حفید اختر مختار
پاکستان پر بھارت کی حالیہ جارحیت درحقیقت اسرائیلی حملے کی ایک توسیع ہے۔ اس کی تازہ ترین وجہ پاکستانی عوام کی طرف سے ریاست سے فلسطین اور القدس کے لیے جہاد کے مطالبے میں شدت ہے۔ یہ مطالبہ پاکستان کے جید علمائے کرام کے متفقہ فتویٰ پر مبنی تھا، جس نے عوامی جذبے کو مزید تقویت دی۔
اسرائیل اس وقت دنیا کی ہر اُس طاقت کو کچل دینا چاہتا ہے جو حال یا مستقبل میں اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اسرائیل اور پاکستان کی دشمنی نئی نہیں بلکہ نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں قراردادِ پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین کے حق میں بھی ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1940 میں، جب اسرائیل کا قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا، یہ واضح الفاظ میں کہا کہ یہودی فلسطین کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رہے ہیں اور انہوں نے اس عمل کو مسترد کیا، کیونکہ یہ فلسطینیوں کی زمین پر غاصبانہ قبضے کا آغاز تھا۔
دسمبر 1947 میں قائداعظم نے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو ایک خط لکھا جس میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس فیصلے سے نہ صرف فلسطینی بلکہ خود یہودی بھی نقصان اٹھائیں گے۔ انہوں نے فلسطینی عوام سے ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی اور اسرائیل کو مغرب کی "ناجائز اولاد" قرار دیا۔ دوسری طرف، اسرائیل کے پہلے وزیرِاعظم، ڈیوڈ بن گوریئن نے پاکستان کو اسرائیل کا "اصلی نظریاتی دشمن" قرار دیا۔
پاکستان کے دوسرے بڑے دشمن، بھارت کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات وقت کے ساتھ گہرے ہوتے چلے گئے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت میں ان تعلقات نے نئی بلندیوں کو چھو لیا، اور وزیرِاعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کو انتہائی مستحکم کر دیا۔ آج بھارت اور اسرائیل ایک دوسرے کے نظریاتی و عسکری اتحادی بن چکے ہیں۔ اسرائیل بھارت کو مستقل مشورہ دے رہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جس طرح ہم نے برتاؤ کیا، تم بھی اسی طرز پر پاکستان اور بھارتی مسلمانوں سے نمٹو۔ بھارت اس روش پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔
خبر رساں ادارے "روئٹرز" کے مطابق، بھارت نے گزشتہ دہائی میں اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر کا عسکری ساز و سامان خریدا ہے، جس میں ریڈارز، جاسوسی آلات، ڈرونز اور میزائل شامل ہیں۔ حالیہ حملے میں بھارت نے اسرائیلی ساخت کے "ہاروپ" ڈرونز استعمال کیے، جنہیں پاکستان نے مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ پاکستان کے مطابق، 77 میں سے تمام ڈرونز تباہ کر دیے گئے۔
پاکستان کو اس وقت چین کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد حاصل ہے، جس نے پاکستانی فضائیہ کو بھارت پر برتری دلائی ہے۔ پاکستانی جوابی حملے میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جس میں اس کے پانچ مہنگے لڑاکا طیارے تباہ ہوئے۔
پہلگام کے افسوسناک واقعے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے بغیر تحقیق پاکستان پر الزام عائد کیا اور اس واقعے کو حملے کا بہانہ بنا لیا۔ بھارتی میڈیا، متعصب تجزیہ نگار، اور جنگ پسند دفاعی ماہرین نے جنگی ماحول پیدا کیا اور کھلے عام اعلان کرنے لگے کہ پاکستان کو مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہیے اور اسے تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا پاکستان سے علیحدگی کے لیے تیار بیٹھے ہیں، اور جیسے ہی بھارت حملہ کرے گا، وہ آزادی کا اعلان کر دیں گے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت ان علاقوں میں عرصے سے سرگرم ہے۔
تاہم موجودہ جھڑپ میں بھارت کی یہ منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس وقت پورا پاکستان متحد ہو کر کھڑا ہے، اور جوابی کارروائی کے بعد بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیا بھارت اب رک جائے گا؟ ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے اور "واٹر وار" کی بات کر کے اس جنگ کی شدت اور وسعت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ پاکستان نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پانی روکنے کی کوشش کو اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا، اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ لیکن دفاع کا اصول صرف دفاع نہیں بلکہ پیش قدمی ہے۔
کشمیر پاکستان کا حصہ ہے، یہ اس کی شہ رگ ہے، جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کی آبی زندگی کا انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں (جہلم، چناب، راوی، ستلج، بیاس) پر ہے، جو کشمیر یا اس سے ملحقہ ہمالیائی علاقوں سے نکلتے ہیں۔ ان پر بھارتی قبضہ مستقبل میں پاکستان کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مار سکتا ہے۔ ماضی میں کئی مواقع ایسے آئے جب پاکستان کشمیر حاصل کر سکتا تھا، خاص طور پر 1948 پاک بھارت جنگ میں اور 1962 میں چین بھارت جنگ کے دوران، لیکن وہ مواقع ضائع کر دیے گئے۔ اب جبکہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے، کشمیر کی فتح سے پہلے اس کا خاتمہ پاکستان کے لیے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ یہ پاکستان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ پہلے اپنے آپ کو مکمل کیجیے۔
پاکستان کو کشمیر کے لیے بھی لڑنا ہے اور فلسطین کے لیے بھی۔ اس نازک وقت میں پوری مسلم دنیا کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے۔ فلسطین کی جنگ درحقیقت ایک عالمی جنگ ہے۔ پوری امت مسلمہ کو اس میں شامل ہو کر اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے۔ مسیحی دنیا کو بھی مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ حضرت عیسیٰؑ کی آمد پر مسلمان اور مسیحی یکجا ہوں گے۔ یہ نکتہ مسلمانوں کو مسیحیوں تک پہنچانا چاہیے۔