Skip to content

جاوید انور

شورائیت اسلامی نظام ِاجتماعیت اور سیاست ہے، جمہوریت مغربی نظامِ اجتماعیت اور سیاست ہے۔

شورائیت  میں اہل الرائے کی رائے لی جاتی ہے، جمہوریت میں بالغ رائے دہندگی ہے۔

شورائیت میں بندوں کوتولا کرتے ہیں جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں۔

شورائیت میں جمہورعلماء کی رائے کی اہمیت ہے جمہوریت میں عالم او جاہل سب برابر ہیں۔

شورائیت میں موسیٰؑ اور ہارونؑ کی رائے کی اہمیت ہے، جمہوریت میں سامری  کے پیروکاروں کی ۔

شورائیت  پر اللہ کا سایہ ہوتا ہے، جمہوریت پر شیطان کا۔

شورائیت  کا ماخذ  شریعت ہے،  جس میں  اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دیے ہوئے، احکام  کی اہمیت اور احترام ہے، جمہوریت کا ماخذ عوام کی  خواہشات نفس کی اہمیت اور احترام ہے۔

شورائیت کا مقصد شریعت مطہرہ ہے اور جمہوریت کا مقصد جدید جاہلیت (لبرلزم، نیشنلزم، اور سیکولرزم)۔

مقاصد شریعت میں انسانی معاشرہ کے لیے حریت، عدل،  مساوات، احترام انسانی، اور تکافل  کا قیام ہے، جمہوریت انسان کے تمام سنجیدہ مسائل کو ہجوم کے حوالے کرکے انسانیت کو غلامی، ظلم، بے قدری اور نان شبینہ کا محتاج بنا دیتی ہے۔

اسلامی شریعت اور شورائیت تمام انسانوں کو آدم اور حوا کی اولاد سمجھ کرانسانوں کو ایک برادری تسلیم کرتی ہے، جمہوریت کی سرشت میں اقلیت کی نسل کشی ہے۔ سب سے پرانی جمہوریت امریکا، سب سے بڑی جمہوریت انڈیا اور مشرق وسطیٰ کی  اکلوتی جمہوریت اسرائیل  کی خونیں تاریخ  ہمارے سامنے ہے۔دور جدید کی جمہوریتوں نے اس دنیا میں جتنا خون بہایا ہے اتنا تاریخ میں کبھی نہیں بہا۔ جنگ اول اور دوم میں شامل تمام خونخوار ممالک  جمہوری ہی تھے۔ ان کے سارے آمر اور فاسشٹ  حکمراں جمہوری تھے، بالغ رائے دہی سے منتخب ہوکر آئے تھے۔

حضرت عمر فاروقؓ  سے بڑا کوئی فقیہ نہ گزرا ہے اور نہ آئندہ  آئے گا۔ آپ ؓ کے بارے میں اللہ کے رسول محمد ﷺ نے کہا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر فاروقؓ ہی ہوتے۔ حضرت عمرؓ نے تمام صحابہ ؓکی یا ان کی اکثریت کی شوریٰ نہیں بنائی تھی ، اس میں سے صرف چھ چنندہ صحابہ اکرامؓ کی شوریٰ بنائی تھی  جو اس وقت صالحیت اور صلاحیت دونوں اعتبار سے صف اول کے لوگ تھے۔انھوں نےوصیت کی  تھی کہ ان کے بعد  انھیں چھ میں سے ایک، اور انھیں چھ کے مشوروں سے خلیفہ بنیں گے  ۔ حضرت عمر ؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ انھیں چھ کی شوریٰ میں سے اگلے خلفاء ہوئے  ۔ سلف کے یہی طریقے ہمارے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔

دور جدید میں ایران میں امام خمینیؒ کی قیادت میں علماء جمع ہوئے۔ اور ان علماء  کی طویل قربانیوں کے بعد عوام ان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے۔ایران کا اسلامی انقلاب علما ءکا ہی مرہون منت ہے۔

افغانستان میں  ملا عمرؒ کی قیادت میں علمائے کرام جمع ہوئے۔ بلکہ دین کے طلبا ءاورعلما ء نے اپنا قائد خود چنا۔ افغانستان میں اسلامی انقلاب پایہ تکمیل کو پہنچا۔ امریکا نے بمباری کرکے ان کو کابل سے ہٹا دیا۔ لیکن بیس سال  کے جہاد اور شہادت کے بعد  انھوں نے اپنے دشمن کو مار بھگایا۔ افغانستان میں پہلے دن سے ہی دین قائم اور شریعت نافذ ہے۔

ترکی میں ’’ جمہوری اسلامی انقلاب‘‘  23سال قبل آیا۔ آج تک نہ دین قائم ہوا،اور نہ شریعت نافذ ہوئی۔ شراب، جوا، سود،سُوور سب جاری وساری ہے۔ ترک قوم پرستی اور سیکولر ترکی  اپنی جگہ بحال رہا۔ فلسطین کھنڈر بن گیا، مسلمانوں کا قتل عام ہوا، لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم اور دائم  رہے۔  نیٹو کی رکنیت  برقرار رکھنے کے لیے ترکی نے تمام اسلامی غیرت اور حمیت  ایک طرف رکھ کر  اپنے ضمیر کو سلا دیا۔’’جمہوری اسلامی انقلاب‘‘ کا قائد  صرف اپنی  میٹھی میٹھی باتوں سے عالم اسلام کا رہنما بننا چاہتا ہے۔ یہ وہ شیخ ہیں جن کے دعوے بڑے لیکن  اعمال ندارد ہیں۔

شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد

جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد

عوام کی اکثریت کی خواہش سے اسلام نہ کبھی آیا ہے اور نہ آئے گا۔یہ حکمراں کے ارادے اور خواہش سے ہی  آتا ہے۔ اور علما ءکے ذریعہ لائے گئے انقلاب سے آتا ہے۔ اکثریت کے حوالے سے قرآن کا ازلی فیصلہ  یہی  ہے کہ ’’اور اے نبیﷺ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ  کے راستے سے  بھٹکا دیں گے، وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں (الانعام: 116)۔

YouTube/AsSeerah

Facebook:JawedAnwarPage

Twitter: X/AsSeerah

Telegram: t.me/AsSeerah

AsSeerah What's App Channel:

 https://whatsapp.com/channel/0029Vas8OW13mFYCMzcAZl10

E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com

Comments

Latest

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

شاہنواز فاروقی مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دارالجزا۔ دنیا عمل کے لیے ہے اور آخرت عمل کی جزا کے لیے۔ چنانچہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ کروڑوں انسان ہوں گے

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں

شاہنواز فاروقی جاوید احمد غامدی اس حد تک مغرب سے مرعوب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی مغرب کے رنگ میں رنگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب مسلمانوں سے خدا اور مذہب کے انکار کے لیے تو نہیں کہتے مگر وہ

خیر میں اتفاق اور شر میں انتشار

جاوید انور خیر وہ ہےجو انسان اور کائنات کے خالق و مالک نے ہمیں  بتا دیا ہے۔ شر وہ  ہے جسے انسان نے شیطان کی مدد سے اپنی خواہشات نفس کے مطابق ایجاد کیا ہے۔ کائنات کا اصول ِواحد اصولِ خیر ہے۔ شر کا کوئی اصول نہیں ہے۔ خیر ہدایت

آپ کے بچوں کو ہم جنس فیملی کے حوالے کرنےکامنصوبہ

جاوید انور بچوں کو ان کی ماوُں کی گود اور باپ کے آغوش سے چھین کو فاحش  ہم جنس  جوڑوں کو دینے کا پروگرام  بن چکا ہے۔ پہلے بچوں کو  آہستہ آہستہ جینڈرکے حوالے سے کنفیوژ کیا جائے گا، اور  اس کے بعد  جنسی  طور پر