تحریر: حفید اختر مختار
جنگِ مہابھارت کا ذکر ہندوؤں کی کئی اہم مذہبی و تاریخی کتب میں آیا ہے، جیسے بھگوت گیتا، ہری ونش پران، وشنو پران اور بھوشے پران وغیرہ، لیکن اس کا تفصیلی بیان مہاکاوی "مہابھارت" میں موجود ہے۔ اس جنگ کو ایسے بیان کیا جاتا ہے جیسے یہ ماضی میں واقع ہو چکی ہو، بالکل اسی طرح جیسے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غزوۂ ہند بھی ماضی کا واقعہ ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل، یہ دونوں جنگیں ایک ہی عظیم جنگ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور یہ محض دو قوموں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ حق و باطل کی معرکہ آرائی ہے۔
بھارت کے ممتاز عالم دین مولانا شمش نوید عثمانیؒ، جو سنسکرت زبان پر بھی گہری دسترس رکھتے تھے، نے ہندو مذہبی و تاریخی کتب کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ ان کے مطابق غزوۂ ہند اور مہابھارت ایک ہی حقیقت کا پیش خیمہ ہیں، جن کی پیشگوئی پہلے سے موجود ہے، اور یہ جنگ ابھی رونما نہیں ہوئی بلکہ آئندہ زمانے، یعنی دورِ آخر میں پیش آئے گی۔
مولانا لکھتے ہیں ’’بس اسی غزوہ ہند کو ’’مہابھارت‘‘ ویدک زبان میں کہا گیا ۔ جو معرکہ ابھی پیش آنا باقی ہے،اسے ماضی کے واقعات سمجھ کر ان پر بھی افسانے بن گئے۔‘‘تفصیل کے لیے دیکھیے ان کی کتاب اگر اب بھی نہ جاگے تو۔
یقیناً قدیم مذہبی متون میں اصل حقائق وقت گزرنے کے ساتھ مسخ ہو چکے ہیں، مگر مہابھارت سے حاصل ہونے والا بنیادی سبق یہی ہے کہ یہ ایک اصولی جنگ تھی—رشتہ داری بمقابلہ اصول، انا و لالچ کی تباہ کاری کے مقابل سچائی اور عدل کی فتح۔
یہ جنگ کوروؤں اور پانڈوؤں کے درمیان لڑی گئی۔ کورو سو بھائی تھے (گویا ساری دنیا ایک طرف)، اور پانڈو پانچ بھائی تھے (جنھیں پاکستان کی اکائیوں—پنجاب، افغان، کشمیر، سندھ اور بلوچستان—کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے)۔ پانڈو حق پر تھے اور کورو باطل پر۔ پانڈوؤں کو دھوکہ دے کر جلاوطنی پر مجبور کیا گیا، مگر آخرکار وہی فاتح ٹھہرے۔
اب ہم احادیثِ نبوی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میری اُمت کا ایک لشکر ہند پر حملہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو فتح دے گا، یہاں تک کہ وہ وہاں کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لے آئیں گے۔ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے گا، پھر وہ شام کی طرف لوٹیں گے اور وہیں رہیں گے۔"
(مسند احمد: حدیث 22396، جلد 37، صفحہ 81؛ السنن الکبریٰ للنسائی: حدیث 3175، کتاب الجہاد، باب: غزوۃ الہند)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میری اُمت کے دو لشکر ایسے ہیں جنہیں اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے؛ ایک وہ جو ہند پر حملہ کرے گا، اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابنِ مریمؑ کے ساتھ ہوگا۔"(ایضاً)
یہ دونوں احادیث "حسن" درجے کی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا پاک-بھارت کی موجودہ جنگ ہی مہابھارت اور غزوۂ ہند ہے، یا ہمیں کسی اور بڑی جنگ کا ابھی انتظار ہے؟
حال ہی میں پاکستان کے علمائے دین نے ایک تاریخی متفقہ فیصلہ دیا کہ "القدس اور فلسطین کے لیے جہاد اب ہمارے (پاکستانی ریاست) پر فرض ہو چکا ہے۔" اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر علما نے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی معاملات میں متحد موقف اختیار کیا ہے، جو پاکستانی علما کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
اس فتوے کے بعد عوام نے بھی آواز بلند کی اور ریاست سے جہاد کے لیے عملی اقدام کا مطالبہ کیا۔ امیر جماعت اسلامی، حافظ نعیم الرحمٰن نے اس آواز کو بہت قوت بخشی۔ ملک بھر میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے اور فلسطین کے حق میں تاریخی مظاہرے کیے۔ اس سطح کی بیداری دنیا کے کسی اور حصے میں دیکھنے کو نہیں ملی۔
یہی وہ موقع تھا جہاں اسرائیل نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس نے پاکستانی ریاست اور عوام کی توجہ فلسطین سے ہٹانے کے لیے بھارت اور پاکستان کو جنگ میں الجھانے کی سازش کی۔ اس کا آغاز 22 اپریل 2025 کو کشمیر کے پہلگام میں مسلح افراد کے حملے سے نہیں بلکہ 11 مارچ 2025 کو بلوچستان کے ضلع بولان میں جعفر ایکسپریس پر حملے سے ہوا، جہاں 26 مرد شہید کیے گئے اور خواتین و بچوں کو چھوڑ دیا گیا۔ پہلگام کے واقعے میں بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا گیا—26 مرد قتل ہوئے، خواتین و بچے محفوظ رہے۔ یہ دونوں واقعات ایک ہی سازش کی کڑیاں ہیں۔
چھ اور سات مئی کی درمیانی شب، بھارت نے دہشت گردی کے نام پر پاکستان کے شہری ٹھکانوں پر حملہ کیا، جس میں مساجد شہید ہوئیں، قرآن کریم نذرِ آتش ہوئیں، اور عورتوں و بچوں سمیت بے گناہ افراد شہید ہوئے۔ جواباً پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے اور کئی ڈرون مار گرائے۔ اس کے بعد 8 مئی کو بھارت نے اسرائیل ساختہ ڈرونوں کی بارش کر دی۔ ایسے تیس ڈرون پاکستان نے گرا لیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان صرف بھارت سے نہیں بلکہ اسرائیل سے بھی جنگ کر رہا ہے۔
اب پاکستان اور بھارت جنگ کے لیے آمنے سامنے ہیں۔ کیا یہ صرف ایک محدود جھڑپ ہے، یا ایک طویل جنگ کا آغاز؟ اگر ہم محض عسکری طاقت یا فتح و شکست کے بجائے وسیع تر تناظر میں دیکھیں، تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ طول پکڑے گی، اور اسی میں غزوۂ ہند کی پیشگوئی پوری ہو سکتی ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ غزوہ کے نام سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک مقدس جنگ ہے جو صرف حق و باطل کے درمیان ہوگی، اور اس میں بے گناہوں کا خون نہیں بہایا جائے گا۔ میدانِ جنگ میں بھی عورتیں اور بچے محفوظ ہوں گے۔
مشہور سیرت نگار ڈاکٹر حمید اللہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی جنگی حکمتِ عملی یہ تھی کہ کم سے کم جانی نقصان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی جائے۔ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں مجموعی طور پر 74 غزوات اور سرایا (فوجی مہمات) ہوئیں، جن میں شہداء صحابہؓ کی تعداد صرف 250 سے 300 کے درمیان تھی، جبکہ دشمن کی ہلاکتیں تقریباً 1000 سے 1500 رہیں—یہ بذاتِ خود ایک معجزہ ہے۔
اگر غزوۂ ہند اور مہابھارت کا ظہور ہو رہا ہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہم دورِ آخر میں داخل ہو چکے ہیں، اور اس خطے کے لوگ شام، فلسطین اور جزیرۂ عرب میں امام مہدیؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ اس کے بعد دنیا ایک دورِ عدل و امن میں داخل ہو جائے گی۔