جاوید انور
میری آپ سے گزارش یہ ہے کہ کینیڈا اور امریکا کی فاحش تہذیب اور کلچر کو اگر خوب اچھی طرح سمجھنا ہے اور اس سے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اور اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے تو ہمارے ان کالموں کوغور سے پڑھیں۔
2012 میں، اونٹاریو لیجسلیٹو اسمبلی میں شیری ڈینوو، جو این ڈی پی کی ایم پی پی تھیں، کی طرف سے ایک بل پیش کیا گیا۔ یہ بل 33 کے نام سے جانا گیا، جو اُسی سال ایکٹ بن گیا اور اس کا نام رکھا گیا:"ٹوبی ایکٹ (صنفی شناخت یا صنفی اظہار کی بنا پر امتیاز اور ہراسانی سے آزاد ہونے کا حق)، 2012"۔
ٹوبی ڈانسر ایک ٹرانس جینڈر خاتون اور سماجی کارکن تھیں، اور اسی کے نام پر یہ قانون بنایا گیا تھا۔ اونٹاریو اسمبلی کے بنائے گئے ٹوبی ایکٹ نے اونٹاریو ہیومن رائٹس کوڈ میں تبدیلی کر دی۔ جہاں کہیں بھی دو جنسوں (جنڈرز) کا ذکر تھا، اور مرد و عورت کے حقوق بیان کیے گئے تھے، وہاں "جنسی رجحان" (sexual orientation) کے بعد "صنفی شناخت" (gender identity) اور "صنفی اظہار" (gender expression) کا اضافہ کر دیا گیا۔فاحش قوانین اور ضوابط میں صنفی شناخت بنیادی طور پر فرد کے صنفی اظہار سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ کیا ہوتاہے؟ فاحش کا کہنا ہے کہ اس شخص کا اپنا انفرادی اور اندرونی جنسی تجربہ ہے۔
صنفی اظہار کا مطلب یہ ہے کہ وہ پبلک میں اپنے کو کیسے ظاہر کرتا ہے یا کرتی ہے جیسے ڈریسنگ، بال، میک اپ، باڈی لینگویج اورآواز وغیرہ۔لیکن اس میں سب سےمشترک چیز یہ ہے کہ وہ اپنا نام اور ضمیر کیا منتخب کرتا ہے۔ اب اس قانون کے تحت کوئی بھی فرد اپنے کو جس صنف کا بتائے گا وہی ماننا پڑے گا۔ ہمارے بہت سے بھائی خصوصاً بیک ہوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اپنا جنڈر سرجری سے بدل لیا ہوگا، یا وہ تیسری نسل کا خسرہ ہوگا۔ نہیں بھائی نہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک پورا مرد ہے جسمانی ساخت سے، اس کی داڑھی ہے، مونچھ ہے، لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ وہ عورت ہے تو اسے عورت تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور اس کو وہ تمام حقوق ملیں گے جو ایک عورت کے ہیں۔ اسی طرح ایک مکمل طور پر بالغ عورت اگر یہ کہتی ہے کہ وہ مرد ہے تو اسے تمام مردوں کے حقوق ملیں گے،اسے ملازمت، رہائش، سہولیات اور خدمات، معاہدے، اور یونینز، تجارتی یا پیشہ ورانہ تنظیموں کی رکنیت میں وہی تمام حقوق ملیں گے جو اس جینڈر کے لیے مخصوص ہیں جو وہ خود بیان کرتا یا کرتی ہے۔ یعنی اب وہ اپنے نئے تفویض شدہ (new assigned) جینڈر کے مطابق واش روم استعمال کر سکتا یا سکتی ہے، کلب میں جو چینج روم ہے اس میں وہ داخل ہو سکتا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں کہ لڑکیاں سوئیمنگ پول کے کے لئے چینج روم میں جاتی ہیں اور ان کا سامنا وہیں ایک ننگے لڑکے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ مرد حضرات اپنے کو عورت بتا کر عورتوں کے اسپورٹس میں شامل ہو سکتے ہیں اور عورتوں کی ٹرافی بھی جیت سکتے ہیں اور جیت بھی رہے ہیں۔آپ اندازہ لگائیں کہ آپ اپنی بیوی، بیٹی ، بہن یا ماں کے ساتھ کسی پبلک مقام پر جاتے ہیں اور وہ عورتوں کے باتھ روم میں جاتی ہیں، اور وہاں اچانک ا یک لڑکا یا مرد آجاتا ہے۔ مرد حضرات اپنے کو عورت بتا کر عورتوں کے شیلٹر ہومز میں بھی رہائش حاصل کر رہے ہیں اور وہاں ریپ کے واقعات بھی نوٹ کیے جا رہے ہیں جب کہ لبرل میڈیا اسے منظر عام پر آنے سے روکتا ہے۔
بہت چھوٹی بچے اور بچیوں کے ساتھ زنا یعنی پیڈیفیلیا کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔فاحش گروپ اب پیڈا فائلز کو بھی قانونی تحفط کی بات کرنے لگے ہیں۔ یعنی وہ اسے 2SLGTBQIA+ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ صنفی شناخت اور اظہاربھی مستقل نہیں ہے۔ اسے جب چاہے بدلا جا سکتا ہے، یہ روزانہ کی بنیاد پر بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ یہ شئے جامد(solid) نہیں بلکہ یہ سَیّال(Liquid) ہے۔
اونٹاریو جہاں ہم رہتے ہیں ۔ یہاں کی وزارت صحت نے ہمارے صحت کارڈز سے جنس کا خانہ ختم کر دیا ہے۔ اب وہ دن دور نہیں کہ برتھ سرٹیفیکِٹ پر بھی جنڈر نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر اور والدین کو یہ کہ دیا جائے گا کہ بچہ کے جنڈر کا تعین کا حق اب تمہارا نہیں رہا۔ یہ حق صرف اس بچے کا ہے اور جب یہ بڑا ہو جائے گا تو اپنا صنف خود بتائے گا یہ اپنا جینڈر خود تفویض کرے گا۔ کینیڈا کی کئی ریاستوں میں برتھ سرٹیفیکٹ پر "جینڈر حیاتیاتی جینڈر سے مختلف" لکھوانے کا اور مرد اور عورت کے علاوہ بھی جینڈر لکھوانے کا اختیار موجود ہے۔ اسی طرح، آپ کا پاسپورٹ بھی آگے جا کر جینڈر فری ہو سکتا ہے۔ ویسے اس وقت بھی آپ کو پاسپورٹ میں اپنے پسند کے جینڈر لکھوانے اور X لکھوانے کی آزادی حاصل ہے۔ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں آپ جنڈر مُکت کنیڈین پاسپورٹ سے سفر کر یں ۔ یہ اور بات ہے کہ آپ بہت سے ایسے ممالک میں نہیں جا پائیں گے جہاں دو میں سے ایک جنڈر لیے بغیر یا غلط جنڈر لے کر آپ داخل نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی واضح رہے کہ فاحش قوم کی یہ آزادی مذہبی اِداروں پر بھی لاگوہوتی ہے۔ یعنی چرچ، مسجد، سِنا گاگ، مندر، گوردوارہ، سب اس کے اندر آتے ہیں۔ اس ٹوبی ایکٹ کو واش روم ایکٹ بھی کہا گیا ہے۔ اب بڑے پیمانے پر تمام جنسوں کے واش روم یعنی جینڈر نیوٹرل واش رومز اور جینڈر Inclusive باتھ رومز بننے لگے ہیں، خصوصاً اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں۔ یعنی ایک ہی پبلک واش روم میں لڑکے، لڑکیاں، مرد و خواتین سب جا سکتے ہیں۔ ایک اور غلط فہمی ہمارے کینیڈین دیسی بھائیوں کو اوران کے چند احمق مسلم دانشوروں کو ہے۔ یاتو وہ واقعی اتنے بھولے ہیں یا لبرلز کی محبت میں وہ اپنی کمیونٹی کو جان بوجھ کر بیوقوف بنارہےہیں ،انھیں خود یا اپنے بھانجے بھتیجے کو لبرل پلیٹ فارم سے ایم پی یا ایم پی پی کے لئے الیکشن لڑوانا ہوتا ہے ۔یہ لوگ ٹرانس جینڈر کا مطلب بار بار یہ بتاتے رہتے ہیں کہ تیسری صنف ، وہ خسرے ہیں جو برصغیر کی سڑکوں پر پائے جاتے ہیں۔ اور یہ عام سی بات ہے کوئی خاص بات نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن کے مطابق انسانوں کے خالق اللہ تعلیٰ نے صرف اور صرف دو جسم ہی پیدا کئے ہیں۔ جسم کے کسی بھی اعضا میں نقص سے جینڈر تبدیل نہیں ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات پوری طرح واضح کر لیں کہ کینیڈا اور امریکا اور اب پوری دنیا کے لیے لفظ ٹرانسجنڈر ایک جامع اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو جنسی شناخت اور اظہار میں اپنے حیاتیاتی اور خدا کی طرف سے تفویض کردہ جنس سےانحراف کرتے ہیں ۔اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اپنی پہچان ٹرانس جینڈر، ٹرانس وومن (مرد سے عورت)، ٹرانس مین (عورت سے مرد)، ٹرانس سیکسوئل، کراس ڈریسر، جینڈر نان کنفارمنگ(Gender Non-confirming)، جینڈر ویریئنٹ(Gender Variant) یا جینڈر کوئیر(Queer) بتاتے ہیں۔ ایک اور جامع لفظ جو ایجاد کیا گیا ہے اور جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ ہے سوجی SOGIE یعنی کہ Sexual Orientation Gender Identity and Expression۔
ان تمام لوگوں کے لیے، اور تمام اِصْطِلاحات کے مقابلے میں ہم جو الفاظ استعمال کر رہے ہیں وہ ہے جنسی مُنحَرِفین اور صِنْفی مُرتَدین یا فاحش تہذیب، اور فاحش کلچر اور غیر فطری عمل کو فاحِشَہ کہ رہے ہیں اور یہ عربی قرآن کی اصطلاح ہے۔ تو اب ان فاحش تہذیب کے لوگوں کو اپنے نئے تفویظ کردہ جنس کے مطابق صنفی اظہارکا پورا پورا حق حاصل ہے۔تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں بشمول عبادتگاہوں میں بھی اس کا پالن ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد اپنے کو عورت کہتا ہے تو وہ عورت کا لباس پہن کر آفس جاسکتا ہے۔ اسے ایسا کرنے سے روکا جائے گا تو اس پر ہراسانی کا جرم عائد ہوجائےگا۔
فاحش تحریک کی اب بہت بڑی بڑی انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں۔ وہ بہت باریک بینی سے ہراسانی سے متعلق سروے کراتی ہیں ۔ زیادہ تر یہ سروے بھی جعلی اور مبالغہ آمیز ہوتے ہیں ۔ان کا مقصد تمام دفاتر اور اسکولوں کے اندر فاحش ایجنڈا پر پوری طرح عمل کرانا ہوتاہے۔
آپ یہاں کسی ریسٹورنٹ میں جا رہے ہیں، کاؤنٹر پر آپ کو ایک بیج یا ٹیگ ملے گا جس پر آپ اپنا sexual orientation اور Gender Identity لکھ لیں اور یہ بھی کہ آپ کو کن Pronouns سے پکارا جائے۔ ایسے Pronouns کی تعداد اب 50 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ، اگر ان کی تخلیقیت کسی نئے pronoun کو پیدا کرتی ہے تو وہ بھی لکھ سکتے ہیں۔ اس کی کوئی Limit نہیں ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہاں ایک پورا مرد "She" یا کسی اور Pronoun کا ٹیگ لگا کر بیٹھا ہوگا اور ایک بھرپور عورت "He" یا کسی اور Pronoun کا ٹیگ لگائے بیٹھی ہوگی۔
اونٹاریو کے اس واش روم بل کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کے تین سر فہرست ناموں میں آپ کے اپنے چہیتے لبرل صوبائی لیڈرز صوبائی ایم پیز محترمی و مکرمی حضرت یاسر نقوی اور شفیق قادری بھی شامل ہیں۔یہ قانون اس وقت تک صرف اونٹاریو تک محدود تھا ،لیکن اس کے بعد فیڈریل اور بقیہ صوبوں میں بھی قانون بن گیا۔ 2009 میں ہی این ڈ ی پی(NDP) ایم پی بِل سِکسے نے پرائیویٹ بل پیش کیا تھا جو جسٹس اینڈ ہیومن رائٹس کمیٹی سے یہ 9:2 ووٹ سے منظورہو کر ہاوس آف کامنز میں آچکا تھا۔ ان لوگوں کی خواہش تھی کہ دسمبر تک نئے الیکشن کے اعلان سے قبل اسے پاس کرا لیا جائے۔ یہ بل دوسری ریڈنگ میں دسمبر 8کو 143 بمقابہ 131 ووٹ سے پاس کرا لیا گیا۔ ایک پرو لائف ایم پی پاوُل سَبو نے بھی اس کی حمایت میں ووٹ دے دیا۔
بل کی تیسری خواندگی میں 9 فروری سن 2011 میں الٹرا-ریڈیکل ٹرانس سیکشوئل اور ٹرانس جینڈر "حقوق" بل، C-389، 143 ہاں اور 135 ناں سے پاس ہو گیا۔
واضح رہے کہ اس وقت وہاں اسٹیون ہارپر کی کنزرویٹیو حکومت تھی ۔ناں میں ووٹ دینے میں لبرل کے صرف چھ ایم پیز تھے باقی سارے ایم پیز کنزرویٹیو کے تھے۔ہاں میں ووٹ کرنے والوں میں 6 کنزرویٹیوز بھی تھے لیکن جن 25 ممبرز نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا یا اپنے ووٹ کو ضائع کر دیا اس میں 12کنزرویٹیو اور لبرل کے دو پرو لائف ایم پیز بھی شامل تھے۔ اگر یہ لوگ ناں میں ووٹ کرتے تو یہ بل پاس نہیں ہو سکتا تھا۔
ایک بار پھر میں واضح کر دوں کہ اینڈ ڈی پی ہمیشہ سو فیصد فاحِش گروپ کے ساتھ کھڑی رہی ہے۔ آپ نے دیکھا تھا کہ SOGIE کے خلاف ملین مارچ میں اینڈ ڈی پی کے لیڈر جگمیت سنگھ فاحش گروپ کے ساتھ کھڑا ہو کر ملین مارچ کی مخالفت کر رہا تھا۔ میں یہاں واضح کر دوں کہ جو مسلم امیدوار بھی این ڈ ی پی یا لبرل پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہا ہے، اس کی مخالفت کرنا اور ان کو ووٹ نہ دینا ہم پر واجب ہے۔
بل ہاوُس آف کامنز سے سینیٹ میں چلا گیا۔ پرو لائف گروپس نے اس کے خلاف تحریک چلائی ۔ سینیٹ میں کنزرویٹو پارٹی کی اکثریت ہونے کے باعث یہ بل کئی سال تک سینیٹ سے پاس نہ ہو سکا۔ 2015 کے الیکشن میں لبرل پارٹی آف کینیڈا کی حکومت قائم ہو گئی۔ جسٹِن ٹروڈو نے الیکشن سے پہلے کہ دیا تھا کہ ٹرانس جینڈر سے متعلق جتنے اشوز ہیں ان پر لبرل پارٹی کے کسی بھی رکن کو کوئی ریزرویشن ہے تو وہ الیکشن نہ لڑے،یعنی لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم سے اب سو فیصد فاحش حمایتی ہی ارکان منتخب ہو کر آئے۔ این ڈی پی پہلے سے ہی سو فی صد فاحش حمایتی رہی ہے۔ 2016 میں بل سی 16 لایا گیا اور اسے 2017 میں دونوں ایوانوں سے پاس کرا لیا گیا ۔
اس ایکٹ کا نام ہے کینیڈین ہیومن رائٹس ایکٹ اور کریمنل کوڈ میں ترمیم کا ایکٹ۔واضح رہے کہ آپ کے بھیجے ہوئے تمام فیڈریل لبرل مسلم ایم پیز نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اور اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ فاحِش کَمیونٹی کے دست و بازو اور ان کے بڑے سپورٹرز رہے ۔ اور اس کے بعد وہ تمام ترمیمات کینیڈین ہیومن رائٹس اور کرمنل کوڈ میں کر لیے گئے جسے اونٹاریو کی لبرل حکومت اور کئی صوبوں نے پہلے ہی کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ اس کوڈ کا اطلاق مذہبی اداروں پر بھی ہوتا ہے، جو براہ راست حملہ ہے کینیڈین چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈمز پر، جس کے آغاز میں ہی مذہبی حقوق کو گارنٹی کیا گیا تھا۔
اب اس ایکٹ کے بعد انھیں ’’توازن‘‘ قائم کرنا ہوگا، یعنی کہ مذہبی ادارے استثنیٰ (exemptions) کے لیے دعویٰ تو کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہر کیس کو انفرادی طور پر غور کیا جائے گا اور ان کا یہ حق مطلق (absolute) نہیں ہے۔ یعنی فاحشہ گروہ اب صرف اور صرف اپنے مطلب کے لیے اس دستاویز کو استعمال کرے گا۔ امریکا کی بہت سی ریاستوں میں بھی یہ قانون بن چکا ہے۔
ایک اور بات بتاتا چلوں کہ دی ڈائیگنوسٹک اینڈ اسٹاٹسٹیکل مینوئل آف مینٹل ڈس آرڈرز،جو ڈی ایس ایم کہلاتا ہے اس میں جینڈر آئیڈنٹی کے کنفیوژن کو مینٹل ڈس آرڈر کہا جاتا تھا۔ اب فاحش لابی نے اسے بھی بدلوا دیا ہے۔اب عملاً شمالی امریکا میں فاحشہ ہی مینٹل آرڈر ہے اور اس کے خلاف ہر چیز مینٹل ڈس آرڈر ہے۔2021کے کینیڈین مردم شماری کےمطابق.33 فی صد لوگ یہاں اپنے آپ کو ٹرانسجنڈر اورغیر دو جنسی باور کراتے ہیں۔ یعنی ہر تین سو میں سے ایک آدمی۔ اسی مردم شماری کے حساب سے اس ملک میں 5 95,43 لوگ ہم جنس جوڑے کے طور پر رہتے ہیں جو کہ پورے ملک میں تمام جوڑوں کا 1.1%فی صد ہے۔
ٹرانسجنڈر اور ہم جنس جوڑے اولاد پیدا نہیں کر سکتے، لیکن ان کو اولاد چاہیے۔ تو ان کو اولاد مُہَیّا کرنےکے لئے سرکاری سطح پر جو قوانین، جو فضا ء اور جو ماحول بنایا جا رہا ہے اس میں روایتی فیملی میں پیدا ہونے والے بچوں کو ان کی ماوُں اور باپوں سے جدا کر کے فاحش جوڑوں کو دےدیا جائے گا۔ کینیڈا میں اسی حساب سے تمام قوانین اور پلاننگ سیٹ ہو چکی ہے۔ جب یہاں اس طرح کے واقعات شروع ہوں گے اور اسٹوری آنے لگے گی تو آپ اپنے ایم پیز MPsخصوصاً مسلم ایم پیز کو اور ان کے بڑے بڑے اسلامک سپورٹرز اور اپنے اسلامی لبرل کمِیونِٹی لیڈرز جن میں آپ کی جماعت کے امیر بھی شامل ہوں گے ، ان کو شکریہ کا خط ضرور لکھیے گا۔ کیونکہ اس میں ان کا بہت بڑا تعاون اور بہت بڑی حصہ داری ہے۔ میں یہ بات بہت افسوس کے ساتھ اور کلیجہ تھام کر کہ رہا ہوں لیکن حقیقت یہی ہے، سب کے ثبوت موجود ہیں۔
ٹرانسجنڈر کے تحفظ کے نام پر بننے والےتمام قوانین آپ کے بچوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہیں۔آپ کی سب سے قیمتی شئے، آپ کے ہیرے اور جواہرات یعنی آپ کی اولادیں، آپ کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو آپ سے چھیننے کا پلان بن چکا ہے۔ خدارا اپنے آپ کو یہاں کے حالات سے واقف رکھیں، بیدار رہیں کیونکہ اب مہلت کا وقت نہیں ہے۔میں 13 سال سے آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ ’’جنس بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے‘‘ ۔ ا ٓندھی سے بچنے کے لیے شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانےوالی عادت سے نکلیں۔
YouTube/AsSeerah
Facebook:JawedAnwarPage
Twitter: X/AsSeerah
Telegram: t.me/AsSeerah
AsSeerah What's App Channel:
https://whatsapp.com/channel/0029Vas8OW13mFYCMzcAZl10
E-mail: AsSeerah@AsSeerah.com