Skip to content

تعلیم کا مقصد اور مدعا

اسلامی تعلیم کا مقصد دنیا و آخرت کی بھلائی، اخلاق و کردار کی تعمیر اور انسان کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنانا ہے۔

جاوید انور

"اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔" (البقرہ، آیت 201)

اس دعا سے ہمیں ابتدا ہی میں یہ واضح ہوجانا چاہیے کہ صرف وہی نظامِ تعلیم درست ہے جو اس دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی (حسنات) کا ذریعہ ہو۔ یہی مسلمان نظام تعلیم کا اصل مقصد اور مدعا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نظام تعلیم سو فیصد اس مقصدِ حیات کے تابع ہونا چاہیے، جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے:

"میں نے جنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی (اطاعت) کریں۔"(الذاریات، آیت  56)

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خالق اور پروردگار چاہتا ہے کہ اُس کی یہ بہترین مخلوق (انسان) بھی اسی طرح اُس کی اطاعت کرے جیسے باقی تمام مخلوقات پہلے ہی اُس کے حکم کے تابع ہیں۔

" اور کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے کہ اس کا سایہ کس طرح اللہ کے حضُور سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں گرتا ہے؟  سب کے سب اِس طرح اظہارِ عجز کر رہے ہیں ، زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں۔ وہ ہر گز سرکشی نہیں کرتے، اپنے ربّ سے جو اُن کے اُوپر ہے، ڈرتے ہیں اور جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔"
( النحل 49 تا 50 )

چنانچہ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کا مطیع اور ہدایت یافتہ بنے۔ اور اُس کی عملی مثال اللہ کے رسول محمد ﷺ کی ذات ہے:   ’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘(الاحزاب  آیت 21)۔"اور یقیناً تم اخلاق کے ایک نہایت بلند مرتبہ پر ہو۔"(القلم  آیت 4 )۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ اعلیٰ درجے کے اخلاق سکھاؤں۔"(الادب المفرد للبخاری، حدیث 273؛ موطا امام مالک، کتاب 47، حدیث 8)

لہٰذا مسلمان نظام تعلیم کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ طلبہ میں بہترین اخلاق کی صفات پوری طرح پیدا کی جائیں۔

انسان کو اللہ نے زمین پر خلیفہ بنایا ہے:’’یاد کرو، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔"(البقرہ آیت  30)  خلیفہ کو حکمرانی کے لیے تعلیم یافتہ، عالم اور دانا ہونا ضروری ہے۔ قرآن نے تعلیم کی اہمیت کو بار بار اجاگر کیا ہے۔ سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کو علم و حکمت عطا کیا گیا، جس سے انسان فرشتوں پر برتر ثابت ہوا  :  ’’پھر اس نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے، اور پھر اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا: اگر تمہارا خیال صحیح ہے تو مجھے ان کے نام بتاؤ۔"(البقرہ آیت 31)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلام کی روحانی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی و سائنسی علوم بھی مطلوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو ٹیکنالوجی کا علم بھی عطا فرمایا:   ’’اور داؤد کے لیے ہم نے لوہا نرم کر دیا۔ کہ مکمل زرہیں بناؤ اور حلقوں کی درست انداز میں کشادگی رکھو، اور نیک عمل کرو۔‘‘(سبا، آیات 10 تا11 )۔رسول اکرم ﷺ پر سب سے پہلی وحی انہی الفاظ سے شروع ہوئی’’ :پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔" (العلق، آیت 1 ) اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر فرد کے اندر بہترین اخلاق و کردار پروان چڑھے۔ قرآن نے رسول کے مشن کو اس طرح بیان کیا ہے:

" اور اے رب ، ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو ، جو انھیں تیری آیات سنائے ،  ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔  تُو بڑا مقتدر اور حکیم ہے ۔" (البقرہ، آیت 129 )یہی صالح کردار کے حامل مومن وہ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:    " یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔  اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔  ۔ (الحج ، آیت 41)اسلام میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، جیسا کہ متعدد احادیث میں آیا ہے۔ تعلیم محض سماجی ضرورت نہیں بلکہ روحانی اور نفسیاتی ضرورت بھی ہے۔جہاں مغرب تعلیم کو صرف مادی ترقی اور دولت کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے، وہاں اسلام اسے انسانی وجود اور عزت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ قرآن نے آدمؑ کو علم کی بدولت فرشتوں پر فوقیت دی۔ رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے تاریخ میں پہلی بار ایک لازمی نظام تعلیم قائم کیا۔اسلام کے پیغام کی اشاعت خطبہ، وعظ اور نصیحت کے ذریعے ہوئی، جس سے ایک باضابطہ تعلیمی نظام نے جنم لیا تاکہ علم و حکمت والے افراد تیار ہوں۔

مکہ میں ابتداء ہی میں نبی ﷺ نے دار ارقم کے نام سے پہلا مدرسہ قائم فرمایا۔ مدینہ میں ’’صفہ‘‘ کا تعلیمی ادارہ بنایا گیا، جہاں استاد خود رسول اللہ ﷺ تھے اور شاگرد مہاجر و انصار صحابہؓ۔غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا کہ جو قیدی مسلمانوں کے دس افراد کو پڑھنا لکھنا سکھا دے گا، اُسے آزاد کردیا جائے گا۔ یہ تاریخ میں ایک انوکھا معاہدہ تھا کہ تعلیم کے بدلے آزادی دی گئی۔

حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ہر مفتوحہ علاقے میں گورنر اور قاضی کے ساتھ ایک معلم بھی مقرر کیا گیا۔ آپؓ نے باضابطہ نصابی اور غیر نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کے اساتذہ بھی تعینات کیے۔اگرچہ بنو اُمیہ کے دور میں تعلیم کی کمزوری اور زوال آیا، لیکن خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ نے تعلیمی پالیسیوں کو بحال کیا اور فرمایا: "اللہ نے محمد ﷺ کو محصول جمع کرنے والا نہیں بلکہ لوگوں کا  ہادی اوبنا کر بھیجا تھا۔"

اسلامی نظام تعلیم آفاقی ہے، جو کسی نسلی، قومی، یا لسانی حد بندی کا پابند نہیں۔ یہ تین اصولوں پر قائم ہے:توحیدِ خالق     ،     توحیدِ مخلوق (انسانیت کی وحدت)  اور    یومِ حساب کی جواب دہی۔یہ اصول اسلامی تعلیم کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اسلامی کلاس روم محض دنیاوی تعلیم کا مرکز نہیں بلکہ ذکر و عبادت کی جگہ بھی ہوتا ہے۔

مغربی تعلیم محض پیشہ ورانہ یا مادی ترقی پر مرکوز ہے، جبکہ اسلامی تعلیم روحانی و اخلاقی تربیت کو مقدم رکھتی ہے۔ یہی ماحول امن، محبت، احترام، اخوت، ہمدردی، سخاوت، ضبط نفس، وسعتِ قلبی اور حق کی قبولیت کو پروان چڑھاتا ہے۔

اسلامی تعلیم اس دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ہدف طے کرتی ہے، اور نفرت، خودغرضی، بدتمیزی اور تعصب کو مٹاتے ہوئے محبت، امن اور احترام کو فروغ دیتی ہے۔

AsSeerah  What's App Channel   Follow:  AsSeerah Facebook Page         AsSeerah X     

Be My Friend  https://www.facebook.com/JawedAnwarPage/

Comments

Latest

تعلیم کی ترجیحات

تعلیم کی ترجیحات

اسلام نے تعلیم کو ہر انسان کی بنیادی ضرورت قرار دیا اور قرآن و سنت کو اولین ترجیح دی۔ مغربی مادہ پرست نظام نے ہماری سمت بدل دی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی اصل اسلامی ترجیحات کے مطابق نصاب مرتب کریں تاکہ نئی نسل مقصدِ حیات اور اسلامی تہذیب سے جڑی رہے۔

اسلامی تعلیمی بورڈز کی ضرورت

اسلامی تعلیمی بورڈز کی ضرورت

محمد فاضل علی تعلیمی بورڈز تعلیمی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ طلباء کو اسلامی طور پر ہم آہنگ معیاری تعلیم حاصل ہو۔ تعلیمی بورڈ ایک کمیٹی ہے جو کسی اسکول یا ضلع کے نصاب، پالیسیوں اور کام کے بارے

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے اٹھنے والے سوالات

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے اٹھنے والے سوالات

جاوید انور  امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیو یارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ظہران ممدانی کی مہم کو، خصوصاً پاکستان اور برصغیر کے لوگوں کو، جو امریکہ اور نیو یارک سے مرعوب رہتے ہیں، غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ میئر کا الیکشن نومبر 2025 میں ہوگا۔ ظہران

امریکا مت آئیو

امریکا مت آئیو

جاوید انور  امریکا، وہ خوابوں کی سرزمین، جہاں لاکھوں دل ہر سال اپنی امیدوں کے پر جلاتے ہیں، اب ایک تاریک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں برصغیر کے تارکین وطن نے اپنی محنت کے موتی بکھیرے، اپنی صلاحیتوں سے اس کی گلیوں کو سجایا، اور اپنے