Skip to content

جناب مجید نظامی اور اسلامی فلاحی ریاست کا تصور

شاہنواز فاروقی

کوئی ریاست خواہ وہ سیکولر ہو یا مذہبی… مادی ترقی کو اپنا اور معاشرے کا اصل ہدف بنائے اور اس معاشرے میں آویزش اور تصادم پیدا نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔

نوائے وقت کے ایڈیٹر اور معروف دانشور جناب مجید نظامی مرحوم نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ ہم یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کررہے ہیں اور ہم یہاں اسلام نافذ کریں گے، لیکن ہم نے وعدہ خلافی کی، اور اب ہمیں وعدہ خلافی کی سزا مل رہی ہے۔ جنرل ضیا اور کسی حد تک نوازشریف کو بھی سزا ملی۔ انھوں نے اسلامی ریاست کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا یہی ہے کہ اسے فلاحی مملکت بنائیں، غریب کے بچے کو تعلیم دیں، لوگوں کو مکان دیں اور عام آدمی کو علاج معالجے کی سہولتیں دیں۔

نظامی صاحب کی اس بات میں بڑا وزن نظر آتا ہے کہ جنرل ضیا اور نوازشریف نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا وعدہ کیا اور پھر وعدہ خلافی کی، چنانچہ انھیں اس وعدہ خلافی کی سزا ملی۔ لیکن انھوں نے اسلامی فلاحی ریاست کا جو تصور بیان کیا ہے اگر وہ واقعتاً حقیقت بن جائے اور بات اس سے آگے نہ بڑھے تو ہمیں اندیشہ ہے کہ مذکورہ سزا کا سلسلہ جاری رہے گا اور کئی جنرل ضیا یا نوازشریف اس کی نذر ہوجائیں گے۔

پاکستان میں اسلام کے خطرے میں ہونے کی بات اکثر کہی گئی ہے، مگر یہ بات کبھی بھی درست نہ تھی، تاہم جب نظامی صاحب کے مذکورہ خیالات جیسے افکار ہماری نظر سے گزرتے ہیں تو ہمیں خیال آتا ہے کہ مغربی ملکوں کی ترقی و خوشحالی تو بڑی چیز ہے، اگر اس کی ایک جھلک بھی ہمیں میسر آجائے تو پھر پاکستان میں اسلام حقیقتاً خطرے میں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ترقی و خوشحالی کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ مجنوں نے بھی لیلیٰ کو شاید ایسی نظر سے نہ دیکھا ہوگا۔ لیکن بات ہورہی تھی فلاحی ریاست کی۔

نظامی صاحب باخبر اور پڑھے لکھے آدمی تھے ، اس لیے یہ بات تو انھیں یقیناً معلوم ہوگی کہ فلاحی ریاست کا وہ تصور جو مغرب سے آیا ہے اور جسے ہم نے اپنا سمجھ کر سینے سے لگا لیا ہے، بڑی حد تک مغرب کو کمیونزم کی دین ہے۔ اگرچہ کمیونزم کے ظہور سے پہلے ہی یورپ میں صنعتی ترقی کے باعث عمومی خوشحالی کا دور شروع ہوگیا تھا، لیکن اس کے باوجود اقبال کے الفاظ میں وہاںبندۂ مزدور کے اوقات تلخ تھے، چنانچہ مغرب کے سرمایہ دار کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اگر اس نے اپنے نظام میں اصلاح نہ کی تو کمیونزم مغربی یورپ پر بھی قبضہ جمالے گا۔ اس اندیشے کے تحت انھوں نے محنت کشوں کو وہ مراعات دیں جو فلاحی ریاست کے تصور کی بنیاد بنیں۔ لیکن اب جبکہ کمیونزم کا خطرہ فضا میں تحلیل ہوچکا ہے تو مغرب میں فلاحی ریاست کے تصور پر بحث شروع ہوگئی ہے اور وہاں حکومتیں شہریوں کو دی گئی رعایتوں میں معیشت کے نئے رجحانات کو بنیاد بناکر مسلسل کمی کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ فلاحی ریاست کا تصور خطرے میں ہے۔

بلاشبہ اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی پابند ہوتی ہے اور ان اہداف سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسلام فلاح کا جو تصور رکھتا ہے وہ بہت مختلف ہے، اور اس تصور میں مذکورہ ضروریات اہم ہونے کے باوجود ثانوی نظر آتی ہیں۔

کوئی ریاست خواہ وہ سیکولر ہو یا مذہبی… مادی ترقی کو اپنا اور معاشرے کا اصل ہدف بنائے اور اس معاشرے میں آویزش اور تصادم پیدا نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ فرق یہ ہے کہ کہیں اس آویزش اور تصادم کی نوعیت کچھ ہوگی اور کہیں کچھ… لیکن اگر معاشرے اور ریاست کے سامنے اس سے بلند تر مقصد ہو تو پھر مادی ترقی معاشرے کی وحدت کو پارہ پارہ نہیں کرتی۔ نظامی صاحب نے یقیناً غور نہیں کیا ہوگا ورنہ وہ اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوتے کہ روزگار، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتوں کے لیے اسلامی اور غیر اسلامی کی کوئی تخصیص نہیں۔ آخر دنیا میں جو سیکولر اور لادین ریاستیں ہیں، وہ بھی تو اپنے شہریوں کو یہ ساری سہولتیں فراہم کرتی ہیں، اور نہیں کرتی ہیں تو اس کی خواہش اور عزم ضرور رکھتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر پاکستان اسلامی ریاست نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے؟ آخر نظامی صاحب نے یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کرلیا کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے فلاحی ریاست بنائیں، اور فلاحی ریاست کا مفہوم یہ ہے کہ غریب کے بچے کو تعلیم دیں اور لوگوں کو مکان دیں؟

نظامی صاحب کے حوالے سے ہمیں یہ باتیں اس لیے بھی عجیب لگیں کہ وہ فکرِ اقبال کے علَم بردار تھے، اور فکرِ اقبال کو دیکھا جائے تو اس میں کیسے کیسے بلند تصورات زندگی اور معاشرے کے حوالے سے نظر آتے ہیں۔ مثلاً ایک تصور تو مردِ مومن ہی کا ہے۔ اب اگر ہم اقبال کے مردِ مومن اور نظامی صاحب کے فلاحی ریاست کے تصور کی تطبیق کے لیے کچھ موضوعات متعین کریں تو ایسے عنوانات سامنے آئیں :

مردِ مومن اور علاج معالجے کی صورتِ حال
مردِ مومن اور رہائش کا مسئلہ
مردِ مومن اور یونیورسٹی کی تعلیم

بعض لوگ مردِ مومن کو ایک خیالی چیز سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ اور چونکہ ایسا نہیں، اس لیے مردِ مومن پیدا ہوگا تو ظاہر ہے کہ اسے رہنے کے لیے مکان بھی درکار ہوگا۔ وہ اسکول، کالج اور یونیورسٹی بھی جائے گا، اور یہاں نہیں جائے گا تو کسی مدرسے کا رخ کرے گا۔ چونکہ وہ کبھی کبھی بیمار بھی پڑے گا اس لیے اسے علاج معالجے کی بھی ضرورت ہوگی۔ لیکن کیا مردِ مومن کی ضروریات صرف یہی ہوں گی؟ اقبال کی شاعری اس سوال کا جواب واضح اور مدلل نفی میں دیتی ہے۔ چنانچہ ہم مجید نظامی کے متعلق یہی عرض کریں گے کہ خدارا! نظری طور پر پاکستان یا اسلامی فلاحی ریاست کو اتنے معمولی اہداف کے لیے وقف نہ کریں۔ کچھ اور نہیں تو یہ کہیں کہ پاکستان کا آئیڈیل مردِ مومن پیدا کرنا اور اسے اپنے امکانات کے اظہار کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ پاکستان اور اقبال کے شایانِ شان بات تو یہی ہے، ورنہ پاکستان میں اسلام، پاکستان اور اقبال کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی کوئی کمی تو ہے نہیں۔ جناب مجید نظامی صاحب بھی جو چاہیں کہیں، کون پوچھتا ہے؟

Comments

Latest

1946   کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946  کے انتخابات  کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت اسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ ذیل میں ہم وہ مضمون اور اس کا جواب جوں کا توں نقل کر رہے ہیں۔ ۔ مدیر ترجمان القرآن کچھ دنوں سے اخبارات

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے، اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔ جب تک یہ اصول نہ مان لیا جائے ہم کسی انتخاب اور کسی رائے دہی کو حلال نہیں سمجھتے‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جب سے ہم نے مضمون ’’ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے‘

نظامِ کفر کی پارلیمان میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

نظامِ کفر کی پارلیمان میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، وہی کافر ہیں، ظالم ہیں، اور فاسق ہیں۔ (سورۃ المائدہ، آیت 44، 45، اور 47)۔ یہ قرآن کی محکم آیات ہیں۔ آج

مجلسِ قانون ساز (اسمبلی) کی رکنیت شرعی نقطۂ نگاہ سے

مجلسِ قانون ساز (اسمبلی) کی رکنیت شرعی نقطۂ نگاہ سے

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ [مندرجہ ذیل مضمون ترجمان القرآن محرم 1365 ہجری، دسمبر 1945 کے شمارے میں شائع ہوا، جو کتاب ’’تحریک آزادیٔ ہند اور مسلمان‘‘ جلد دوم (صفحہ 233، ایڈیشن 1983، اسلامی پبلیکیشنز، لاہور) میں شامل ہے۔ یہ واضح رہے کہ اُس وقت ہندوستان میں برطانوی راج تھا، اور