Skip to content

تحریر: حفید اختر مختار 

اسرائیل اگر مغرب کی ناجائز اولاد ہے، تو کشمیر برطانیہ کی ناجائز وراثت کی بدترین تقسیم کا نتیجہ ہے۔ کشمیر برطانوی بے ایمانی کا شاہکار ہے، جو برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے فراڈ کا ایک انمول نمونہ ہے۔ برطانیہ نے ہندوستان کو مسلمانوں سے چھین کر اپنی نوآبادیاتی حکومت قائم کی تھی۔ اس نے برصغیر کی ایک عظیم مسلم سلطنت کو اپنی کالونی بنایا اور پھر مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے۔ انہیں تعلیمی، معاشی، اور تہذیبی ہر لحاظ سے برباد کیا۔

برطانیہ کا تاریک دور

تعلیم کے میدان میں ہندوستانی مسلمانوں نے جو عظیم کارنامے انجام دیے اور اس کے لیے جتنی بڑی معیشت (اوقاف اور معافیات) لگائی، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خود انگریز مورخین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ معاشی طور پر مسلم دورِ حکومت، خصوصاً مغل اور اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک تھا۔ مسلمان ایک شاندار تہذیب کے حامل تھے، جسے انگریزوں نے شرمناک اور فحش تہذیب سے بدل دیا۔ یہاں کے سماجی اور خاندانی نظام کو تہس نہس کر دیا۔ اس موضوع پر پروفیسر محمد سلیم کی کتاب ہند و پاکستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، ششی تھرور کی کتابیں An Era of Darkness: The British Empire in India اور Inglorious Empire: What the British Did to India، اور جاوید انور کا مضمون Madrasah: The Intellectual History of Muslim India وافر مواد فراہم کرتے ہیں۔

امریکا کی بنیاگری

دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب فتح یافتہ اور شکست خوردہ ممالک معاشی طور پر تباہ ہو چکے تھے، برطانیہ کو امریکا کی مالی مدد کی ضرورت پڑی۔ امریکا نے کبھی بغیر کاروباری مفاد کے کسی کی مدد نہیں کی۔ اس نے برطانیہ کی مدد اس شرط پر کی کہ وہ اپنی کالونیوں کو چھوڑ دے۔ یوں ہندوستان ایک نقد سودے میں امریکا کے ہاتھوں بک گیا۔

تقسیم ہند سب کے مفاد میں تھی

ہندوستان کی دو بڑی قوموں (ہندو اور مسلمان) کو ایک ملک دینا نہ انگریزوں، نہ ہندوؤں، اور نہ ہی مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ انگریزوں کے لیے تاریخ اور نفسیات کا سبق تھا کہ اگر تقسیم کے بغیر آزادی دی گئی، تو دونوں قومیں ان کی دشمن رہیں گی۔ تقسیم سے یہ دشمنی ہندو اور مسلم کے درمیان منتقل ہو جاتی، اور وہ آپس کی لڑائی میں انگریزوں کو ثالث بناتے، ان  (اب امریکا)سے اسلحہ اور سازوسامان خریدتے۔ ہندو برہمنوں کا ایک طبقہ سمجھتا تھا کہ تقسیم کے بغیر آزادی سے مسلمان پھر اقتدار کی بات کریں گے اور ہندوؤں کو چَین سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ اس لیے حل یہ تھا کہ مسلمانوں کے اہلِ دماغ، سیاسی قائدین، اور کارکنوں کو ہندوستان کے دو کونوں میں سمیٹ دیا جائے۔

مسلمانوں نے 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریسی صوبائی حکومتوں کے تلخ تجربے سے سیکھ لیا تھا کہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بننے والی "جمہوری" حکومتیں ان کی جان، مال، عزت، تعلیم، تہذیب، اور معاشرت کے لیے خطرہ ہیں۔ یوں تینوں فریق (انگریز، ہندو، اور مسلمان) اصولی طور پر تقسیم ہند پر متفق ہو گئے۔

ابتدائی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے بہترین دماغوں نے بہترین مشورے دیے، جیسے کہ صوبوں کا ایک کنفیڈریشن بنایا جائے، جہاں مرکز کے پاس صرف دفاع، کرنسی، مواصلات، اور ٹرانسپورٹ ہوں، اور باقی تمام معاملات میں صوبے آزاد ہوں۔ ایک تجویز یہ تھی کہ ہندوستان کو تین یونٹس (مغربی، مشرقی، اور مرکزی) میں تقسیم کیا جائے، جہاں دو یونٹس میں مسلم اکثریت اور ایک میں ہندو اکثریت ہوتے۔ ایک اور مشورہ تہذیبی اکائیوں کی تقسیم کا تھا۔ لیکن انگریزوں اور برہمن قیادت والی کانگریس نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی عملی سیاست نے واضح کر دیا تھا کہ دو ملکوں کی مکمل تقسیم کے علاوہ کوئی فارمولا قابلِ عمل نہیں۔ یوں مسلم لیگ اور دیگر قوتیں تقسیم ہند اور قیامِ پاکستان کے مشن پر لگ گئیں۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور بے ایمانی کی تقسیم

ہندوستان میں برطانیہ کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا۔ کانگریس کے انگریزوں سے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ کانگریس کا بانی ایک انگریز ایلن اوکٹیوین ہیوم تھا۔ کانگریسی لیڈر جواہر لال نہرو نے ماؤنٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ سے خصوصی گھریلو تعلقات استوار کیے، جو تاریخ کی ایک بڑی سیاسی بے ایمانی کا پیش خیمہ بنے۔ ماؤنٹ بیٹن کے کردار کا اندازہ اس واقعے سے لگائیں:

"لندن، 18 نومبر: لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جو ہندوستان کے آخری برطانوی وائسرائے اور ملکہ برطانیہ کے شوہر پرنس فلپ کے چچا تھے، کو آج عدالت نے اس جرم پر 20 پاؤنڈ جرمانہ کیا کہ انہوں نے اپنے فارم واقع کینٹ سے دودھ میں پانی ملا کر فروخت کیا۔" (پاکستان ٹائمز، 19 نومبر 1972)

تقسیم کا نقشہ تیار کرنے کے لیے ریڈکلف کمیشن نے اس فراڈ کے نقشے کو مکمل کیا، جس کی پلاننگ پہلے ہو چکی تھی۔ اصول یہ طے تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کو اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت کو ملیں گے۔ لیکن مسلم اکثریتی علاقوں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کر دی گئی۔ مشرقی ہندوستان کے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دیے گئے۔ جن صوبوں میں ہندو اکثریت تھی اور مسلم حکمران (نواب، راجہ، یا نظام) تھے، وہ بھی بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔ یوں پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے خونی ہجرت ہوئی، جس کا کسی کو اندازہ نہ تھا۔ گاندھی اور جناح دونوں اس تقسیم سے ناخوش تھے۔ گاندھی کسی بھی تقسیم کے خلاف تھے، جبکہ جناح کو انگریزوں کی شرارت کا ملال تھا۔ لیکن بات ہاتھ سے نکل چکی تھی۔

کشمیر: شہ رگِ پاکستان کو کیسے کاٹا گیا

کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور مغربی پاکستان سے جڑا ہوا تھا۔ واحد راستہ گورداسپور، جو بھارت سے کشمیر کو جوڑتا تھا، اسے کاٹ کر بھارت کو دے دیا گیا۔ کشمیر کے ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک ڈرامائی اعلان کے ذریعے کشمیر کو بھارت کے حوالے کر دیا۔ اس عمل میں جواہر لال نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کے قریبی تعلقات نے کلیدی کردار ادا کیا۔

پاکستان کے دریاوں کا منبع کشمیر اور ہمالہ ہے۔ کشمیر پر بھارت کے قبضے سے پاکستان کے دریا خشک ہونے یا سیلاب سے بھر جانے کے امکانات بڑھ گئے، اور پاکستان دشمن کے رحم و کرم پر ہو گیا۔ قائداعظم کو انگریزوں کی اس بے ایمانی اور کشمیر کی اہمیت کا گہرا احساس تھا۔ انہوں نے آخری سانس تک کہا کہ "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔" یہ بات سو فیصد درست تھی اور ہے۔

بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، حالانکہ تاریخ میں کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ اس کا انگ ہے، تو اس کے بغیر بھارت آرام سے زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن شہ رگ کے بغیر پاکستان کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اسی لیے تقسیم ہند کی دیگر بے ایمانیوں پر صبر کیا گیا، لیکن کشمیر پر صبر کرنا پاکستانی ریاست اور عوام کے لیے ناممکن ہے۔

کشمیر کے لیے جنگ

کشمیر کے لیے 1948-49 میں جنگ ہوئی۔ اس وقت پاکستانی فوج کی کمان انگریز جرنل فرینک میسروی (15 اگست 1947 تا 10 فروری 1948) اور پھر جنرل سر ڈگلس گریسی (11 فروری 1948 تا 16 جنوری 1951) کے ہاتھ میں تھی۔ ظاہر ہے کہ جن انگریزوں نے کشمیر بھارت کو دیا، ان کے جرنل اسے پاکستان کو کیسے دیتے؟ اس جنگ میں شمال مغربی علاقوں کے قبائلی پٹھانوں کی ہمت اور بہادری سے کشمیر کا ایک حصہ آزاد ہوا، جو آج آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کہلاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انہی بہادر پٹھانوں کو آج "فتنہ الخوارج" کہہ کر، امریکا کے کہنے پر قتل کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی جرنلز، جن کی کشمیر کے حوالے سے دھوکہ دہی اور بغاوت کی لمبی تاریخ ہے، اب خود کو حضرت علیؓ سمجھنے لگے ہیں۔

1948-49 کی جنگ کے نتیجے میں بننے والی سیزفائر لائن کو لائن آف کنٹرول (LoC) قرار دیا گیا، جس کی "حفاظت" برطانیہ اور امریکا نے ہمیشہ کی۔ پاکستانی فوج کے انگریز جرنلوں کے بعد جنرل ایوب خان (17 جنوری 1951 تا 27 اکتوبر 1958) اور جنرل موسیٰ خان (28 اکتوبر 1958 تا 27 اکتوبر 1966) کمانڈر ان چیف رہے۔ ان کی رگوں میں خون کی جگہ برطانوی غلامی کی شراب دوڑتی تھی۔

1962 کی انڈیا-چین جنگ کے دوران چین نے پاکستان کو کشمیر پر چڑھائی کے لیے کہا۔ یہ ایک آسان موقع تھا، لیکن پاکستانی فوج نے اسے ضائع کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان، جو 27 اکتوبر 1966 کو کمانڈر ان چیف بنے، نے 1971 میں مشرقی پاکستان کو بغیر لڑے بھارت کے حوالے کر دیا، جو اب بنگلہ دیش ہے۔ جنرل ضیاء الحق، جو یکم مارچ 1976 کو چیف آف آرمی اسٹاف بنے اور 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء لگایا، سے لے کر آج تک پاکستانی فوج کا بنیادی مقصد امریکی مفادات کی حفاظت رہا ہے۔ امارت اسلامی افغانستان اور شمال مغرب کے پٹھان قبائل سے پاکستانی فوج کی جنگ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

رائے شماری: استصوابِ رائے

پاکستانی فوجی خطرے کے پیشِ نظر بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے 1 جنوری 1948 کو کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ 21 اپریل 1948 کو اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کی قرارداد پاس کی، جس کے تحت کشمیریوں سے پوچھا جانا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ لیکن بھارت نے اس قرارداد کو کبھی عملی شکل نہ دی۔ اس نے ڈھٹائی سے بھارتی انتخابات کو ہی رائے شماری کا نام دیا۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان نے بھی اس قرارداد پر عمل درآمد کے لیے کبھی باضابطہ درخواست دائر نہیں کی۔ کشمیر امور کے ماہر ایمیسڈر ملک ندیم عابد، جو انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے جنرل سیکریٹری ہیں، نے اپنے ٹی وی انٹرویوز میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ حقیقتاً پاکستان کا اقوام متحدہ کے تحت رائے شماری کا دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ شاید بڑے آقاؤں نے اسی کی ہدایت کی ہو۔

انڈیا کو روس سے نکال کر امریکی کیمپ میں لانا

آزادی کے بعد نہرو نے چالاکی سے امریکا کے بجائے سوویت یونین سے تعلقات استوار کیے۔ غیر وابستگی کا ڈھونگ کرتے ہوئے اسلحہ اور ٹیکنالوجی روس سے لی۔ امریکا نے انڈیا کو روس سے نکالنے کی بہت کوشش کی۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی،نواسوں سنجے اور راجیو گاندھی کے قتل، اور 1980 کی دہائی میں کشمیر سے اٹھنے والے جہاد کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ پاکستان نے غیر ریاستی مجاہد قوتوں کی حوصلہ افزائی کی، جس نے بھارت کو کشمیر میں مشکل میں ڈال دیا۔ مئی تا جولائی 1999 کی کارگل جنگ، جو جنرل پرویز مشرف نے سویلین حکومت کو بتائے بغیر شروع کی، امریکا کے کہنے پر ختم ہوئی۔ مشرف کی امریکا اور اسرائیل سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔

ویکی پیڈیا کے مطابق: "1993 میں مشرف نے ذاتی طور پر بینظیر بھٹو کی مدد کی تاکہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکاروں اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کے خصوصی نمائندے سے خفیہ ملاقات کر سکیں۔ اسی دوران مشرف نے شوکت عزیز کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات قائم کیے، جو اس وقت سٹی بینک میں عالمی مالیاتی خدمات کے ایگزیکٹو صدر تھے۔"

امریکا نے پاکستان کو کشمیر میں مصروف رکھ کر بھارت سے تجارتی مفادات حاصل کیے۔ اس نے اپنی ہزاروں کارپوریشنز بھارت میں داخل کیں، جس سے بھارت کی چھوٹی صنعتیں تباہ ہوئیں اور مارکیٹ امریکی برانڈز سے بھر گئی۔ کشمیر کی تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی، ان کے کیمپ ختم کیے گئے، اور انہیں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔

عمران خان اور فوجی حکام کا دورہ امریکا

جولائی 2019 میں وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے واشنگٹن گئے۔ ان کے ساتھ 20 سے زائد اعلیٰ حکام کا وفد تھا۔ پینٹاگون میں امریکی فوجی حکام سے ملاقاتوں میں کشمیر پر کیا طے پایا، اس کا اندازہ بعد کے واقعات سے ہوتا ہے۔ عمران خان نے پاکستانی صحافیوں کے کشمیر اور عافیہ صدیقی سے متعلق سوالات کو سننے سے انکار کر دیا۔

ادھر بھارت نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کر دیے۔ پاکستان نے چند نرم اعتراضات کے سوا کچھ نہ کیا۔ امریکا چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے مشرقی دشمن (بھارت) سے ہٹ کر مغرب میں امریکا کے دشمنوں (افغان اور پٹھان) سے لڑے۔ یہی ہوا۔

کشمیر کے عوام کی قربانی

کشمیری عوام نے بھارت سے آزادی کی جنگ میں لاکھوں شہادتیں دیں، ہزاروں عورتوں کی عزت لٹی، ہزاروں معذور ہوئے، معاشی تباہی ہوئی، اور نوجوانوں کا مستقبل برباد ہوا۔ لاکھوں بھارتی فوجیوں کی نگرانی میں رہنے والے کشمیریوں کی بڑی تعداد جیلوں میں قید یا شہید ہوئی۔ پاکستان کی بار بار دھوکہ دہی سے وہ تنگ آ چکے ہیں، اور وہاں کی مزاحمتی تحریک کمزور پڑ گئی ہے۔

پاک-بھارت رویہ

پاکستان کے سویلین اور فوجی حکام سمجھنے لگے کہ کشمیر بھارت کے پاس جا چکا ہے اور لائن آف کنٹرول مستقل سرحد بن گئی ہے۔ پاکستان سے دوستی، امن، اور تجارت کے پیغامات گئے، لیکن بھارت نے سرد مہری دکھائی۔ کشمیر دے کر بھی امن کی آشا پوری نہ ہوئی۔

بلوچستان میں بھارت

امریکا نے پاکستان کو افغانستان اور پٹھانوں سے لڑائی میں الجھایا، جبکہ بھارت کو بلوچستان میں ملوث کیا۔ بھارت بلوچ قوم پرست تحریکوں کی حمایت کر رہا ہے۔ وہاں چینی شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تاکہ چین کے گوادر اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے۔ حال ہی میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کیا گیا، جہاں 26 افراد کو قتل کیا گیا۔ پاکستان کو معلوم ہے کہ اس میں بھارت ملوث ہے۔ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو پاکستان کی قید میں ہے۔

پلوامہ اور فضائی جھڑپ

فروری 2019 کا پلوامہ حملہ اور اس کے بعد پاک-بھارت فضائی جھڑپ دراصل نریندر مودی کو الیکشن جیتانے کے لیے تھی۔ بھارتی انٹیلی جنس، امریکا، اور پاکستان نے مل کر مودی کی مدد کی۔ جب بھارتی پائلٹ ابھینندن ورتھمان پاکستان کے ہاتھ لگا، عمران خان نے صرف دو دن بعد (1 مارچ 2019) اسے رہا کر دیا اور کہا کہ یہ "امن کا اشارہ" ہے اور "امریکا آن بورڈ" ہے۔ اس سے مودی کی مقبولیت بڑھی اور وہ الیکشن جیت گئے۔

پہلگام کا واقعہ

کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 2025 کا حالیہ حملہ حیران کن ہے۔ اس میں 26 سیاح مارے گئے، جبکہ عورتیں اور بچے چھوڑ دیے گئے۔ یہ بھارتی انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی تھی۔ حملہ آور دو گھنٹے کارروائی کر کے آرام سے نکل گئے، اور پولیس ڈیڑھ گھنٹے بعد پہنچی۔ مجرموں کا کوئی سراغ نہ ملا۔

تیسری قوت

پہلگام اور جعفر ایکسپریس کے واقعات میں کسی تیسری قوت کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ اس کا مقصد پاکستانی عوام کی توجہ فلسطین اور اسرائیل سے ہٹا کر بھارت کی طرف کرنا، چین کو اپنی ٹیکنالوجی ٹیسٹ کرنے کا موقع دینا، اور بھارت کو  امریکی  اسلحہ خریدنے پر مجبور کرنا ہو سکتا ہے۔اب  بھارت کی معیشت سے اربوں ڈالر کھینچے جا سکتے ہیں۔

سندھ طاس معاہدہ

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا عندیہ دے کر پاکستان کی زراعت اور معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پانی کی کمی یا سیلاب پاکستان کو تباہ کر سکتے ہیں۔

سید حافظ جنرل عاصم منیر سے گزارش

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ اگر اب ہوش آیا ہے اور دو قومی نظریہ یاد آ گیا ہے، تو:

  • ریاستی اورغیرریاستی قوتوں کو متحد کر کے کشمیر کو آزاد کرائیں۔ پاکستان کا "ک" کشمیر ہے۔ علمائے پاکستان سے معلوم کریں کہ کشمیر کا واحد حل کیا ہے؟ اس وقت لوہا گرم ہے۔ انڈیا کی طرف سے ’’جنگ جاری ہےـ‘‘ کا سگنل آرہا ہے۔
  • پختون بھائیوں کو دشمن نہ بنائیں۔ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات کے پٹھان پاکستان کا حصہ ہیں۔ وہ خوارج نہیں، بلکہ امریکا نواز پالیسیوں کے ناقد ہیں۔ ان کے بغیر جنگ جیتنا ناممکن ہے۔
  • امریکا کی جنگ چھوڑ کر اسلام اور پاکستان کی جنگ لڑیں۔ امریکی جنگ میں کوئی شہید نہیں ہوتا۔

آخرمیں جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم سید منور حسنؒ کا قول:
"اگر ایک امریکی فوجی مر جاتا ہے تو اسے شہید نہیں کہا جا سکتا، تو اس جنگ میں حصہ لینے والا پاکستانی فوجی کیسے شہید ہو سکتا ہے؟"

Comments

Latest

اسرائیل، بھارت، پاکستان، فلسطین اور کشمیر

اسرائیل، بھارت، پاکستان، فلسطین اور کشمیر

حفید اختر مختار  پاکستان پر بھارت کی حالیہ جارحیت درحقیقت اسرائیلی حملے کی ایک توسیع ہے۔ اس کی تازہ ترین وجہ پاکستانی عوام کی طرف سے ریاست سے فلسطین اور القدس کے لیے جہاد کے مطالبے میں شدت ہے۔ یہ مطالبہ پاکستان کے جید علمائے کرام کے متفقہ فتویٰ پر

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

تحریر: حفید اختر مختار جنگِ مہابھارت کا ذکر ہندوؤں کی کئی اہم مذہبی و تاریخی کتب میں آیا ہے، جیسے بھگوت گیتا، ہری ونش پران، وشنو پران اور بھوشے پران وغیرہ، لیکن اس کا تفصیلی بیان مہاکاوی "مہابھارت" میں موجود ہے۔ اس جنگ کو ایسے بیان کیا جاتا

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

راشد مشتاق ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا  آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا تحریکِ اسلامی کے فکری و عملی تسلسل میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا وجود خود ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم بھی ایسی ہی ایک شخصیت

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (مندرجہ ذیل مضمون 1938 میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانانِ ہند، بخوبی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ وہ موجودہ حالات تک کیسے اور کیوں پہنچے۔ دوسری جانب، وہ مہاجرین جو ہجرت کرکےپاکستان آگئے،اور جو