Skip to content

اسلامی سیاست کی تین بنیادیں

جاوید انور

اسلامی سیاست کی تین وہی بنیادیں ہیں جو اسلام کی بنیادیں ہیں یعنی توحید، رسالت، اور آخرت۔

۱۔  توحید:  سیاست کا پہلا سوال یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ کس کا ہوگا، مقتدر ہستی یا ادارہ کون ہوگا،  اقتدار کا ارتکاز کہاں ہوگا،  بالا تر  کون ہوگا، سروری  (Sovereignty)  کس کی ہے، بالا دستی(Supremacy)  کس کی ہوگی،کس کا بنایا ہوا قانون اور کس کا دستور نافذہوگا؟  رعایا ، عوام، باشندگان ملک کی جواب دہی کس کے سامنے ہوگی؟

اسلام نے اس کا جواب دے دیا ہے۔  تمام تعریف اللہ کے لیے جو  رب العالمین  ہے، وہ  مالک الملک ہے، وہ  ملک السما وات والارض  ہے ۔ وہ الملک  القدوس  السلام  (بادشاہ حقیقی، پاک ذات، سلامتی امن دینے والا )ہے۔وہ خالق ہےاورحاکم  بھی، وہ وارث  (مالک)  ہے، وہ تمام اقتدار (Absolute Power)کا مالک ہے،  وہ حکم (فیصلہ کرنے والا) ہے،   وہ قوی اورقادر ہے،  وہ مقسط (انصاف کرنے والا ) ہے، وہ عزیز (غلبہ دینے والا) ہے،  وہ قھار (غلبہ والا) ہے،  وہ  مختار مطلق ہے،   وہ غیر جواب دہ ہے ، باقی سب  اس کے سامنے جواب دہ ہیں۔ وہ فتاح (کھولنے والا) ہے۔ وہ رافع (بلند کرنے والا) ہے۔ وہ علی (اونچا) ہےاور متعالی  (سب سے اونچا) ہے،  وہ ذوالجلال والاکرام  (عظمت اور بزرگی والا) ہے،   اور وہ احد  (اکیلا) ہے۔

چنانچہ اسلام میں  اقتدار اعلیٰ  پر فائز کوئی بادشاہ  ہوسکتا ہے، نہ کوئی فوجی  یا سویلین آمر، یا جمہوری حکمران یا انسان کا بنایا ہوا دستور اور اس کی  اسمبلیاں۔

’’حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی و اطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔ (یوسف 40)

پیروی کرو اس قانون کی جو تمہاری طرف  تمہارے  رب ہے کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو (اعراف۔ 3)

’’اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘(المائدہ 44)۔

سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے

حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتان آزری

(علامہ اقبالؒ )

چونکہ زمین اور آسمان اورا س کے مابین جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی تخلیق ہے، چنانچہ وحدت الٰہی  کے عقیدہ سے ہی وحدت کائنات تصور نکلتا ہے۔ یعنی یہ پوری کائنات ایک ہے۔ اس دنیا میں قبائل و شعوب پہچان کے لیے  ضرور بنائے گئے ہیں، لیکن اس کی جٖغرافیائی تقسیم،  اس  کے اندر بٹوارا   د ر  بٹوارا،  قومی  ریاستیں ،  ایک سے دوسری جگہ جانے کے لئے سفر کی رکاوٹیں اور پابندیاں، ویزہ، پاسپورٹ، تعصب، وطنی اور قومی تنگ نظری انسان کی اپنی  تخلیق ہے۔

اسی طرح    عقیدہ توحید ، وحدت انسانی کا تصور  بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی تمام انسان   اللہ کی مخلوق ہیں اور انسان  اشرف المخلوقات ہے۔ ایک انسان  کو دوسرے انسان  پر  برتری صرف اس کے  اخلاق اور تقویٰ کی بنیاد  پر  ہے۔

 اسلامی کی پہلی سیاسی بنیاد توحید ہی   جدید جاہلی    مغربی سیاسی نظام کی تینوں  بنیادوں  یعنی     قومیت    (Nationalism)  ، لادینیت (Secularism) اورجمہوریت ( Democracyیعنی عوام یا اس کے کسی ایک گروہ    یا پارٹی کی حاکمیت اور بالادستی)  کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اسی طرح عقیدہ توحید،   سماجی  برائی         نسل پرستی کو بھی جڑ سے کاٹ دیتا ہے۔

 ۲۔ رسالت: سیاست کا دوسرا بڑا سوال  یہ ہے کہ لیڈر کون ہوگا؟  اسلام نے اس کا جواب یہ دیا کہ وہ کوئی اور نہیں  تمہارےلیڈر، تمہارےرہنما، تمہارے قائد ،تمہارے درمیان مبعوث نبی  عَلَیہِمُ السَّلام  ہی ہیں۔ چنانچہ   محمدرسول اللہ ﷺ جو آخری نبی ہیں قیامت تک کے لیے،اب ہمارے لیے رہنمائی انھیں کی ہے۔ وہ صرف ہمارے مذہبی، اور اخلاقی ہی نہیں بلکہ سیاسی رہنما بھی ہیں۔ ہمیں   تمام امور اور معاملات زندگی میں انھیں  کی اطاعت کرنی ہے۔

’’ہم نے جو رسول بھی  بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (  النساء64)

’’جو رسول کی اطاعت کرے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی ‘‘ (النساء80)

’’پس نہیں، تیرے رب کی قسم وہ  ہر گز مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف میں  تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں‘‘ (النساء65)۔

آپ پر اور آپ کے فرمان پر

جان و دل سے ہم فدا یا مصطفیٰ 

(مظفر وارثی)

اب موجودہ دور میں قیادت کا فریضہ وہ انجام دے گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا مکمل تابع، مطیع و فرمانبردار ہوگا۔ پہلی بات کی اس میں  صالحیت ( تقویٰ، پرہیزگاری، پاکیزگی) اور صلاحیت   (حکومت اور ریاست کے جملہ امور کو چلانے  کی استطاعت) ہو، جس  کی امانت داری،  عدل ،جس کا حکم، جس کی بصیرت، جس  کا فرقان  سب سے بہترہو۔

’’ مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو،اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے‘‘۔(النساء58)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسُول کی طرف پھیردو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔(النساء۵۹)۔

صالح قیادت اور لیڈر شپ  کی موجودگی دراصل ایک خدائی انعام    ہے ۔

’’پس (یہ حقیقت ہے کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے ‘‘(  المائدہ 125)

’’اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمھارے لیے فرقان  (کھرے اور کھوٹے کو الگ کرنے کی  کسوٹی) نمایاں کردے گا اور تم سے تمھارے گناہ جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘(الانفال۲۹)

سورۃ مریم میں حضرت عیسیٰ ؑ کے حوالے سے  کہا گیا کہ ’’ہم نے اسے  بچپن میں ہی ’’حکم ‘‘ سے نوازا اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی  اور بڑا   پرہیزگار اور والدین کا حق  شناس تھا۔ وہ جبار نہ تھا اور نہ نافرمان ‘‘ (مریم  13-14)

مفسرین ’’حکم‘‘ سے مراد لیتے ہیں؛ قوت فیصلہ، قوت اجتہاد، تفقہ فی الدین،  معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار۔

نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز

یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

(علامہ اقبالؒ)

۳۔  آخرت:  سیاست کا تیسرا بڑا سوال   حکومت کے مقاصد ہیں۔ حکومت کیا کام کرے گی، ریاست کی کیا ذمہ داری ہوگی،  اس کی ترجیحات کیا ہوں گی ،وہ پوری قوم کو کس  منزل اور کس سمت میں لے جائے گی،حکومت کی عوام کے لئے  کیا  کیاگرانٹی  ہوگی؟

 اسلامی سیاست کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا  مقصد مندجہ ذیل دعاء  کی عملی تشکیل ہے؛

’’اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں  حسنات دے اور آخرت میں بھی حسنات  دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔(البقرہ 201)

حکومت کی ترجیحات؛۱۔ دنیا کے حسنات، ۲۔ آخرت  کےحسنات اور  ۳۔ جہنم سے بچاوُ۔ حکومت کی پالیسی تمام شعبہ حیات  میں انھیں تین ترجیحات کو سامنے رکھ کر کی جائے گی۔ چونکہ دنیا عارضی ہے اور   آخرت ازلی، اس لیے پوری قوم کو جہنم  کی آگ سے بچانے کے لیے تمام تدابیر  کو ترجیح اول حاصل گی۔  ملک کے  ابلاغیہ اور تعلیمی نظام  کی اس  پہلو سے   تشکیل جدید کی جائے گی۔

’’اور ہمارے بندوں ، ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو۔ بڑی قوّتِ عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے۔   ہم نے اُن کو ایک خالص صفت کی بنا پر  برگزیدہ کیا تھا، اور وہ  دارِ آخرت کی یاد تھی۔ یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چُنے ہوئے  نیک اشخاص میں ہے ‘‘ (ص: 45 to 47)

یعنی  انبیا ء کی  بزرگی اور بڑائی  کی واحد وجہ اپنی اور اپنی ملت، اپنی قوم کے لیے  آخرت کے گھر کی یاد ، اس کا تذکرہ ، اس کے لیے جدوجہد  اور اس کی خواہش تھی ۔

’’ (یہ اہل ایمان والے وہ لوگ ہیں کہ) اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز  قائم کریں گے، زکوٰۃ  ادا کریں گے، بھلائی  کا حکم دیں گے، اور برائی سے روکیں گے  ‘‘ (الحج: 41)

جاہلی سیاست کا سب سے بڑا،  سب سے  آئیڈیل  مقصد اور نعرہ’’  ترقی‘‘  (Development)ہے۔  اسلامی  سیاست کا  آئیڈیل   مقصد ’’ہدایت‘‘ (Guidance)ہے۔ ایک ہدایت یافتہ انسان اور قوم کی ترقی اورایک   گمراہ انسان  اور قوم کی ترقی میں  آسمان اور  زمین کا فرق ہے۔  زمین پر سارا ظلم،  نا انصافی، قوم پرستی،نسل پرستی،  توہین انسانیت،  آگ اور خون،  مظلوم انسانوں پر  گولہ بارود،    ہوائی حملے،   انسانوں کے چیتھڑے،   لاشوں کے انبار،   ہر روز ہر لمحہ مرتے، بھوکے پیاسے بلکتے  بچے،  عورتیں، اور مرد    ،  تعلیمی ادارے، اسپتال،  اور عورتوں اور  بچوں کی پناہ گاہیں پر  برستے بم اور کھنڈر میں بدلتی امارتیں اور انسانی آبادیاں، انھیں گمراہ  کن انسانوں   کی ترقی یافتہ قوموں  اور ممالک  اور ان کی قیادتوں کے کارنامے ہیں۔’’ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے‘‘ (الروم: 41)

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

(علامہ اقبالؒ)

اگر ہمیں ان گمراہ ترقی یافتہ قوموں اور حکمرانوں  کو دنیا   کے اقتدار سے ہٹانا ہے اور ایک صالح ہدایت یافتہ قوم  تیار کرنا ہے،  عدل قائم کرنا ہے، حریت، عزت نفس  اور    تکریم انسانی  کو بحال کرنا ہے، تو اس کے لیے حکومت اور اقتدار حاصل کرنا  ضروری ہے، دین اور سیاست کو یکجا کرنا ہے، اور اس کے لیے   ہم پر اسلامی سیاست کرنا فرض ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح ہم پانچ وقت کی نماز  کا اہتمام کر رہے ہیں۔

اقامت دین ، (سیاسی)  امامت صالحہ کا قیام،  حکومت الٰہیہ ،  نظام مصطفیٰ ﷺ کا احیا،  اور شریعت کا نفاذ، ہماری زندگی کے اعلیٰ مقاصد ہونے چاہیے، اور یہ اسلامی سیاست؛ شہادت حق اوردعوت دین کا فریضہ، اعلائے کلمۃ اللہ  کی بلندی   ، امر بالمعروف و نہی عنی المنکر کے لیےعملی جدوجہد  کا نام ہے۔

E Mail: Jawed@SeerahWest.com

Facebook: https://www.facebook.com/JawedAnwarPage

X:  https://twitter.com/AsSeerah

Latest

جاہلی سیاست  اوراسلامی سیاست  کے  بیانیہ کا فرق

جاوید انور جاہلی  مغربی سیاست کا بیانیہ حقوْق کے مطالبہ کا بیانیہ ہے۔ جب کہ اسلامی سیاست کا بیانیہ فرائض کی ادائیگی کا بیانیہ ہے۔  جاہلی سیاست حقوق کا ڈھول جتنا تیز بجا  رہی ہے اس سے تیز قوموں، گروہوں، اور  مختلف طبقات کے لوگوں کےحقوق چھن رہے ہیں۔

Members Public

پاکستان : آٹھ فروری کا انتخاب اور سات بڑے مسائل، کون کرے گا حل؟

(یہ کالم روزنامہ جسارت، پاکستان میں ۸ فروری سے قبل شائع ہو چکا ہے۔) جاوید انور پاکستان میں الیکشن کے نام پر آٹھ فروری  کو کیا ہونے جا رہا ہے،  اور پاکستان کے ووٹرز  کو کیا کرنا چاہئے،اس پر میرا تبصرہ ہے کہ  نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

Members Public

اب، جب کہ سب عشق کرنے لگے

ہم سے چند نسل قبل کے لوگ  عشق کم کیا کرتے تھے، لیکن جب کرتے تھے تو اسے نبھا دیتے تھے۔ میر  تقی میر کے والد علی متقی اپنے بیٹے سے کہا کرتے تھے کہ بیٹا عشق کیا کر، عشق کے بغیر زندگی نامکمل اور ناقص اور بے لذت ہے۔

Members Public