر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا۔اس چیز نے صحت مند سیاسی عمل اور ارتقاکے دروازے بالکل بند کردیے اور ان سیاسی و معاشی محرومیوں اور شدید بے اعتمادیوں کو جنم دیا جنہوں نے ملک کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کردیا۔اس صورت حال سے پیدا ہونے والے خطرات کو اس مجرمانہ تغافل نے خوف ناک حد تک بڑھا دیا ہے، جو ملک کے مختلف حصوں اور ملت کے مختلف طبقات کے درمیان حق و انصاف سے کام لینے میں برتا گیا۔

     یہاں جو بھی مسند اقتدار پر آیا اس نے غربت وا فلا س اور ظلم و ستم کے شکار عوام کے مسائل کے حل کی فکر کرنے کے بجائے اپنے مفاد کی پوجا کی۔اسی چیز نے نسلی اور علاقائی عصبیت کو ابھرنے کا موقع دیا اور پھر ان ہی تعصبات کو بیرونی طاقتوں اور ہمارے خارجی دشمنوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔

    تاریخ کے اس نازک مرحلے پر جماعت اسلامی پوری قوم اور اس کے ہر سطح کے ارباب اختیار کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ ملک کے ایک بڑے حصے کی علیحدگی، اس عبرت ناک شکست اور ملک گیر انتشار کی ا صل وجوہ کا جائزہ لیں، اور ان کے مہیب نتائج کے آئینے میں اس حقیقت کو اب بچشم سر دیکھ لیں کہ منافقت کی روش اور اللہ کے دین سے عملی بغاوت نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو کس حشر سے دوچار کیا ہے۔یہ سب کچھ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اب بھی اگراصلاح احوال اور رجوع الی اللہ کی روش اختیار نہ کی گئی تو سخت اندیشہ ہے کہ جو کچھ بچا رہ گیا ہے، اس کا انجام اس سے بھی زیادہ اندوہناک ہو۔

     جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ انتہائی دل سوزی کے ساتھ قوم اور اس کے کارفرما حضرات کو اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے کہ:

    ہمارے لیے ہمیشہ کی طرح فلاح و سعادت کا اب بھی ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم سچے مسلمانوں کی طرح خلوص کے ساتھ اسلام پر عمل پیرا ہوں۔قول و فعل کا تضاد ترک کریں۔اپنی پوری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی تصور حیات پر استوار کریں۔اپنے تعلیمی، معاشی، تمدنی، قانونی اور سیاسی نظام کو قرآن و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالیں، اور دنیا کے سامنے اُس مثالی نظام زندگی اور عدل و انصاف کا عملی نمونہ پیش کریں جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

    جماعت اسلامی کے نزدیک ملک کا سیاسی و انتظامی نظام دیانت داری کے ساتھ صاف ستھری جمہوریت کے اصولوں پر چلایا جانا چاہیے۔مارشل لا، آمریت، فسطائی طرز سیاست اور جبر و استبداد کے طریقے مزید بگاڑ اور تباہی کا باعث تو بن سکتے ہیں مگر خیر و فلاح کی کوئی راہ ان کے ذریعے سے نہیں نکالی جاسکتی۔سیاسی زندگی کو دلیل، شائستگی، آزادی اظہار، رواداری، اور حقیقی رائے عامہ کے مطابق قیادت کی پُر امن تبدیلی کے اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے کیونکہ قومی زندگی کو ان ہی اصولوں پر قائم کرکے ملک و ملت کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔

     جماعت اسلامی قوم اور حکومت دونوں کو مغرب کی اخلاق سوز ثقافت،شراب و زنا، جوئے اور دوسرے فواحش و منکرات کی اُن تباہ کاریوں کی جانب متوجہ کرتی ہے جو اِن برائیوں میں مبتلا حکمرانوں کے ہاتھوں ملک و ملت پر وارد ہوئی ہیں، اور حکومت و عوام دونوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ ان برائیوں کا خاتمہ کریں، کیونکہ ان کی بقا و استحکام کا انحصار اِن سماجی برائیوں کے استیصال پر ہے۔وہ قوم جس کی اساس اور بنیاد ہی خدا کی اطاعت اور اس سے وفاداری پر قائم ہو، وہ اُس کی نافرمانی کی راہ اختیار کرکے کبھی فلاح و سعادت سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔

    جماعت اسلامی کے نزدیک تمام باشندگان ملک کو ملت ِواحدہ میں ضم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام افراد، طبقوں، گروہوں اور علاقوں کے درمیان سیاسی اور معاشی عدل و انصاف کے اصولوں کو عملاً کارفرما کیا جائے۔اس لیے وہ قوم کو دعوت دیتی ہے کہ معاشی اور سیاسی تمام مسائل کے حل کے لیے اسلامی عدل و انصاف پر ملک کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔اس بارے میں کوتاہی اور انحراف کے برے نتائج جس طرح ماضی میں تباہ کن ثابت ہوئے ہیں، مستقبل میں بھی ان سے مختلف نتائج کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔

     جماعت اسلامی کے نزدیک ایک صحت مند اور مبنی برحق و انصاف نظام کی تعمیرکے لیے ضروری ہے کہ قومی زندگی کی ہر سطح پر ایک دیانت دار، اصول پرست اور اسلام کی وفادار قیادت ابھرے جو صحیح اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام کی اہل اور سچے دل سے خواہاں ہو۔

     دورنگی قیادت کے کارنامے ہم بار بار دیکھ چکے ہیں۔اس لیے ہم پوری دردمندی کے ساتھ ارباب قیادت کو بھی قول وفعل میں یک رنگی پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں، اور عوام کو بھی احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اسلام، اسلام کے نعرے بلند کرتے ہوئے، اسلام کے صریح احکام کی عَلانیہ خلاف ورزی کرنے کی جو روایت ہمارے ہاں عام ہوگئی ہے،اُس کو بدلنے کی فکر کریں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والی حرکت ہے۔ جماعت اسلامی عام برادرانِ ملت سے پُر زور اپیل کرتی ہے کہ قومی آزمائش کی اس کٹھن گھڑی میں ہمہ گیر اصلاح و تعمیر کے ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھیں اور اپنی قومی عزت اور وقار کو بحال کرنے، اور اپنے خدا کی رضا کے حصول کے لیے ملک و ملت کو اُن کی اصل منزل سے ہم کنار کرنے کی جدوجہد میں شریک ہوں۔ (ہفت روزہ ایشیا لاہور27 فروری 1972ء)۔

(ضمیمہ سوم)

مغربی طریقِ انتخاب

 سید مودودیؒ کی نظر میں

    اکتوبر 1950ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں سید مودودیؒ نے مغربی جمہوریت میں رائج طریقہ انتخاب پر ایک نہایت پُرزور اور مدلل تنقیدی تجزیہ تحریر فرمایا تھا۔صوبہ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے شرکت کے فیصلے کے بعد ’’جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد، اس کے مقاصد اور طریق کار‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے اس تجزیے میں سید علیہ الرحمہ نے الیکشن میں انفرادی اور اجتماعی امیدواری کو قرآن و سنت کی اُن تعلیمات سے صریحاً متصادم قرار دیا تھا جن کی رو سے منصب اور اقتدار کی خواہش رکھنا جائز نہیں۔اس تحریر میں ایک مختلف انتخابی طریق کار طے کیا گیا تھا جس میں جماعت کی جانب سے عوام کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں اپنی نمائندگی کے لیے ایسے دیانت دار اور اہل افراد کو تلاش کرنے کی تربیت دی جانی تھی جو خود منصب کے خواہش مند نہ ہوں خواہ ان افراد کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔ اگرچہ جماعت اسلامی بعد میں اس طریق کار پر عمل جاری نہ رکھ سکی تاہم مروجہ طریق انتخاب پر یہ تنقید آج بھی اتنی ہی برجستہ اور درست ہے جتنی دَم ِ تحریر تھی۔

     اس کے بیس سال بعد 1970ء میں سید مودودیؒ ملک میں پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست کے ذرائع کو اسلامی نظام کے قیام کے لیے استعمال کرنے کی خاطر جماعت اسلامی نے انتخابات میں شرکت کے جس راستے کو آزمائشی طور پر اپنایا تھا مروجہ انتخابی طریق کار اس کے لیے مطلوب اہل اور دیانت دار قیادت کو برسراقتدار لانے کا ذریعہ کبھی نہیں بن سکتا اور معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح کے بغیر یہ خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اپنے اس نتیجہ فکر کا اظہار انہوں نے فروری 1972ء میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں کیا اور شوریٰ نے ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے 17 فروری کو وہ قرارداد منظور کی جس میں انتخابی سیاست سے بالاتر ہوکر معاشرے کی ہمہ گیر اصلاح اور اسے خدا ترسی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں پر استوار کرنے کی جدوجہد کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کا پس منظر اور متن سطور بالا میں پیش کیا جاچکاہے۔ اب ذیل میں مغربی طریق انتخاب پر سید علیہ الرحمہ کی وہ تنقید ملاحظہ فرمائیے جس کے کسی بھی جزو سے شاید کسی بھی معقول شخص کے لیے آج بھی اختلاف ممکن نہ ہو لیکن ملک کے تمام دینی مکاتب فکر آج اسی طریق انتخاب کے تحت سیاست میں سرگرم ہیں حالانکہ ہمارے ہاں مغرب کا یہ طریق انتخاب ہماری اجتماعی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے کہیں زیادہ خرابیوں کے ساتھ عمل میں لایا جارہا ہے۔ اب اس تحریر کے ہمارے موضوع سے متعلق حصے ملاحظہ فرمائیے:

  جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد   مقاصد اورطریق کار   

سید ابوالاعلیٰ مودودی

(ماہنامہ ترجمان القرآن، اکتوبر 1950ء)

     جماعت اسلامی نے پنجاب کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں تین متعین مقصد اس کے پیش نظر ہیں:

     اول یہ کہ انتخاب کے غلط طریقوں کی اصلاح کی جائے اور ان صحیح طریقوں کا عملاً مظاہرہ کیا جائے جو اسلام کے احکام اور اس کی اخلاقی روح کے مطابق ہیں۔

     دوم یہ کہ بحالت موجودہ ہماری سوسائٹی میں سیرت اور قابلیت کے لحاظ سے جو زیادہ سے زیادہ صالح افراد مل سکتے ہوں،ان کو صوبے کا آئندہ نظم و نسق چلانے کے لیے منتخب کرایا جائے۔

     سوم یہ کہ1953ء کے غیر جمہوری دستور میں صوبوں کی حکومتوں کو جو محدود اختیارات حاصل ہیں،ان کو استعمال کرکے کم از کم اس صوبے میں نظام اسلامی کی تعمیر، اجتماعی انصاف کے قیام اور نظم و نسق کی اصلاح کے ایک پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا جائے۔

     یہ تین مقصد نگاہ میں رکھ کر ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح کرنا چاہتے ہیں، اس کی مختصر تشریح اس مضمون میں کروں گا۔

طریقہ انتخاب کی اصلاح

     انتخاب کے جو طریقے ہم نے اپنے سابق مغربی آقاؤں اور استادوں سے سیکھے ہیں،ان میں فتنے کی جڑ امیدواری ہے۔امیدواری اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے  حکومت کی ہوس، طاقت کی حرص اور اقتدار کے لالچ کا دوسرا نام ہے۔یہ چیز بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ جو شخص یا گروہ امیدوار بن کر اٹھ رہا ہے،وہ حکومت کی بھاری ذمے داریوں کے بجائے اس کے فوائد و منافع پر نظر رکھتا ہے۔ورنہ ظاہر ہے کہ جس کی نظر رکھتا ہو اور جسے احساس ہو کہ خدا اور خلق کے سامنے اس کی کیسی سخت جواب دہی اس کو کرنی ہوگی،وہ اس بارِعظیم کو خود اٹھانے کاخواہش مند نہیں ہوسکتا، اِلّا یہ کہ یہ بوجھ اس پر ڈال دیا جائے۔لہٰذا امیدواری فی نفسہٖ ایک ایسی علامت ہے جس سے پتہ چل جاتا ہے کہ جس شخص میں یہ چیز پائی جاتی ہے،اس کا نفس احساس ذمہ داری سے خالی اور حرص و طمع سے لبریز ہے۔

     موجودہ زمانے میں اس گھناؤنی حقیقت کو بہت سے خوش نما الفاظ کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہم ملک و قوم کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ہم اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ اگر ہم نہ اٹھیں گے توبرے اور نالائق لوگ منتخب ہوجائیں گے۔ہم اصلاح و ترقی کا ایک پروگرام رکھتے ہیں اور قوم سے اس لیے ووٹ مانگتے ہیں کہ اگر وہ اسے پسند کرے تو اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں منتخب کرلے۔اور قوم آخر خود کس طرح کام کے آدمی چھانٹ سکتی ہے جب کہ کام کا ارادہ اور خواہش رکھنے والے لوگ خود آگے بڑھ کراپنے آپ کو اور اپنے اپنے پروگراموں کو اس کے سامنے پیش نہ کریں۔ایسی ہی اور بہت سی دوسری باتیں یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں کہ امیدواری محض لالچ ہی کی بنا پر نہیں بلکہ بے غرضانہ اور مخلصانہ خدمت کی نیت سے بھی ہوسکتی ہے۔لیکن تمام حیلوں اور دلیلوں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ جس خدمت کے ساتھ خطرات، نقصانات اور تکالیف وابستہ ہوں اس کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا تو بلاشبہ ایک سچے جذبہ خدمت کی علامت ہوسکتا ہے، مگر جہاں خدمت اور دولت و حکومت باہم ملی جلی ہوں وہاں اپنے آپ کو خود پیش کرنے میں اخلاص کے امکانات بہت کم اورحرص و طمع کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔یہ بات محض ایک عقلی قیاس کی حد تک ہی نہیں بلکہ اب تک کے تجربات نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ جو لوگ جذبہ خدمت کے دعوے لے کر اٹھے ان میں بہت ہی کم ایسے نکلے جنہوں نے برسراقتدار آکربے غرضانہ خدمت انجام دی ہو، ورنہ اکثر و بیشتر نے خدمت کے بجائے حکومت کے فوائد سمیٹنے کی کوشش کی۔اس چیز کی شکایت صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں پائی جاتی بلکہ امریکہ اور فرانس جیسے جمہوری ملکوں میں بھی یہ شکایت عام ہے۔

انتخابی جدوجہد کے ناپاک طریقے:

   امیدواری کی ان ذاتی خرابیوں پر مزید اضافہ ان طریقوں سے ہوجاتا ہے جوامیدوار اشخاص اور گروہ اپنی کامیابی لیے اختیار کرتے ہیں۔جھوٹے پروپیگنڈے سے رائے عام کو دھوکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔روپے کے زور سے ووٹ خریدے جاتے ہیں۔نسلوں اور برادریوں کے نام سے ووٹ مانگ کر امت میں تفرقے پیدا کیے جاتے ہیں۔مختلف طبقوں اور پیشہ ور گروہوں کی خودغرضیوں سے اپیل کرکے ان کو ایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما کیا جاتا ہے۔ اصول اور پروگرام پیش کرنے کے بجائے کہیں جاہلانہ عصبیتیں ابھار کر اور کہیں ناجائز فائدوں کی توقعات دلا کر رائے عام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔

 اس طرح ایک امیدواری اپنی غرض کے لیے ہزارفتنے اٹھا کر رہتی ہے جن کی وجہ سے قومی اخلاق، تمدن، معاشرت اورسیاست کو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں۔ پھر سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کی انتخابی جدوجہد میں قوم کا صالح عنصر تو اس کے گھناؤنے پن کی وجہ سے شریک ہی نہیں ہوتا۔ رہے غیر صالح عناصر توان میں سے بھی وہ سب لوگ ناکام رہ جاتے ہیں جو نسبتاً کم جھوٹے، کم زردار اور کم فتنہ پرداز ہوتے ہیں، اور قوم کو سنبھالنے کے لیے وہ بدترین افراد چھانٹ لیے جاتے ہیں جو بداخلاقی کی اس جنگ میں تمام بداخلاقوں کو شکست دے دیتے ہیں۔

پارٹی سسٹم کی برائیاں:

    یہ خرابیاں محض شخصی امیدواری کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔جن لوگوں کو سیاسی پارٹیاں اپنے ٹکٹ پر کھڑا کرتی ہیں،اُن کی امیدواری میں بھی یہی سب خرابیاں پائی جاتی ہیں۔سیاسی پارٹیوں کا ظاہری طریق کار بڑا خوش نما ہوتا ہے جسے دیکھ کر لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتی ہیں، اپنے اصولوں اور پروگرام کی خاطر کرتی ہیں لیکن درحقیقت ان پارٹیوں میں کبھی شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی آدمی کو اس کی طلب اورخواہش کے بغیرخود پارٹی کی طرف سے محض یہ دیکھ کر ٹکٹ دے دیا جائے کہ وہ اعلیٰ قابلیت رکھتا ہے،قابل اعتماد سیرت کا مالک ہے اور پارٹی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے موزوں آدمی ہے۔پارٹی کے ٹکٹ بالعموم مال دار اور بااثر لوگوں کو دیے جاتے ہیں جو اس غرض کے لیے مدتوں سازشیں اور جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں، اور جن سے پارٹی کے کسی مضبوط دھڑے کو یہ امید ہوتی ہے کہ وہ اس کی معاشی اور سیاسی اغراض کی خدمت کریں گے۔یہ عیب صرف ہمارے ہی ملک کے پارٹی سسٹم میں نہیں ہے بلکہ ان تمام ملکوں میں کم و بیش پایا جاتا ہے جہاں جمہوریت میں پارٹی سسٹم کارفرما ہے۔کہیں اس کے عیوب سطح پر نمایاں ہیں اور کہیں گہرائی میں پوشیدہ۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پارٹی ٹکٹ میں وہ تمام برائیاں موجود ہوتی ہیں جو شخصی امیدواری میں پائی جاتی ہیں۔فرق اگر کچھ ہے تو یہ کہ شخصی امیدواری میں ایک شخص تنہا اپنی اغراض کے لیے کام کرتا ہے اور پارٹی سسٹم میں بہت سے خود غرض لوگ منظم طریقے سے اپنی مقصد برآری کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

اسلام امیدواری کا مخالف ہے:       

     اسلام اسی وجہ سے امیدواری کا مخالف ہے۔اس نے یہ مستقل اصول قائم کیا ہے کہ حکومت میں ذمے داری کا کوئی منصب کسی ایسے شخص کو نہ دیا جائے جو خود اس کا طالب ہو۔اس باب میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں۔قرآن میں صاف فرمایا گیا ہے:

    تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاوَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ(83)۔وہ آخرت کا گھر(یعنی جنت) تو ہم ان لوگوں کے لیے رکھیں گے جو زمین میں خود اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کا ارادہ رکھتے ہیں اور عاقبت صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے۔ القصص:( 9) ۔

     حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے فرمایا: لا تَسْئلُ الامارۃُ فَاِنَّکَ ان اعطتیتھاعن غیر مسئلۃ اُعنْتَ علیھا و عن اعطیتھا عن مسئلۃ وکلت الیھا۔ حکومت کی طلب نہ کر کیونکہ اگر وہ تجھے بے طلب دی گئی توخدا کی طرف سے تیری مدد کی جائے گی اور اگر وہ تیرے مانگنے سے تجھے دی گئی توتجھ کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

    حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:  لتجدون خیرالناس اشدھم کراھیۃ لھذ الامر حتیٰ یقع فیہ۔ تم لوگ ایسے شخص کو بہترین اشخاص میں سے پاؤگے جو حکومت کے منصب سے سخت کراہیت رکھتا ہو یہاں تک کہ وہ مجبوراً  اس میں مبتلا ہوجائے(بخاری و مسلم)۔

     حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے رشتے داروں میں سے دو آدمیوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دونوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ہم کو حکومت میں کسی منصب پر مقرر فرمایا جائے۔اس کے جواب میں آں حضرتؐ نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کے مختلف فقرے مختلف روایات میں وارد ہوئے ہیں۔بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

     انا واللہ لانؤتی علیٰ ھذا العمل احداً سألہ ولا احداً حرص علیہ۔

“خداکی قسم ہم اس حکومت کے کسی منصب پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا طالب ہو نہ کسی ایسے شخص کوجو اس کا حریص ہو۔”

     دوسری روایت میں ہے:

     لا نستعمل علیٰ عملنا من ارادہ۔ “ہم اپنی حکومت کے کام میں کسی ایسےشخص کو استعمال نہیں کرتے جو خود اس کا خواہش مند ہو۔”

    ابو داؤد میں آپؐ کے یہ الفاظ آئے ہیں: ان اخونکم عندنا من طلبہ۔’’تم میں سب سے بڑا خائن ہمارے نزدیک وہ شخص ہے جو اس چیز کا طالب ہو۔”

     اس تحریر میں بیان کردہ حقائق آج بھی اسی طرح صداقت پر مبنی ہیں جیسے لکھے جانے کے وقت تھے۔ اقتدار اور منصب کی طلب اور اس کے لیے انفرادی یا اجتماعی امیدواری اور جدوجہد قرآن و سنت کی ابدی تعلیمات کے آج بھی منافی ہے۔ سید مودودیؒ نے ان کی روشنی میں طریق انتخاب میں جن اصلاحات کا عزم اس تحریر میں آگے چل کر ظاہر کیا ہے اس کے مطابق عوام کو اپنے حلقہ انتخاب سے ایسے دیانت دار اور اہل افراد کو تلاش کرنے کی تربیت دی جانی تھی جو خود منصب کے خواہش مند نہ ہوں۔ پھر ان کی مہم بھی خود چلانی تھی اور زرضمانت سمیت دیگر اخراجات کا بندوبست بھی ان ہی کو کرنا تھا جبکہ جماعت کے کارکنوں کو ایسے افراد کی کامیابی کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرنی تھیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ سید مودودیؒ کی اس مدلل اور فکر انگیز تحریر میں مغربی جمہوریت کے طریق انتخاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی شدید ضرورت کے اظہار کے باوجود یہ تجربہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہونے والے پنجاب کے صوبائی انتخابات میں کامیاب ثابت نہیں ہوا جبکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو دعوت اور ان کی تربیت پر تمام تر توجہ اور توانائیاں مرتکز کیے بغیر اور اسی کو جدوجہد کا محور بنائے بغیر مطلوبہ سیاسی قیادت کا اوپر آنا اسلامی انقلاب کا برپا ہونا ممکن نہیں۔تاہم جیسا کہ اس تحریر میں پچھلے صفحات میں کہا جاچکا ہے یہ وہی بات تھی جو انہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے فیصلے کے وقت کہی تھی کہ اسلامی انقلاب کے لیے اصولاً پہلے سماجی اور اخلاقی انقلاب ضروری ہوتا ہے لہٰذا جماعت انتخابی سیاست کے طریقے کو محض آزمائشی طور پر اختیار کررہی ہے اور کامیابی نہ ہونے کی صورت میں اصل طریقے یعنی معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی جدوجہد کی طرف لوٹ جائے گی۔جماعت کی قیادت کو سات دہائیوں کے تجربات کے بعد ایک بار پھر بانی تحریک کے ان خیالات پر غور کرنا چاہیے لیکن اگر ان کی بنیاد پر حکمت عملی میں کوئی تبدیلی ضروری نہ بھی سمجھی جائے تو کم از کم انتخابی سیاست کے حوالے سے تحریک کے فکری مؤسس کی رائے میں اس واضح تبدیلی کو مستقبل کی اسلامی تحریکوں کی رہنمائی کے لیے منظر عام پر ضرور لے آیا جانا چاہیے۔        

ایک قابل غور نکتہ        

سید مودودیؒ نے اپنی تصانیف خلافت و ملوکیت اور تجدید و احیائے دین میں خلافت راشدہ کے محض تیس سال کے اندر خاتمے کی وجوہات اور اس کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ سے سید احمد شہیدؒ تک اس کی بحالی کی خاطر کی جانے والی اہم کوششوں کا ناقدانہ جائزہ لے کر ان اسباب کا تعین کیا ہے جن کی وجہ سے یہ تحریکیں کئی حوالوں سے دین کو زندہ کرنے کے باوجود اپنے حتمی ہدف تک نہیں پہنچ سکیں۔لہٰذا جماعت اسلامی سمیت دور حاضر کی دینی تحریکوں کے معاملے میں بھی یہ دیکھا جانا عین حکمت ودانش کا  تقاضا ہے کہ وہ اپنی عمر کی آٹھ نو دہائیاں مکمل کرنے کے بعد بھی اس ہدف سے دور کیوں ہیں، کسر کہاں رہ گئی اور بہتری کن کن حوالوں سے ضروری ہے۔

Comments

Latest

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

جاوید انور دیکھیے، یہ ’’امت‘‘ کی آواز کہاں سے بلند ہو رہی ہے؟ ذرا کان لگائیے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم امت قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اور اس کی پکار دب گئی تھی۔ کسی قومی رہنما یا فوجی سربراہ نے امتِ مسلمہ کو کبھی متحدہ طور پر

ایران کی طاقت

ایران کی طاقت

جاوید انور نئی عالمی جنگ القدس کے گرد گھوم رہی ہے، جسے بعض تیسری یا آخری عالمی جنگ کی ابتدا بھی کہتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی یہ جنگ اسلام اور شہادت کے جذبے سے سرشار انتفاضہ اور فلسطینی نوجوانوں کے غلیل سے شروع ہوئی۔ ان نوجوانوں کو حماس جیسی

ایران پر یلغار کیوں؟

ایران پر یلغار کیوں؟

تحریر: حفید اختر مختار  برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے 6 اپریل 2024 کو ڈیلی میل کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ اگر یوکرین روس کے خلاف جنگ ہار جاتا ہے تو یہ "مغرب کے غلبے کا خاتمہ" ہوگا، جو مغربی تہذیب کے

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

کشمیر! جَڑ کی بات کریں

تحریر: حفید اختر مختار  اسرائیل اگر مغرب کی ناجائز اولاد ہے، تو کشمیر برطانیہ کی ناجائز وراثت کی بدترین تقسیم کا نتیجہ ہے۔ کشمیر برطانوی بے ایمانی کا شاہکار ہے، جو برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے فراڈ کا ایک انمول نمونہ ہے۔ برطانیہ نے ہندوستان کو مسلمانوں سے