Skip to content

ربوٰ، حلال، حرام, اضطراراور مکان

جاوید انور

یہاں شمالی امریکا ( امریکا اور کینیڈا) میں برصغیر سے جو  لوگ  بیسویں صدی کے ساٹھ اور ستّر کی دہائی  میں آئے ، انھیں اکثر جگہوں پر کہیں بھی حلال گوشت میسر نہیں تھا۔  جو لوگ  گوشت کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ، انھوں نے یہودیوں کا ’’کو شر‘‘ (Kosher) کھانا شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ گوشت حلال اس وقت  ہوتا ہے جب   حلال جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اور اس کا خون نرخرا سے پوری طرح نکل جائے،اور جھٹکے سے ذبح کرکے اس کی گردن نہ اتاری گئی ہو۔ یہودی مذبحہ خانوں کے بارہ میں پتہ یہ چلا   کہ وہاں ایک یہودی رِبّی صبح سویرے ایک جانور (گائے، مرغی، بکرا وغیرہ)  اپنے شرعی طریقہ سے ذبح کرکے چلا جاتا ہے، اور اس کے بعد اس    دن میں جتنے بھی جانور ذبح ہوتے ہیں  وہ سب مشین سے  اور جھٹکے سے ذبح ہوتے ہیں۔ یہودی شریعت کے ساتھ کھِلواڑ کرنے میں  بہت  ماہر اور پرانے مجرم ہیں۔ ہمارے یہاں کے برادرانِ عرب کی اکثریت  قرآن کے اس لفظی معنی میں جاتے ہیں کہ ’’ آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں۔ اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا انکو حلال ہے۔‘‘  (سورۃ المائدہ: آیت 5)، لیکن یہ کھانا اسی وقت تو حلال ہو سکتا ہے جب  1۔ وہ واقعی اہل کتاب ہوں  2۔ اور  غیر اللہ کے نام سے ذبح نہ کریں، اور 3۔ ذبح اس طرح کریں کہ جانور  کے اندر کا خون  نکل جائے ( خون حرام ہے)۔ برصغیر  کے   علماء اس بات پر متفق ہیں  کہ اہل کتاب کا کھانا اب حلال نہیں رہا ہے۔’’  موجودہ  دور کے اکثر یہود ونصاریٰ ملحد، دہریہ، سائنس پرست اور نجوم پرست ہیں، صرف نام کے اہلِ کتاب ہیں، ان کو مذہب سے بالکل لگاؤ نہیں، بلکہ ان کے اقوال وافعال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے بے زار ہیں تو ایسے یہود ونصاریٰ کو "اہلِ کتاب" کہنا صحیح نہیں اور ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں؛ اس لیے حلال اور غیر مشتبہ چیز کو چھوڑ کر مشتبہ چیز اختیار نہ کی جائے اور ان کے ذبیحہ سے مکمل احتراز کیا جائے۔‘‘(بنوری ٹاون، کراچی دارالافتا ء)

یہاں برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کوشر کی طرف نہیں گئی۔ کچھ لوگ ہی عربوں کی تقلید میں ان کے دیکھا دیکھی کوشر بلکہ عام   مروجہ  حرام ذبیحہ گوشت کی طرف بھی  گئے۔ پھر ایک وقت آیا  ،مشین سے کیا گیا حلال ذبیحہ دستیاب ہونے لگا۔ایک بڑی تعداد اس کی طرف چلی گئی۔ لیکن ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے  اب بھی صبر کیا۔ اور اس صبر کے نتیجہ میں یہاں  ہاتھ سے کیا گیاحلال ذبیحہ کا دور شروع ہوگیا۔ آپ کو مشرق وسطیٰ میں اور سعودی عربیہ میں  ہاتھ سے کیا گیا ذبیحہ حلال نہیں ملے گا، لیکن  شمالی امریکا کے ہر شہر میں جہاں  جہاںمسلمان  آباد ہیں یہ گوشت مل جائے گا۔اب  آن لائن  خریداری  اور ڈاک سے دستیابی  سے یہ  بھی ممکن ہوا کہ جہاں مسلم کم تعداد میں ہیں، وہ بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ہاتھ سے کئے گئے ذبیحہ کی موجودگی میں مشین ذبیحہ پر اسرار کرنا، اور ان کے لیے فتوے بازی درست نہیں ہے۔ یہ متجدد علما ء کی باتیں ہیں،  فتویٰ جن  کا   دھندا ہے۔

برصغیر   یعنی پاکستان، بنگلہ دیش، اور بھارت کے مسلمانوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے  کہ ان کی وجہ سےیہاں ہاتھ کا ذبیحہ دستیاب ہے۔ اس سلسلے میں ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ لیکن حلال ذبیحہ غذا کے ساتھ  ان کی ذرائع آمدنی  حلال ہونی چاہیے، اس کی فکر کم ہے۔   انھیں حرام کے ڈالر سے حلال  فرائیڈ چکن چاہیے۔ یہ تضاد ابھی باقی ہے۔ اس تضاد کی وجہ سے ہی سود کے معاملہ  میں وہ لاپرواہی کا شکار ہو ئے۔ کہنے لگے کہ وہ سود میں اس لیے داخل ہوئے کیونکہ ان کی حالت اضطراری (Emergency situation, Extreme necessity)  بن چکی ہے ۔ انھوں نے اس حدیث کا سہارا لیا کہ جب تم بھوک سے مر رہے ہو تو حرام  غذا کھا کر جان بچا سکتے ہو۔

 حرام کھانا کسی صورت میں حلال  نہیں ہوتا، البتہ اگر بھوک سے جان کنی کی کیفیت ہو اور جان بچانے کے لیے کوئی حلال چیز دست یاب نہ ہو تو ایسی صورت میں اتنی مقدار جس سے جان بچ جائے حرام  چیز کو کھا کر یا پی کر جان بچانے کی اجازت قرآنِ مجید (البقرہ آیت  173) میں  اللہ رب العزت نے دی ہے،  اور اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں بھی حرام چیز کے استعمال کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ مشروط کردی ہے: {غیر باغ ولاعاد} یعنی نہ تو طالبِ لذت ہو اور نہ ہی حد سے تجاوز کرنے والا ہو، نہ تو اس حرام چیز کی لذت وذائقہ مقصود ہو اور نہ  پیٹ بھرنامقصود ہو۔ اور  اس صورت میں بقدرِ ضرورت حرام کھانے یا پینے کے گناہ کو اللہ رب العزت نے معاف فرمادیا ہے ۔ حرام کھانے کی علّت زندگی کو بچانا ہے۔ یہاں  زندگی کے بچانے کو فوقیت حاصل ہے۔  کیا مکان خریدنے کی علّت کسی بھی حال میں ’’جان بچانا‘‘ ہو سکتا ہے؟  آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

یہاں گریٹر ٹورنٹو ایریا (GTA) میں اوسطًا  ایک رہائشی گھرکی قیمت ایک ملین ڈالر ہے۔ آج کل بیس فی صد  پیشگی ادائیگی  (Down Payment) کے بغیر  مارگیج نہیں  مل سکتا ہے۔ تکمیلِ  خرید(Closing) کے لئے پچاس ہزار ڈالر مزید چاہیے ۔یعنی مکان مارگیج  کے لیے  ڈھائی لاکھ ڈالرز کی فوری ادائیگی ہونی ہے۔ واضح رہے کہ ایسا ہی ایک پورا مکان مع  تہہ خانہ  (Basement) کے  پانچ ہزار ڈالرز کرایہ  پر مل جاتا ہے۔ یعنی اس شخص کے پاس  پچاس  ماہ کا کرایہ ہاتھ میں ہے۔  پھر بھی   یہ  ’’بندہ مومن‘‘ مکان خریدنے کے لیے  ’’اضطراری‘‘ صورت  حال کا حیلہ  نکال رہا ہے۔ واضح رہے کہ  ٹورنٹو اور اس  سے منسلک درجن بھر شہروں میں  کرایہ کا اپارٹمنٹ، کونڈو،  ٹاون ہاوسز، اٹیچڈ اور  ڈیٹیچڈ گھر کرایہ پر دستیاب ہیں۔ یہی صورت حال امریکا کے بڑے شہروں کا بھی ہے۔

 دس یا  بارہ سال پرانی بات ہے۔ یہاں  ٹورنٹو   ڈاوُن ٹاون کے ایک بڑے ہوٹل میں اسلامک فنانس پر ایک بڑا ہائی پروفائیل   کانفرنس منعقد ہوا تھا۔اس کا نفرنس میں انگلینڈ سے ایک عالمِ دین  آئے ہوئے تھے، ان کا نام ہے،مفتی  برکت اللہ قاسمی۔تعارف میں ہمارے ایک مشترکہ دوست کا نام آ گیا تو میں ان کو اپنے ساتھ لے کر چند گھنٹے کے لیے اپنے  اپارٹمنت میں لے آیا۔اس  علاقہ میں ایک لائن سے اتنے بڑے بڑے  رینٹل ہائی رائز بلڈنگزRental High-rise buildings) ) دیکھ کر بہت متعجب ہوئے، اور کہا کہ ہمارے یہاں  ایسی  کرایہ کی عمارتوں   کا تصور ہی نہیں ہے۔  ہمارے دیسی لوگ  اگر گھر کرایہ پر لینے جائیں تو    برطانوی گورے تعصب میں کرائے پر نہیں دیتے ہیں۔ ان سے گفتگو کے نتیجے میں  ہم علامہ یوسف القرضاویؒ کا وہ فتویٰ کہ انتہائی  ضرورت یعنی اضطرار میں ایک مکان رہائش  کے لیے مارگیج ( سود) پر لیا جا سکتا ہے،  کو سمجھنے کی بھی کوشش کی۔ اور آج کل انگلینڈ کے  اکرم ندوی صاحب  تو یہ کہ رہے ہیں کہ  جس طرح گاڑی کے لیے انشورنس لینا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ  ضروری ہے مکان کا خریدنا ۔ اور ان کے نزدیک   اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق سو فی صد شریعہ موافق کوئی پروڈکٹ نہیں ہے۔ اور  ستّر فی  صد اور اسّی فیصد شریعت موافق ہونا  بے معنی باتیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی مارگیج  کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ صرف محض چند الفاظ ہیں۔   شریعت  موافق کہلانے والے  پروڈکٹ  شریعت کے مطابق نہیں ، وہ زیادہ مہنگے، اور ناقابل اعتبار ہیں۔ وہ آپ کو لوٹ رہے ہیں اوردھوکہ دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں  نام نہاد اسلامی بینک صرف اور صرف امیر لوگوں کے لیے ہے، امیر علاقوں میں ہے، کسی غریب علاقے میں نہیں اور  نہ غریب لوگوں کے لیے  ہیں،جب کہ  شریعت اسے غریب لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔اکرم ندوی کی یہ ساری باتیں   درست ہو سکتی ہیں۔ لیکن ان دلائل سے سود پر مکان لینے کو جائز کرنا ،ان کی زیادتی ہے۔ ایسے عالم سے بہت دور رہنے کی ضرورت ہے۔ جاوید غامدی تو عالم  کے شمار میں بھی نہیں آتے۔ انھیں نہ دین کا علم ہے ، نہ دنیا کا۔وہ بینکنگ اور فنانس کے ابجد سے  بھی واقف نہیں ہیں۔ وہ اپنی ہی کہی ہوئی اور لکھی ہوئی   ہر بات اور ایک ایک بات سے منحرف ہو رہے ہیں۔ اور امریکی تھینک ٹینکز کا تخلیق کردہ  (پوپْلا) اسلام  کے پرچارک بن چکےہیں۔ اس لئے ان کا ذکر کرنا وقت کا ضیاع ہے۔

برصغیر سے  شمالی امریکا آنے والوں کی  بھاری اکثریت اونچے مڈل کلاس، یا کم از کم  مڈل کلاس  سے   تعلق رکھتی ہے،یہاں  غربا ء نہیں آئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کے پاس  اپنا گھر تھا،   اپنی اچھی ملازمت تھی یا اپنا کاروبار تھا۔   سوال یہ ہے کہ ہجرت دین کو بہتر اور اس کو سنوارنے کے لیے کی جاتی ہے یا دین کو خراب یا ضائع کرنے کے لیے؟  کیا اپنا خریدا ہوا  یا وراثت میں ملا مکان اور اسباب زندگی  چھوڑ کر  ہجرت کرکے سود کے مکان میں رہنا کسی بھی طرح جائز ہو سکتا ہے؟ کیا یہ اضطرار کی حالت ہے؟ یہ کیسی ہجرت ہے جس میں دین  غرق ہو رہا ہے اور خالص حرام کام کے لیے  فتوے تراشے جا رہے ہیں؟

اگر مسلمان صبر کرتے جس طرح حلال ذبیحہ کے حوالے سے صبر کیا تھا تو  آج سود  کے بغیر کوآپریٹو  یا تجارتی بنیاد پر  وافر تعداد میں ان کو گھر مل جاتا ۔ ”  اور یہ کہ انسان کے لئے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے سعی کی “   (سورۃ النجم آیت 39) ۔ ایک اور دلیل اہل سود  کی طرف سے یہ دی جاتی ہے کہ پورا ملک ، بلکہ پوری دنیا سود میں ڈوبی ہوئی ہے، تو آپ سود سے کیسے بچ سکتے ہیں، آپ کو آخر کار اپنا اکاؤنٹ تو وہیں رکھنا ہوتا ہے۔ اس  معاملہ میں میرا جواب وہی ہے جو ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ہے کہ  سمندر کا  کنارہ بھی ہوتا ہے اور اس کا مَنجدھار  بھی۔  ایک شخص سمندر کے کنارہ پر ایسا کھڑا ہے جیسے کہ اس کے صرف ٹخنے  بھیگے ہوں، کیا وہ اس طرح کا ہو سکتا ہے جو  بیچ سمندر میں غوطہ لگا رہا ہے۔ پہلا شخص تو جیسے ہی موقع ملا، نکل جائے گا لیکن دوسرا  والا تو غرقاب ہو کر ہی برآمد ہوگا۔

What's app: +1.416.568.8190

Facebook/JawedAnwarPage

X/Asseerah

Comments

Latest

سود کا لین دین: قرآن ، سنت و سیرت

جاوید انور    ’’اوراس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:’’تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف

سود کی آندھی اور ابن المال

جاوید انور ٹو رونٹو میں ہمارے  پڑوس، ہمارا محلہ، ہمارا علاقہ کرایہ داروں کا علاقہ ہے یہاں بیسیوں  بہت اونچی ، اور  بیسیوں  کم اونچی عمارتیں ہیں ۔ یہ سب اپارٹمنٹ بلڈنگ ہیں جو کسی نہ کسی مینیجمنٹ کے تحت چلتی ہیں۔  ہمارا کام صرف کرایہ  ادا کرنا ہوتا ہے،  بقیہ اپارٹمنٹ

اَہلِ سود کی اسلامی جماعت

جاوید انور ہماری آنکھوں کے سامنے  افغانستان نے  دنیا کے دو سوپر پاورز سوویت یونین اور امریکا سے یکے بعد دیگرے طویل جنگ کی، اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ لیکن  یہ بھی معلوم رہے کہ  اس سے قبل افغان قوم سیکڑوں سال سے  اللہ اور اس کے رسول

میرا مکان کیسا ہو؟

میرا مکان ایسا ہوا جس کا ایک تنکا بھی حرام کا نہ ہو۔ میرا مکان ایسا ہو جس میں  سود کا دھواں  تک نہ پہنچے۔ میرا مکان ایسا ہو جس میں کسی کا قرض نہ ہو۔ میرا مکان ایسا ہوجہاں کوئی ناگوار بات سنائی نہ دے۔ میرا مکان ایسا ہو