Skip to content

سود کا لین دین: قرآن ، سنت و سیرت

جاوید انور   

’’اوراس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:’’تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سُود کا مَٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشونما دیتا ہے۔ اللہ کِسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا  ۔ ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے ربّ کے پاس ہے اور ان کےلیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔  اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، خُدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سُود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا ، تو آگاہ ہو جاوٴ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ  کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے (لَاتَظْلِمُوْنَ وَ لَاتُظْلَمُوْنَ )۔ تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو  ہاتھ کھُلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صد قہ کردو ، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہوگے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا  پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا‘‘۔(سورۃ البقرہ:     275-281)

آیت نمبر 79 2 میں جہاں اللہ اور رسول ﷺ کا اعلان جنگ ہے وہیں لَاتَظْلِمُوْنَ وَ لَاتُظْلَمُوْنَ  کی بات ہوئی ہے یعنی کہ نہ تم ظلم کرو  (سود لو) اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ( سود  دو)۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں لینے کا ذکر ہے دینے کا نہیں۔ وہ جب  آیت نمبر279 پر ذرا بھی غور کریں گے تو ان کو  لینا اور دینا دونوں اور اس کا عذاب سمجھ میں آجائے گا۔

قرآن میں اور بھی بہت سے  گناہوں کی ممانعت کا حکم آیا ہے اور ان پر سخت وعیدیں بھی ہیں، لیکن اتنے سخت الفاظ میں کسی دوسرے گناہ کے بارے میں وارد نہیں ہوئے۔

’’سود کا گناہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنے سے  ستر درجہ زیادہ ہے‘‘ (ابن ماجہ)

’’سود کے حرام  ہونے کا سلسلہ 6 قبل ہجری شروع ہوا۔اور اس سلسلے کی آخری آیت صفر 11 ھ میں نازل ہوئی۔ آخری آیت میں سود خوروں کو اعلان جنگ سنایا گیا ہے اسی لئے بقرہ 278 تا 281  کو خصوصیت  کے ساتھ  آیت ِ ربوٰ کا نام دیا گیا ہے۔تدریج کے ساتھ اللہ نے پندرہ برسوں میں ربوٰ کو قطعی حرام اور ایسا جرم قرار دیا  جس کی  بنیاد پرمسلمان کا مسلمان کے خلاف  تلوار اٹھانا صرف جائز ہی نہیں بلکہ من جانب اللہ ضروری ہے (کتاب :ربوٰ  زکوٰۃ اور ٹیکس، ازمولانا ابوالجلال ندویؒ)

یہاں وہ لوگ نوٹ کر لیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اور’’مسلمان ‘‘ کی آپس کی لڑائی نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے زکوٰۃ دینے سےانکاری ’’مسلمان‘‘کے خلاف باضابطہ جنگ کی ہے۔اٖفغان مجاہدین کی جو مغرب کے کرایہ  کے افغان فوجیوں سے جنگ تھی، وہ مسلمانوں کی   باہمی  جنگ نہیں تھی بلکہ  یہ  حق و باطل کی جنگ تھی۔ مسلمانوں کا ایسا اتحاد باطل اتحاد ہے۔

واضح رہے کہ سود دینے لینے سے مال نہیں بڑھتا بلکہ سمٹ کر ختم ہو جاتا ہے۔

’’ جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں  تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں ۔ اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں۔ کیا یہ دیکھتے نہیں  ہیں  کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اورتنگ کرتا ہے ( جس کا چاہتا ہے) ؟ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں  ان لوگوں کے لیے  جو ایمان لاتے ہیں۔ پس (اے مومن ) رشتہ دار کو اس کا حق دے  اور مسکین و مسافر کو (اس کا حق)۔ یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے  جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ جو سود  تم دیتے ہو تاکہ  لوگوں کے اموال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا۔‘‘ (الروم: 36-39)

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! ’’ایک زمانہ آنے کو ہے جب ایک بھی ایسا شخص باقی نہ رہے گا جو  سود کا کھانے والا نہ ہو، جو شخص نہیں کھائے گا اس تک سود کی بھاپ (یا گرد) پہنچ جائے گی‘‘۔

(احمد، ابوداوُد، نسائی، ابن ماجہ)

کیا اس میں کوئی شک ہے کہ ہم لوگ اسی زمانہ میں رہ رہے ہیں؟

محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی  اسلامی ریاست میں سود کو روکنے کے لیے سخت کوشش  کی۔ آپ نے نجران کے عیسائیوں سے  جو  معاہدہ کیا اس میں صاف طور پر لکھ دیا کہ اگرتم سودی کاروبار کروگے تومعاہدہ ختم ہو جائے گا اور ہم کو تم سے جنگ کرنی پڑے گی۔بنو مغیرہ کے سود خوار عرب مشہور تھے، فتح مکّہ کے بعد آپ ﷺ نے ان کی تمام رقمیں باطل کر دیں۔ اور اپنے عامل مکّہ کو لکھا کہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ کرو۔حضور ﷺ کے چچا  ایک بڑے مہاجن تھے۔حجتہ الوداع میں آپﷺ نے اعلان فرمایا کہ جاہلیت کے تمام  سود ساقظ کرتا ہوں۔ اور سب سے پہلے میں خود اپنے چچا عباس کا سود ساقظ کرتا ہوں۔

جابر ؓ بن عبد اللہ نے کہا کہ ’’رسول اللہ  ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر، کھلانے والے پر، دستاویز کے کاتب پر اور دونوں گواہوں پر اورارشاد فرمایا کہ وہ سب  برابر ہیں‘‘ (مسلم)

اس حدیث کے مطابق  سود کی دستاویزات لکھنے والے، اکاونٹنگ، کمپیوٹنگ کرنے والے، سود کے گواہوں، سودی کاروبار کے ایجنٹ،  سود کی ڈگری دینے والےججوں اور سود خوار کے مقدمہ کی پیروی کرنے والے  وکیلوں،  سود کی رواداری  کے لیے قانون بنانے والے  مشیران حکومت، سود کا اشتہار کرنے والی ایجنسیاں، میڈیا  سب ملعون ہیں (اللہ کی طرف سے لعنت زدہ ہیں)۔

’’شریعت اسلامی کے قواعد میں سے ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ جس چیز کو حرام کیا جاتا ہے اس کی طرف جانے کے جتنے رستے ممکن ہیں، ان سب کو بند کر دیا جاتا ہے،  بلکہ اس کی طرف پیش قدمی کی ابتدا جس مقام سے ہوتی ہے وہیں روک لگا دی جاتی ہے تاکہ انسان اس کے قریب بھی نہ جانے پائے۔ نبی ﷺ نے اس قاعدے کو ایک لطیف  مثال میں بیان  فرمایا ہے۔ عرب کی اصطلاح میں حمیٰ اس چراگاہ کو کہتے ہیں جو کسی شخص نے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کر لی ہو اور جس میں دوسروں کے لیے اپنے جانور چرانا ممنوع ہو۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ ہر بادشاہ کی ایک حمیٰ  ہوتی ہے اور اللہ تعلیٰ  کی حمیٰ اس کے وہ حدود ہیں جن سے باہر قدم نکالنے کو اس نے حرام قرار دیا ہے۔جو جانور حمیٰ کے اردگرد چرتا پھرتا ہے، بعید نہیں کہ کسی وقت چرتے چرتے وہ حمیٰ کے حدود میں بھی داخل ہو جائے۔ اسی طرح  جو شخص اللہ تعلیٰ کے حمیٰ یعنی اس کے حدود کے اطراف میں چکّر لگاتا رہتا ہے۔اس کے لیے ہروقت یہ خطرہ ہے کہ کب اس کا پاوُں پھسل جائے اور وہ حرام میں مبتلا ہو جائے۔ لہٰذا جو امور حلال و حرام کے درمیان واسطہ ہیں ان سے بھی پرہیز لازم آتا ہے تاکہ تمہارا دین محفوظ رہے۔ یہی مصلحت ہے جس کو مدّنظر رکھ کر شارع حکیم  نے ہر ممنوع چیز کے اطراف میں حرمت اور کراہیت کی ایک مضبوط باڑھ لگا دی ہے اور ارتکابِ ممنوعات کے ذرائع پر بھی ان کے قُرب و بعد  کے لحاظ سے سخت و نرم پابندیاں عاید کر دی ہیں۔‘‘ (  کتاب: سود, مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

 بہت سے ہمارے  دوست  اپنے دوستوں  کے کہنے پر ’’شریعہ موافق‘‘ (Sharia Compliant)لگنے والے  بعض مارگیج میں گئے۔ چند ماہ کے بعد جیسے ہی یہ اندازہ ہوا کہ اس کا  ٹرانزیکشن ٹھیک وہی ہے جو روایتی مارگیج کا ہے۔ لیکن خواہ مخواہ وہ اس کا وہ دو فیصد اضافی دے رہے ہیں، تو وہ بھاگ لیے اور واپس داخل ہو گئے  بینک اور کریڈٹ یونین کے ’’حمیٰ‘‘ میں۔ جو لوگ ان کو اس میں لانے والے ہیں وہ  بھی عند اللہ جواب دہ  ہوں گے۔ پکارے جائیں گے وہ سارے نام جنھوں نے دنیا میں  شریعت کو  کاروبار اور اپنی نفسانی خواہشات کا چراگاہ بنا لیا  تھا۔

 +1-416-568-8190

Facebook/JawedAnwarPage

X/Asseerah

 

Comments

Latest

ربوٰ، حلال، حرام, اضطراراور مکان

جاوید انور یہاں شمالی امریکا ( امریکا اور کینیڈا) میں برصغیر سے جو  لوگ  بیسویں صدی کے ساٹھ اور ستّر کی دہائی  میں آئے ، انھیں اکثر جگہوں پر کہیں بھی حلال گوشت میسر نہیں تھا۔  جو لوگ  گوشت کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ، انھوں نے یہودیوں کا ’’کو

سود کی آندھی اور ابن المال

جاوید انور ٹو رونٹو میں ہمارے  پڑوس، ہمارا محلہ، ہمارا علاقہ کرایہ داروں کا علاقہ ہے یہاں بیسیوں  بہت اونچی ، اور  بیسیوں  کم اونچی عمارتیں ہیں ۔ یہ سب اپارٹمنٹ بلڈنگ ہیں جو کسی نہ کسی مینیجمنٹ کے تحت چلتی ہیں۔  ہمارا کام صرف کرایہ  ادا کرنا ہوتا ہے،  بقیہ اپارٹمنٹ

اَہلِ سود کی اسلامی جماعت

جاوید انور ہماری آنکھوں کے سامنے  افغانستان نے  دنیا کے دو سوپر پاورز سوویت یونین اور امریکا سے یکے بعد دیگرے طویل جنگ کی، اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ لیکن  یہ بھی معلوم رہے کہ  اس سے قبل افغان قوم سیکڑوں سال سے  اللہ اور اس کے رسول

میرا مکان کیسا ہو؟

میرا مکان ایسا ہوا جس کا ایک تنکا بھی حرام کا نہ ہو۔ میرا مکان ایسا ہو جس میں  سود کا دھواں  تک نہ پہنچے۔ میرا مکان ایسا ہو جس میں کسی کا قرض نہ ہو۔ میرا مکان ایسا ہوجہاں کوئی ناگوار بات سنائی نہ دے۔ میرا مکان ایسا ہو