Skip to content

پاکستان ـ اسرائیل: کیا پالیسی واقعی الٹ گئی؟  (1)

جاوید انور

1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل کی چڑھائی کی۔ بہت سے تجزیہ کاروں اور سابق امریکی سفارت کاروں کے مطابق یہ آپریشن امریکی اشارے پر ہوا تھا۔ جب بھارت کو مکمل طور پر امریکی کیمپ میں منتقل کرنے اور اس کی معیشت بڑی امریکی کمپنیوں کے لیے کھولنے کے مقاصد پورے ہو گئے تو واشنگٹن نے مشرف کو واپسی کا حکم دے دیا۔ کارگل کے ساتھ ہی مشرف کا پروفائل بلند کیا جا رہا تھا کیونکہ 9/11 کے فوراً بعد افغانستان پر حملے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور امریکہ کو پاکستان میں پارلیمنٹ نہیں، صرف ایک شخص سے ڈیلنگ چاہیے تھی۔ وہ شخص پاک فوج کا سربراہ ہوتا ہے، ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔

چند ماہ بعد اکتوبر 1999ء میں مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا لگا دیا۔ یہ قدم بھی واشنگٹن کی ملی بھگت سے اٹھایا گیا۔ مشرف کے اسرائیل اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے قدیم تعلقات تھے۔ 1993-95ء میں میجر جنرل کے عہدے پر وہ بے نظیر بھٹو کے وفد کے رکن کی حیثیت سے کئی بار امریکہ گئے۔ اسی عرصے میں انھوں نے واشنگٹن میں خفیہ طور پر بے نظیر کو موساد کے افسران اور اسحاق رابن کے خصوصی ایلچی سے ملاقات کرائی (یہ بات متعدد ذرائع اور سابق سفارت کاروں نے بیان کی ہے، دیکھیے  ویکیپیڈیا، انگریزی)۔ اس دور میں ہی ان کے شوکت عزیز سے گہرے دوستانہ تعلقات استوار ہوئے جو سٹی بینک کے عالمی سربراہ تھے۔

9/11 کے بعد مشرف واحد مطلق العنان حکمران تھے۔ انھوں نے امریکی حملے کے لیے پاکستان کی تمام فضائی، بحری اور زمینی سہولیات فراہم کیں۔ اسلامی امارت افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو اسلام آباد سے اغوا کرکے سی آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ سفارتی تاریخ کی بدترین بدمعاشی تھی۔ مشرف نے خود اپنی سوانح عمری ”ان دی لائن آف فائر“ میں لکھا ہے کہ سینکڑوں (بعض اندازوں کے مطابق ہزاروں) پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو صرف داڑھی یا مذہبی لباس کی بنیاد پر پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ سابق سی آئی اے آفیسر جان کرائکو نے  اپنے ایک بھانڈا پھوڑ  ( Whistle Blowing) انٹرویو (اے این آئی/یوٹیوب) میں کھل کر کہا:”ہم نے بنیادی طور پر مشرف کو خرید لیا تھا۔ پاکستانی آئی ایس آئی اور فوج کو کیش میں کروڑوں ڈالر دیے۔ آمروں سے ڈیلنگ آسان ہوتی ہے کیونکہ میڈیا اور عوامی رائے کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔ مشرف نے ہمیں جو چاہے کرنے دیا۔‘‘

’’وار آن ٹیرر‘‘ کے نام پر وزیرستان اور فاٹا میں امریکی ڈرون حملے، مدرسوں پر بمباری، ہزاروں شہری ہلاکتیں، سب کچھ پاکستانی ریاستی مشینری کی آشیرباد سے ہوا۔ یہ سلسلہ آج بھی مختلف ناموں سے جاری ہے کیونکہ اس میں بے پناہ ڈالر آتے ہیں۔

2019ء کا پلواما-بالاکوٹ ڈراما بھی اسی تسلسل کا حصہ تھا۔ سابق گورنر مقبوضہ  جموں و کشمیر ستیہ پال ملک نے 2023ء میں دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سی آر پی ایف کے قافلے پر حملے کی 11 سے زائد انٹیلی جنس وارننگز تھیں، ہوائی جہاز مانگا گیا مگر جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ مقصد؟ مودی کا قومی ہیرو بنانا تاکہ لوک سبھا انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے جیتیں۔ بالاکوٹ میں بھارت نے کوئی دہشت گرد کیمپ تباہ نہیں کیا، چند درخت گرے، مگر مودی کو مطلوبہ ”سرجیکل سٹرائیک“ کا لیبل مل گیا۔ ابھینندن کو فوری رہا کرنا بھی اسی اسکرپٹ کا حصہ تھا۔ بھارت، پاکستان، امریکہ اور اسرائیل سب ایک پیج پر تھے۔

اب 2025ء میں مئی کے وسط میں ہونے والی چار روزہ پاک-بھارت فضائی لڑائی اور اس کے فوراً بعد سیز فائر، کیا واقعی کوئی اتفاقیہ واقعہ تھا؟ یا پھر جنرل عاصم منیر کا قد کاٹھ بلند کرنے، انھیں ”فیلڈ مارشل“ کا درجہ دینے، 27ویں ترمیم کے ذریعے طاقت کا ارتکاز ان کے ہاتھوں میں دینے اور آنے والے بڑے ایڈونچر کے لیے زمین ہموار کرنے کا مرحلہ تھا؟

یہ بڑا ایڈونچر کیا ہو سکتا ہے؟افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف نیا آپریشن، ابراہم اکورڈز  کی قبولیت، پاکستان کا اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرنا، اور ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستانی فوج کی براہ راست یا بالواسطہ شمولیت۔ظاہری تصویروں، بیانات اور واویلا کے باوجود زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ بھارت ہو یا پاکستان، دونوں ممالک کی فوجی (بھارت میں  سیاسی)  قیادتیں ایک ہی بیرونی طاقتوں کے مفادات کی زنجیر سے جکڑی ہوئی ہیں۔

  پاکستان میں27ویں  آئینی ترمیم نے آخری رکاوٹ بھی ختم کر دی ہے۔ اب واشنگٹن کو نہ پارلیمنٹ سے سروکار ہے، نہ میڈیا سے، نہ عوام سے۔بس ایک فون کال کافی ہے۔
اور لنچ بہت’’ پرلطف‘‘ ہو سکتا ہے۔

(خونی لنچ کی حقیقت اور آنے والا خونریز پلان — اگلی قسط میں)

WhatsApp Channel: AsSeerah

E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com

Subscribe: AsSeerah+subscribe@groups.io

Follow:  AsSeerah Facebook Page         AsSeerah X     

Be the Writer’s Friend   

https://www.facebook.com/JawedAnwarPage

Comments

Latest

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (2)

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (2)

جاوید انور  پاکستان کے آئین میں 27ویں ترمیم نے پاکستانی عدلیہ کو تو ڈھیر کر ہی دیا ہے، اور اس پر بہت کچھ شائع ہو رہا ہے اور وکلاء اور میڈیا میں زیر بحث ہے۔ لیکن جس بات پر کم بات ہو رہی ہے، وہ ملٹری ڈکٹیٹرشپ کو آئین طور

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (1)

فوجی آمریت کا آئینی تحفظ (1)

جاوید انور پاکستان کے آئین میں جو 27ویں ترمیم ہوئی ہے، اسے تاریخی، فوجی، عالمی اور علاقائی جیو پالیٹکس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امن کے راستے کی باتیں تو کرتے ہیں، مگر دراصل وہ جنگ کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں۔ انہوں نے اپنے محکمہ

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست

جاوید انور حالات حاضرہ اور عالمی و علاقائی جیو پولیٹکس میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کا بنایا ہوا نام نہاد امن معاہدہ دراصل فلسطین کے مکمل خاتمہ اور گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت کا معاہدہ ہے۔ اسرائیلی قیدیوں کی واپسی، اور