Skip to content

پروفیسر خورشید احمد: کثیر الجہت شخصیت کی نمایاں خصوصیات

Professor Khursheed Ahmed (b.23 March 1932 – d. 13 April 2025) 

راشد مشتاق

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا 

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

تحریکِ اسلامی کے فکری و عملی تسلسل میں چند شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کا وجود خود ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد مرحوم بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے۔

 خورشید بر روئے زمیں 

خورشید احمد بالیقیں 

اس قافلے میں دور تک 

تیری طرح کوئی نہیں

 ڈاکٹر محمد اورنگ زیب رہبر کے یہ اشعار پروفیسر خورشید احمد کی عظمت، انفرادیت، بلند مقام و مرتبہ اور غیر معمولی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔

پروفیسر خورشید احمد محض ایک فرد نہیں، ایک عہد، ایک تحریک، اور ایک دبستانِ فکر کا نام تھے۔ ان کی زندگی کثیر الجہت اور ہمہ جہت خوبیوں کا مظہر اور فکری و عملی جدوجہد سے عبارت تھی۔ ان کی شخصیت میں جو توازن، ڈسپلن، وسعتِ فکر و نظر، علمی جامعیت، مقصدیت، تحمل و شائستگی پائی جاتی تھی، وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خاکسار نے پروفیسر خورشید احمد مرحوم کی شخصیت سے متعلق خوبیاں چند عنوانات کے تحت سمیٹنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے جو ایک شاگرد اور طالب علم اپنے استاد و مربی کے لیے کر سکتا ہے۔

بین الاقوامی شناخت اور فکری نمائندگی

پروفیسر صاحب کی پہچان صرف قومی سطح تک محدود نہ تھی۔ اسلامی معاشیات کے اولین معمار اس عظیم مفکر نے متعدد بین الاقوامی فورمز پر اسلام، پاکستان اور تحریکِ اسلامی کی نمائندگی کی۔ ان کی تحریریں اور لیکچرز اسلامی معیشت، سیاست اور معاشرت پر گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں اور دنیا بھر کے علمی و تحقیقی حلقوں میں معتبر سمجھے جاتے ہیں۔

وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قریبی رفقاء میں سے تھے اور مولانا کی فکر کے بہترین شارح تھے۔ انہوں نے یورپ اور مغربی دنیا میں فکرِ مودودی  کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ اسے مغربی تناظر میں قابلِ فہم بھی بنایا اور اس کے اثرات کو مزید وسعت دی۔ عالمی اسلامی تحریکوں سے ان کے مضبوط روابط تھے۔ جماعتِ اسلامی کے بیرونی سرکلز کی سرپرستی، رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ تحریکِ اسلامی سے باہر، سیکولر اور مذہبی حلقوں سے بھی ان کے روابط باہمی احترام، محبت و تعاون کی بنیاد پر استوار تھے۔ ان حلقوں سے علمی گفتگو ان کی کشادہ نظری کا مظہر تھی۔

 وسعتِ قلب و نظر

پروفیسر خورشید احمد نہایت دوراندیش، باریک بین اور حاضر دماغ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ تخلیقی اور منصوبہ ساز ذہن رکھتے تھے۔ ان میں قوتِ ارادی، فیصلہ سازی، پالیسی سازی اور ادارہ سازی کی غیر معمولی صلاحیت موجود تھی۔ انہیں اس کا بھرپور ادراک تھا کہ کن گوشوں میں کام ہو رہا ہے اور کہاں کام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فکری و عملی تجاویز کو ادارہ جاتی شکل دی، چاہے وہ اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر ہو یا انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS)۔ آخری سانس تک تحقیقی کاموں اور ماہنامہ ترجمان القرآن کی ادارت کی نگرانی میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہے۔ تحریکِ اسلامی سے متعلق مختلف مواد کو تلاش کرنا، مرتب کرنا اور نئی نسل کے سامنے قابلِ استفادہ بنا کر پیش کرنا، ان کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ نوجوانوں کی سرپرستی کا انداز مثالی تھا، جو ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا ایک درخشاں پہلو تھا۔ وہ ایک تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیت تھے۔

علمی جامعیت و فکری تنوع

انہوں نے علمی میدان کا شعوری انتخاب کیا اور اس میں بلند مقام حاصل کیا۔ ان کی علمی گہرائی، وسیع المطالعہ شخصیت، اور تنقیدی تجزیے کی صلاحیت بے مثال تھی۔ وہ جتنا لکھتے، اس سے کہیں زیادہ مطالعہ کرتے۔ عصرِ حاضر کے چیلنجز اور تحریکی و دینی ضروریات کو مدنظر رکھتے ایک ایسا منصوبہ بند (planned) اور مقصدی (goal oriented) مطالعہ جو ان کی فکر و بصیرت کو مسلسل صحت مند غذا فراہم کرتا رہتا۔ مطالعہ کے مقاصد کے حصول کے لیے اس میں تنوع (diversity) اورانتخاب (selection) کا پہلو ہمیشہ ان کے پیشِ نظر رہتا۔

ان کی تحریریں محض خیالات کی ترسیل نہیں بلکہ تحقیق، مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہوتی تھیں۔ حال اور ماضی کے تنقیدی تجزیے کی بنیاد پر مستقبل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ قدیم و جدید علوم کا حسین امتزاج تھے۔ ہر نشست اور اجلاس کے نوٹس لینا، معلومات جمع کرنا، اور خود اپنے مطالعہ، علوم، مشاہدات و تجربات سے حاصل کردہ مواد کو مرتب کر کے تجزیہ کرنا، نتائج اخذ کرنا اور ان سے کام لینا—یہ انہی کا خاصہ تھا۔

ان کی زندگی کسی خاص علمی یا فکری دائرے تک محدود نہ تھی۔ وہ بیک وقت اسلامی نظریۂ حیات، مغرب میں دعوتِ اسلامی، تہذیبی کشمکش، اسلامی نظامِ تعلیم، اسلامی سیاست ومعیشت، رائج قانون و دستور، فلسفہ، ادب، دینی اور انسانی ضروریات کے علوم میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ بے شمار کتب تصنیف و مرتب کیں۔ دینی و علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی قومی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں "پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ"، "شاہ فیصل ایوارڈ" اور پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز "نشانِ امتیاز" نمایاں ہیں۔

پروفیسر  خورشید پاکستان کی سینیٹ کے رکن، وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی اور حکومتِ پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

وہ ایک بہترین مدبر و مفکر، معلم و محقق، مرشد و مربی، مصلح و منتظم، مصنف و ادیب تھے۔

 منضبط اور مقصدیت کی زندگی

پروفیسر صاحب انتہائی منظم، ڈسپلن اور اطاعتِ نظم کے پابند تھے۔ مشن سے قلبی و شعوری وابستگی رکھتے تھے۔ وہ اخلاقی و ایمانی قوت، فکری اصابت، راہِ خدا میں ثبات و استقامت کا بہترین نمونہ تھے۔ ان کا اخلاص، جذبہ و لگن، محنت اور ذہنی یکسوئی ناقابلِ تصور تھے۔ صرف بامقصد مشاغل میں مصروف رہتے اور لمحہ لمحہ اقامتِ دین کے مشن کے لیے خود کو وقف رکھا۔

بہت سے نظریاتی لوگ غیر عملی دنیا میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں، لیکن پروفیسر صاحب ایک عملی (Practical) انسان تھے۔ ان کی پوری زندگی گواہ ہے کہ وہ محض نظریاتی شخصیت نہیں تھے بلکہ فکری خاکے کو عملی جامہ پہنانے کے فن سے آشنا تھے۔ سیاست ہو یا معیشت، رائج الوقت نظام میں سے راستے اور گنجائش نکالنے اور بتدریج اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ فکرِ مودودی نے سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ نظامِ معیشت پر جو کاری ضرب لگائی، اس سے آگے کے راستوں کو ہموار کرنے میں پروفیسر خورشید احمد نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلامی معیشت کے نظریاتی خاکے کو عملی دائرے میں اتارنے کا جو کام انہوں نے کیا، وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اسی لیے وہ اسلامی بینکنگ کے اولین معماروں میں سے ہیں۔

 حلم، شائستگی اور انکساری

بڑی شخصیات کا اصل امتحان عجز و انکساری میں ہوتا ہے۔ پروفیسر خورشید احمد کے لہجے میں وقار، مزاج میں شائستگی اور رویے میں برداشت تھی۔ وہ اختلافِ رائے کا احترام کرتے اور اسے وسعتِ نظر سے دیکھتے تھے۔ دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنے اور اس سے سیکھنے کی خوبی بھی ان میں پائی جاتی تھی۔ خود کو علمی تفوق کے باوجود کبھی نمایاں کرنے کی کوشش نہ کرتے۔

پروفیسر خورشید احمد کی شخصیت میں جس قدر علمی وقار تھا، اسی قدر انکساری و بردباری بھی پائی جاتی تھی۔ اپنی شخصیت کا رعب ڈالنے سے پرہیز، اجتماعی زندگی کے ہر ادب پر مکمل کاربند ، عملی حسن کا بہترین نمونہ تھے۔ ان کی سادگی اور بے لوثی ان کے اخلاص کا مظہر تھی۔ شہرت کی طلب سے کوسوں دوری اور حبِ جاہ سے بے نیازی ان کی شخصیت کو مزید معتبر بناتی ہے۔ انہوں نے جتنے بڑے علمی، تحقیقی اور تحریکی کام کیے، ان سے کبھی کوئی ذاتی یا خاندانی مفاد، اگر جائز بھی تھا، حاصل نہ کیا۔

جب بھی اُن کی شخصیت کو قلمبند کرنے بیٹھتا ہوں، ان کے اوصاف کا ایک نیا باب میری سوچ کے دریچے پر دستک دینے لگتا ہے۔

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی 

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

پروفیسر خورشید احمد ہم سے جدا ضرور ہو گئے  لیکن ان کا علمی، فکری و تحریکی ورثہ آئیندہ نسلوں اور زمانوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ وہ علم و دانش کے افق پرایک روشن آفتاب تھے، جو فکر و عمل کی اندھیری راہوں میں روشنی بکھیرتا رہے گا۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے قلم سے ایسی تحریری خوشبوئیں بکھیری ہیں جو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے اور دینی، تحریکی، قومی و ملی خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے – آمین

فَما كانَ قَيْسٌ هَلْكُهُ هَلَكُ واحِدٍ   وَلٰكِنَّهُ بُنيانُ قَوْمٍ تَهَدَّما

قیس کا مرنا صرف ایک فرد کا مرنا نہ تھا بلکہ وہ ایک پوری قوم کی بنیاد تھی جو ڈھے گئی

 راشد مشتاق

رکن اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ

ای میل: rashidmushtaq15@gmail.com

واٹس ایپ نمبر: 6239286 (412) 1+

Comments

Latest

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

مہابھارت، غزوۂ ہند اور پاک-بھارت جنگ

تحریر: حفید اختر مختار جنگِ مہابھارت کا ذکر ہندوؤں کی کئی اہم مذہبی و تاریخی کتب میں آیا ہے، جیسے بھگوت گیتا، ہری ونش پران، وشنو پران اور بھوشے پران وغیرہ، لیکن اس کا تفصیلی بیان مہاکاوی "مہابھارت" میں موجود ہے۔ اس جنگ کو ایسے بیان کیا جاتا

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

قومی (National)، جمہوری (Democratic)، لادینی (Secular) اسٹیٹ :کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ (مندرجہ ذیل مضمون 1938 میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، یعنی مسلمانانِ ہند، بخوبی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ وہ موجودہ حالات تک کیسے اور کیوں پہنچے۔ دوسری جانب، وہ مہاجرین جو ہجرت کرکےپاکستان آگئے،اور جو

1946   کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی

1946  کے انتخابات  کے موقع پر مسلم لیگ کے ایک پر جوش حامی نے جماعت اسلامی کے مسلک پر تنقید کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا۔ ذیل میں ہم وہ مضمون اور اس کا جواب جوں کا توں نقل کر رہے ہیں۔ ۔ مدیر ترجمان القرآن کچھ دنوں سے اخبارات

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

کتاب اللہ کی سند سے آزاد قانون سازی شرک ہے

’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے، اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہئے۔ جب تک یہ اصول نہ مان لیا جائے ہم کسی انتخاب اور کسی رائے دہی کو حلال نہیں سمجھتے‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جب سے ہم نے مضمون ’’ہمیں ووٹ نہیں دینا ہے‘