تحریر: حفید اختر مختار
برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن نے 6 اپریل 2024 کو ڈیلی میل کے لیے لکھے گئے ایک مضمون میں کہا تھا کہ اگر یوکرین روس کے خلاف جنگ ہار جاتا ہے تو یہ "مغرب کے غلبے کا خاتمہ" ہوگا، جو مغربی تہذیب کے لیے ایک تباہ کن نتیجہ ہوگا۔ انہوں نے یوکرین کی جنگ اور اس کی کامیابی کو مغربی تہذیب اور جمہوریت کے لیے اہم لمحہ قرار دیا۔ انہوں نے پورے یورپ کو یوکرین کے پیچھے کھڑے ہونے کی اپیل کی تھی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے متعدد مواقع پر یوکرین کی جنگ کو مغربی اقدار، جمہوریت، اور نئے عالمی نظم (New World Order) کے تناظر میں اہم قرار دیا۔ اسرائیل بھی مغرب کی نظر میں مشرق وسطیٰ میں صہیونیت اور مغربیت کے غلبے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس لیے پوری مغربی دنیا، یورپ اور شمالی امریکا کا یہ فریضہ بن چکا ہے کہ اسرائیل کی ہر جارحیت کی حمایت کی جائے اور اس کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔
دوسری طرف، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ حالاتِ حاضرہ، مغربی سیاست، اور جغرافیائی سیاست (Geo-Politics) کو اس کے صحیح (اسلامی، الہامی، فطری) تناظر میں سمجھنے والے ناپید ہو چکے ہیں۔ کچھ اسلامی اسکالرز ہر بڑے واقعے کو کسی حدیث سے جوڑ کر قیامت کی نشانیوں یا دورِ آخر کے سنگِ میل سے تعبیر کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ کچھ نام نہاد اسکالرز مغربی تہذیب کے نمائندہ بن چکے ہیں، جن کی سوچ اور اپروچ لبرل ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک مسلم، تحریکی اسلامی کے فرد، داعی گروہ، یا اسلامی مشنری قوم کی حیثیت سے ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے؟ ان حالات میں ہمارا درست رویہ اور طرزِ عمل کیا ہو؟ اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔ درست تجزیہ ہی درست لائحہ عمل کی طرف لے جا سکتا ہے، جو کہ موجود نہیں ہے۔
11 فروری 1979 کو امام خمینی کی قیادت میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا۔ امریکا، مغرب، اور مغربی تہذیب کا سب سے بڑا ایجنٹ، شاہ رضا پہلوی، کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ ایران کے علمائے کرام نے اقتدار مکمل طور پر سنبھال لیا، اور امریکا کے حمایتی فوجی جرنیلوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا۔ وہاں کا نظام بدل گیا، اور ایران کا نیا سنہری دور شروع ہوا۔
مارکس نے اپنی کتاب ہیگل کے فلسفہ حق کی تنقید میں شراکت (1843) میں کہا تھا کہ مذہب عوام کی افیون ہے، اور مذہب کے زیرِ اثر کوئی سماجی تبدیلی یا انقلاب نہیں آ سکتا۔ ایران نے علمائے اسلام کی قیادت میں مکمل انقلاب لا کر مارکس کے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔
سوویت یونین اور امریکا، اس وقت کی دو عالمی طاقتیں، ایران کے اسلامی انقلاب کی مخالف ہو گئیں۔ ان کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ اس دور میں اسلام کو کسی ملک میں باضابطہ اقتدار مل جائے گا اور وہ تیسری طاقت بن کر ابھرے گا۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت عثمانیہ کے خاتمے کو 55 سال گزر چکے تھے۔ صہیونی یہودیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکی کی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ ترکی کی خلافت کا خاتمہ باضابطہ طور پر یکم نومبر 1922 کو ہوا، جب ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی نے سلطنت کو ختم کر کے خلافت اور سلطان کے عہدے کو منسوخ کر دیا۔ سلطان محمد ششم کو عہدے سے ہٹا کر جلاوطنی میں بھیج دیا گیا۔ تاہم، خلافت کا ادارہ کچھ عرصہ جاری رہا اور 3 مارچ 1924 کو مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسے مکمل طور پر ختم کر دیا، جس کے بعد جمہوریہ ترکی قائم ہوئی۔ اس جمہوریہ نے ترکی میں اسلام، اسلامی تہذیب، اور عربی کو کچل کر مغربی تہذیب کا مکمل غلبہ قائم کر دیا۔
ترکی کی خلافت کے خاتمے کے بعد صہیونیوں اور مغربی دنیا کا خیال تھا کہ اسلام کی سیاسی طاقت کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ مسلم ریاستیں چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم ہو کر قومی خودغرضی کی شراب پی کر مست ہو چکی تھیں۔ خلافت کے ساتھ ہی مسلم امت کا تصور ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی ریاست کی راہ ہموار ہوئی۔ ترکی کی خلافت کے خاتمے کے بعد ہی فلسطین میں صہیونی ریاست اسرائیل کا قیام ممکن ہوا، جس میں برطانوی سامراجیت کی غنڈہ گردی کا بھی کمال شامل ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 33 ممالک سے اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈلوائے گئے، اور قرارداد 181 (II) دو تہائی اکثریت سے 29 نومبر 1947 کو پاس ہو گئی۔ اس قرارداد کے حق میں سوویت یونین (اب روس) اور یوکرین نے بھی ووٹ دیا تھا۔
ترکی میں اسلام کے ڈوبنے کے بعد جب ایران سے اسلام کا سورج طلوع ہوا تو امریکا، سوویت یونین، اسرائیل، اور بھارت کے راڈار زور سے بجنے لگے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے دوسرے دن ٹائمز آف انڈیا کا اداریہ نویس جو کچھ لکھتا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ٹانگیں کانپ رہی ہوں گی۔ وہ سر پیٹتا ہے کہ "بدقسمتی سے، ہماری غفلت سے، اسلامی انقلاب ہمارے دروازے پر کھڑا ہو کر دستک دے رہا ہے۔" بھارت میں ہندوتوا کا موجودہ عروج بھی اسی خوف کا نتیجہ ہے۔ ایران اور افغانستان میں اسلام کے غلبے نے انہیں پگلا دیا۔ بدقسمتی سے، برصغیر کے علما نے اس انقلاب اور اسے لانے کے طریقہ کار پر کوئی خاص سوچ بچار نہیں کی۔
اسلام کے دشمن تمام ممالک کی پہلی کوشش یہ تھی کہ اس انقلاب کا نور وہاں سے نکل نہ سکے۔ پہلے اسے اپنی سرحد تک محدود کیا جائے، اور پھر مختلف سازشوں (ترکی کے طرز پر) سے اس انقلاب کا خاتمہ کیا جائے، اور وہاں اپنے مطیع بادشاہ پہلوی کو دوبارہ اقتدار تک لایا جائے۔
ایران کے انقلاب کے سال ہی سوویت یونین ایران کے پڑوسی افغانستان میں ایک کمیونسٹ حکومت کے قیام میں کامیاب ہو گیا اور اس کے خلاف مزاحمت کو کچلنے کے لیے 25 دسمبر 1979 کو فوجی جارحیت کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغان مجاہدین اٹھے اور طویل جہاد کے بعد سوویت یونین کا سر کچل دیا۔ اس کے بعد امریکا اپنے اتحادیوں کے تعاون سے افغانستان پر قابض ہوا، لیکن وہ بھی بیس سال کی افغان گوریلا جنگ میں ہار گیا اور افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔
دوسری طرف، عرب عصبیت کو اجاگر کر کے اور اسلامی انقلاب کا خوف دلا کر عرب حکمرانوں کو ایران کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ اس میں شیعہ-سنی کارڈ بھرپور کھیلا گیا۔ شیعوں اور ایران کو کافر قرار دینے کے لیے پوری دنیا میں مسلکی علما کی ایک کھیپ تیار کی گئی، جس میں سعودی عرب اور کویت کے پیٹرو ڈالرز کا خوب استعمال ہوا۔ عرب ممالک نے ایران کے خلاف جنگ کے لیے عراق کو اکسایا، اور بدقسمت صدام حسین ان کے جھانسے میں آ گیا۔ ایران-عراق جنگ تقریباً 7 سال اور 11 ماہ (1980-1988) تک چلی۔
اس جنگ میں دونوں مسلم ممالک کے تقریباً دس لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ایران کی طرف زیادہ اموات ہوئیں۔ عراق نے اس جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں کا بےدریغ اور بےرحمی سے استعمال کیا۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے بےجگری سے لڑائی کی، وہ شہادت کے جذبے سے اسلامی ایران کے دفاع میں لڑ رہے تھے۔ جنگ کے بعد عراق بہت کمزور ہو گیا۔ عرب برادر ممالک، جن کے کہنے پر وہ لڑے، نے جنگ کے قرضے ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ کویت نے چند لاکھ ڈالرز بھی دینے سے انکار کیا۔ اسی وجہ سے عراق نے کویت پر چڑھائی کی۔ پھر امریکا نے کویت کی مالی مدد سے، اربوں ڈالرز خرچ کر کے عراق پر حملہ کیا۔ اب دونوں ممالک کے تیل کے ذخائر اور آمدنی امریکی کمپنیوں کے پاس ہے، ریاست کو صرف کچھ کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔ عرب ممالک، جو عراق کے ساتھ کھڑے تھے، یا تو ان کی حکومتیں بدل گئیں یا اپنی بادشاہت بچانے کے لیے اب اربوں نہیں، کھربوں ڈالرز میں رشوت دینی پڑ رہی ہے۔
ایران اپنی جگہ کھڑا رہا۔ اس نے کبھی بھی امریکی، اسرائیلی، یا کسی کی دھمکی قبول نہیں کی۔ امریکا کی فطرت ہے کہ جب کوئی قوم نڈر ہو کر مقابلے کے لیے کھڑی ہوتی ہے، تو وہ ڈر جاتا ہے۔ امریکا نے عراق، کویت، لیبیا، مصر، شام، سوڈان، صومالیہ، سعودی عرب، امارات، اور اردن کے حکمرانوں کو یا تو بدل دیا یا انہیں اپنا مطیع بنا لیا۔ افغانستان میں بھی اس نے یہی کیا، لیکن وہاں اسلام کی طاقت نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو بیس سالہ جنگ میں کچل دیا۔ اس طرح مسلم دنیا میں صرف ایران اور افغانستان ہی سرخرو ہو کر نکلے، کیونکہ انہوں نے وقت کے طاغوت، فراعنہ، اور سامراجی قوتوں کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ وہ اللہ کی غلامی میں آ چکے تھے، اور اللہ کے آگے سپردگی ہی آزادی کی ضامن ہے۔
امریکا افغان جنگ میں ادھ موا ہو چکا تھا۔ اس لیے امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کے "امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ" کے جھانسے میں آ گئے۔ حالانکہ اصل نعرہ یہ ہے کہ "مرتا اور ڈوبتا امریکا کسی طرح بچاؤ"۔ امریکا کی ریاست ابھی لڑنے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتی۔ لیکن اسرائیل اور امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ڈونلڈ ٹرمپ کو گھسیٹ کر ایران کے خلاف جنگ میں لا رہا ہے۔
اس جنگ میں کسی بہانے یا حیلے سے ایران کی مخالفت دراصل اسرائیل اور صہیونیت کی براہ راست حمایت اور فلسطین کی مخالفت ہے۔ اگر کوئی مسلم سیاسی یا مذہبی گروہ ایسا کرتا ہے، تو اس کے لیے ذلت مقدر ہے۔
پاکستان کی مقتدرہ اگر ایک بار پھر افغانستان کی طرح ایران کو مروانے کے لیے اپنی بری، بحری، اور فضائی مدد پہنچاتی ہے، ٹھکانے مہیا کرتی ہے، یا ایران سے براہ راست دشمنی مول لیتی ہے، تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ بھارت، افغانستان، اور ایران، یعنی تمام پڑوسی ممالک، پاکستان کے دشمن ہو جائیں گے۔ چین بھی پاکستان کو چھوڑ دے گا۔
امید ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ اس سے باز رہے گی اور ہوش کے ناخن لے گی۔ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ جناب حافظ سید فیلڈ مارشل عاصم منیر صاحب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہی بتایا ہو گا کہ اب امریکا مزید خونی ایڈونچر سے باز رہے، ایران سے پنگا مت لے۔ ہم نیک و بد حضور کو بتائے دیتے ہیں۔