جاوید انور
ٹو رونٹو میں ہمارے پڑوس، ہمارا محلہ، ہمارا علاقہ کرایہ داروں کا علاقہ ہے یہاں بیسیوں بہت اونچی ، اور بیسیوں کم اونچی عمارتیں ہیں ۔ یہ سب اپارٹمنٹ بلڈنگ ہیں جو کسی نہ کسی مینیجمنٹ کے تحت چلتی ہیں۔ ہمارا کام صرف کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے، بقیہ اپارٹمنٹ (فلیٹ )کے اندر جو بھی ٹوٹ پھوٹ، خرابی، اور عیب ہو، اسے بلڈنگ انتظامیہ حل کرتی ہے ۔ اس کے لئے سوپر کو اطلاع دینی ہوتی ہے۔ زیادہ تر کام جو شاذ ہی نکلتا ہے، چوبیس گھنٹے میں نمٹ جاتا ہے۔ چنانچہ رہائش کے معاملہ میں ایک طرح کا ذہنی سکون حاصل رہتا ہے۔
اس علاقہ کی خرابی صرف یہ ہے کہ یہاں کے بہت سارے مکیں کو سود کی آندھی اڑا لے گئی۔ نئے علاقے، نئی بستیاں، نئے اور پرانے شہر از سر نو آباد ہونے لگے، ہمارا محلہ، ہمارا پڑوس مسلم اکثریت علاقہ ہے یہاں پاکستانی، افغانی، بھارتی، صومالی اور دیگر ممالک کے مسلمان آباد ہیں لیکن یہ آبادی بہت تیزی سے بدلتی رہتی ہے۔ یہ علاقہ نئے مسلم امیگرنٹ کی جنت ہے۔ لیکن جب اچھی نوکری سے لگ گئے، ڈاوُن پیمنٹ کی رقم مہیا ہو گئی تو یہ یہاں سے چلے جاتے ہیں۔ سود کی آندھی انھیں اڑا لے جاتی ہے۔پھر نئے لوگ آ جاتے ہیں۔ چند ایسے بھی ہیں کہ جن کی آمدنی اچھی ہے، ملازمت اچھی ہے، کاروبار اچھا ہے لیکن وہ سود سے بچنا چاہتے ہیں، تو ایسے لوگ بھی یہاں ہیں جوایک عرصہ سے رہتے ہیں۔ تقریباً ہر ہائی رائز بلڈنگ میں مصلّہ ہے اور علاقہ کی ایک بڑی مسجد بھی ہے۔ جو اب بہت زیادہ بڑی بن رہی ہے۔
مسجد، مصلیّٰ جاتے ہوئے راستے میں، مسجد اور مصلیّٰ کے اندر ، ٹاون سینٹر ( مال) میں خریداری کرتے وقت، کافی شاپ میں ، ریستوراں میں اور پارکوں میں بہت سے لوگوں سے بار بار ملاقات ہوتی ہے۔ حسب تعلق اور حسب مراتب ھلو ، ہائے، اشارہ، مصافحہ اورمعانقہ ہو جاتا ہے۔ کوئی کھلا ہوا فاسق اور فاجر ہو تو اس کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے ہیں۔ اگر کسی نے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملایا ہوا ہو تو اس سے ہاتھ بچا لیتے ہیں۔ فسق اور فاحش کے جراثیم ایک دوسرے سے منتقل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی صحبت روحانیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو قوم لوط کی باقیات اور ان کی قیادت سے بہت بار اور بار بار گلے مل چکے ہیں۔ اپنی روحانیت کا گلا گھونٹنا ہو اور روحانی خود کشی کاا رادہ ہو تو ان سے ضرور ملیے گا۔
یہاں ہمارے علاقے میں ایک اچھی تعداد قرآن کے حفّاظ ، علما اور مفتیان کرام کی بھی ہے۔لیکن ان کے بیان، ان کی تقریریں، ان کے خطبے، جگہ جگہ دروس قرآن اور ذکر کی مجلسیں اور گشت کرتی جماعتیں سب مل کر بھی سود کی چلتی آندھی سے بہت کم لوگوں کو بچا سکیں ۔ برصغیر کا جدید تعلیم یافتہ مسلمان سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دروس سے بہت متاثر تھا۔ مغرب میں جب بھی یہ دو بزرگ آئے تو ان سے لوگوں نے سود پر گھر (مارگیج) سے متعلق سوالات کیے، بار بار کیے اور گھما پھرا کر کیے، لیکن ان لوگوں نے کبھی اس معاملہ میں کوئی نرمی نہیں برتی، کوئی حیلہ نہ نکالا، وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے بچنے کی تلقین اور تاکید کرتے رہے۔ لیکن ان لوگوں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اب یہاں غامدی اور ندوی کا سکہ چلنے لگا۔ ان کی حیلہ بازی کی صنعت قائم ہو گئی اور شریعہ کارپوریٹ بن گیا۔ اب سود سود نہ رہا بلکہ وہ ’’کرایہ‘‘ اور’’ فیس‘‘ سے جانا اور سمجھا جانے لگا۔اور اب خلقت چلی ہے اسی کافر ادا کے ساتھ۔
ان لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم جیسے چند دیوانے شور شرابہ کر کے بلاآخر خاموش ہو جائیں گے۔ہم نہ فقیہ ہیں نہ ڈاکٹر، نہ پی ایچ ڈی، نہ مفتی، نہ شیخ الاسلام۔ جب کہ دوسری طرف ایسے بہت بڑے بڑے ٹیگ لگے ہوئے ہیں، لگائے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن کی واضح آیات، حدیث کے واضح الفاظ، اور صحابہؓ کے آثار ہیں، اور یہی ہمارا علمی ہتھیار ہے۔ہم اسی ہتھیار سے آپ کے جعلی اور گمراہ کن فتووُں سے لڑیں گے۔ اور اس جنگ میں ہم تنہا نہیں ہیں۔ کائنات کی تمام خیر کی قوتیں ہمارے ساتھ ہیں۔
نیو یارک میں ایک مفتی صاحب (سود مخالف) اپنا ہفت روزہ بیان دے رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں ایک صاحب نے بتایا کہ ان کے بھائی نے سود ( روایتی مارگیج) پر مکان خریدا، وہ اپنے بھائی کو منع کرتے رہے لیکن نہ مانا۔ مکان خریدنے کے بعد اس نے مکان کی بہترین آسائش، زیبائش اور آرائش کا پلان بنایا۔ اس سمت میں اس کا دماغ گھومنے لگا۔ فرنیچر کس طرح کا ہو، اس کی سیٹنگ کا لے آوٹ کیا ہو، کچن میں کیا کیاہو، اس میں کس طرح کا کیبنیٹ ہو، وہاں کیا کیا مشینیں ہوں۔ ، بیڈ روم کا کارپیٹ کیسا ہو، لِیونگ روم کی دری کیسی ہو، اس کا رنگ کیسا ہو، اعلیٰ قالین کہاں کہاں ملے گا، اورکہاں سے لیا جائے۔ گھر کے پائیں باغ میں کس کس طرح کے پھول پودے لگائے جائیں، وغیرہ وغیرہ۔ وہ پلان بناتا، نقشہ بناتا، لے آوٹ کاغذ پر بناتا، مٹاتا پھر بناتا، پھاڑتا پھر لکھتا، ایک عرصہ تک ایک عجیب کیفیت میں مبتلا رہا۔اور بالآخر پاگل ہو گیا۔ مفتی صاحب نے اس پر ایک مسئلہ یہ بیان کیا کہ ہر گناہ کا ایک عذاب دنیا میں ہے اور ایک عذاب آخرت میں۔ سود کا دنیوی عذاب یہ ہے کہ اس پر پاگل پن کا دورہ ہوگا۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاگل پن کی واحد اور لازمی وجہ سود ہی ہے۔ اس کی اور بھی بیشمار وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن سود کی دنیاوی خرابی میں یہ بھی شامل ہے۔اگر وہ بچ گیا تواس کے بچوں اور نسلوں میں سے کوئی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اور سود جیسے گنا کیرہ میں جو مسلسل ملوث ہو ایسے بھی اس کے پاگل پن میں کیا شک رہ جاتا ہے۔
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ١ؕ
’’جو لوگ اپنے مال شب وروز کھُلے اور چھُپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور اُن کےلیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔ مگر جو لوگ سُود کھاتے ، اُن کا حال اُس شخص کاسا ہوتا ہے، ’’جسے شیطان نے چُھوکر باوٴلا کر دیا ہو‘‘۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۷۵ جز ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا ترجمہ
شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ: ’’ جس کے حواس کھو دیے جِن نے لپٹ کر‘‘
تقی عثمانی کا : ’’جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو۔‘‘
امین احسن اصلاحیؒ : ’’ جسے شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو۔‘‘
فتح محمد خان جالندھریؒ : ’’جیسے کسی کو جِنّ نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔‘‘
حافظ نذر احمد : ’’ جس کے حواس کھو دیئے ہوں شیطان نے چھو کر‘‘
محمدجونا گڑھیؒ : ’’جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے۔‘‘
کنزالایمان: ’’جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔‘‘
باولا پن، پاگل پن، مخبوط الحواسی، خبطی پن، بد حواسی، اور دیوانگی کی آج بہت سی شکلیں ہیں:
بے چینی کی کیفیت (Generalized Anxiety Disorder)، شیزوفرینیا(Schizophrenia) ، آٹزم (Autism) ، مالیخولیا (Paranoia)، دو قطبی عارضہ (Bipolar disorder)، ذہن پر چھا جانے والا اضطراری عارضہ(Obsessive–compulsive disorder)، تجزیاتی عارضہ (Dissociative disorder) ، شخصیت کے عوارض (Personality disorders)،قلت ادراک (Cognition)، بارڈر لائن شخصیتی عارضہ(Borderline personality disorder)، نظام طعام کا بگاڑ (Eating disorder) اور دیگر نفسیاتی عوارض۔
کینیڈا میں ہر تین میں سے ایک فرد اور امریکا میں ہر پانچ میں ایک فردکسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہے۔
بھائیو اور بہنوں! سود کی ہر شکل یعنی لینے، دینے، سودی تجارت، سود ی اداروں میں ملازمت کرنے، اس میں کسی بھی طرح مددگار بننے، مشورہ دینے، اشتہار کرنے، ان کی حمایت کرنے، راغب کرنے، ان کو اپنا رہنما ، قائد، مشیر اوراہل شوریٰ بنانے سے، ان کی بیوی اور شوہر بننے سے باز آ جائیں اور خود کو، اپنی اولاد کو اور آنے والی نسلوں کو پاگل پن سے بچائیں۔
یہی دماغی عارضہ آپ کو امام مہدی اور دجال کے چناوُ میں دجال کی طرف کرنے والا ہے۔یہ بہت افسوس کی بات ہو گی کہ آپ کا ’’مہدی ‘‘ ابن مال ،دجال بنے۔
Facebook/JawedAnwarPage
X/Asseerah