Skip to content

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے اٹھنے والے سوالات

The walk across Brooklyn Bridge, New York

جاوید انور

 امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیو یارک کے میئر کے انتخاب کے لیے ظہران ممدانی کی مہم کو، خصوصاً پاکستان اور برصغیر کے لوگوں کو، جو امریکہ اور نیو یارک سے مرعوب رہتے ہیں، غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ میئر کا الیکشن نومبر 2025 میں ہوگا۔ ظہران ممدانی ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی جیت چکے ہیں۔ بلاشبہ، وہ ایک باصلاحیت شخصیت ہیں اور خود کو مسلم ڈیموکریٹ سوشلسٹ کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک انتہائی کامیاب انتخابی مہم چلائی ہے۔ دیگر سیاستدانوں کی طرح ان کا بھی معاشی ایجنڈا ہے، لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان کا ایجنڈا دوسروں سے بہتر ہے، اور اس کی پیشکش کا انداز اس سے بھی زیادہ پرکشش ہے۔ یہ ایجنڈا مزدوروں اور غریبوں کے لیے موافق ہے۔ وہ سستی گروسری، قابلِ برداشت رہائش، بچوں کے مفت علاج معالجے، اور مفت ٹرانسپورٹ کی بات کرتے ہیں۔ ان کی مہم میں صرف ایک نظریاتی نکتہ نمایاں ہے، یعنی اسرائیل اور نیتن یاہو کے بارے میں ان کے سخت بیانات۔ شاید یہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے امریکی اسرائیل لابی یا ڈونلڈ ٹرمپ ان کا راستہ روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کچھ نہ کریں کیونکہ ممدانی سے مغربی نظام و تہذیب کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 نیو یارک شہر کی آبادی تقریباً 8.4 ملین ہے۔ یہ شہر پانچ بوروز (مین ہٹن، بروکلن، کوئنز، برونکس، اور اسٹیٹن آئیلینڈ) پر مشتمل ہے، جو مل کر ایک میٹروپولیٹن میونسپلٹی بناتے ہیں۔ نیو یارک میں 800 سے زائد لسانی گروہ آباد ہیں۔ یہاں زیادہ تر وہ لوگ رہتے ہیں جن کے ممالک ماضی میں برطانوی یا دیگر مغربی طاقتوں کی کالونیاں تھے اور بعد میں امریکی معاشی کالونیوں میں تبدیل ہوگئے۔ ان ممالک کے وسائل لوٹے گئے اور ان پر کرپٹ اور نااہل مقامی حکمران مسلط کیے گئے، جو امریکی امپائر کے وفادار تھے۔ جب یہ لوگ نیو یارک آتے ہیں تو یہاں بھی وہی مسائل پاتے ہیں جو ان کے اپنے ممالک میں تھے۔ تاہم، یہاں وہ انسانی حقوق، شہری آزادیوں، اور مزدوروں کی تنظیموں و تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ وہ مظاہرے اور ریلیاں نکالتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں اس کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہ عمل ایک طرح کا کیتھارسس فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ویتنام سے آئی ایک چھوٹی قد کی لڑکی جوش و خروش سے نعرے لگاتی ہے۔ لیکن یہ چیخنا، چلانا، اور اچھلنا کودنا نہ تو کسی انقلاب کی طرف لے جاتا ہے اور نہ ہی لے جا سکتا ہے۔ ویسے بھی، خدا سے بیزار لوگوں کا انقلاب پہلے سے زیادہ تباہی لاتا ہے۔ خدا ہمیں ایسے انقلاب سے محفوظ رکھے۔ ہم خود نیو یارک اور وَاشنگٹن میں ایسی ریلیوں اور مظاہروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔

 امریکہ کا تعلیمی نظام کارپوریٹ سیکٹر کے لیے وفادار اور اطاعت گزار  پیداواری کارکن تیار کرنے تک محدود ہے۔ نیو یارک کے اسکولوں میں منشیات کا بےتحاشا استعمال ہوتا ہے، اور زنا بالجبر اور زنا بالرضا بہت کم عمری سے شروع ہو جاتا ہے۔ پرنسپل کے دراز میں طلبہ کے لیے کنڈوم رکھے جاتے ہیں۔ اسکولوں میں طرح طرح کے جنسی کھیل کھیلے جاتے ہیں، جن میں ہارنے والی لڑکی کو اپنا جسم ہارنا پڑتا ہے۔ نیو یارک اسٹیٹ چائلڈ ایبوز رپورٹنگ سسٹم کے مطابق، 2021 میں 8,000 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسکولوں میں غنڈہ گردی، تشدد، اور لڑائی جھگڑے عام ہیں۔ بچوں کے گینگ ہوتے ہیں، جن کے سرغنہ ہوتے ہیں، اور ان کی جیبوں میں پستول اور ریوالور ہوتے ہیں۔ 2022-2023 میں نیو یارک کے اسکولوں میں تشدد کے 3,500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 14 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل تھے۔ امریکہ میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار کم عمر لڑکیاں (19 سال سے کم) حاملہ ہوتی ہیں، جن میں سے کئی ہزار 15 سال سے کم عمر کی ہوتی ہیں۔ صرف نیو یارک شہر میں ہر سال 2,000 سے 3,000 نوعمر لڑکیاں حاملہ ہوتی ہیں، جو رضامندی یا زنا بالجبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہم جنسی کلچر بھی اب عام ہو چکا ہے، جو ڈیموکریٹک لبرل حکومتوں والی ریاستوں اور شہروں میں زیادہ نمایاں ہے۔ اسکولوں، سڑکوں، پارکوں، اور دیگر عوامی مقامات پر دو لڑکوں یا مردوں، اور دو لڑکیوں یا عورتوں کا کھلے عام بوس و کنار کرنا اب "نیو نارمل" بن چکا ہے۔ لڑکوں کی پتلونیں پیچھے سے نیچے لٹکتی ہیں، جو ہم جنسی کلچر کا فیشن ہے۔ لڑکیاں ایسے کپڑے پہنتی ہیں کہ ان کے جسم کا ہر حصہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ امریکی خاندانی نظام ٹوٹ چکا ہے۔ لوگوں میں تنہائی، شادی نہ کرنے، اور زنا کے ذریعے دل بہلانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ شادیاں ہوتی ہیں تو جلد ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہاں 50 فیصد شادیاں طلاق پر ختم ہوتی ہیں۔ سنگل ماں اور سنگل باپ والے گھرانوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کی روحانی دنیا تاریک سے تاریک تر ہوتی جا رہی ہے۔

گزشتہ سال میں ٹورنٹو سے نیو یارک بس کے ذریعے سفر کیا۔ یہ سفر 11 سے 13 گھنٹوں کا ہوتا ہے۔ اب سرحد کے دونوں طرف تفریحی بھنگ (Marijuana) کو قانونی حیثیت حاصل ہے، جس کے باعث نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ بس کے سفر میں ایک شخص ملا جو نشے کی حالت میں تھا، اسے اپنے جسم پر قابو نہیں تھا، اور اس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ یہ میرے برداشت سے باہر تھا، اور اس کے بعد میں نے بس سے امریکہ جانے سے توبہ کر لی۔

 نیو یارک ڈاؤن ٹاؤن میں صبح سویرے پہنچا تو سڑک پر کئی مرد و خواتین زور زور سے لڑ رہے تھے۔ کم از کم ایک لڑائی جسم فروشی کی پوری قیمت نہ ملنے پر تھی۔ انگریزی کے ناشائستہ الفاظ کا خوب استعمال ہو رہا تھا۔ یہ منظر نیو یارک میں عام ہے، لیکن اب اس میں بےتحاشا اضافہ ہو گیا ہے۔ نیو یارک ایک گندا شہر ہے۔ یہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے، اور سڑکوں، پارکوں، اور عوامی مقامات پر صفائی کا نظام ناقص ہے۔ سب وے کا سفر گندگی کی وجہ سے مشکل ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مغرب اپنے تاریک دور میں، جو زیادہ پرانا نہیں، غلاظت کا ڈھیر تھا۔ فرانس میں جب مذہبی لوگ چلتے تھے تو ان کے گرد مکھیوں کے غول بھنبھناتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اعلیٰ جمالیاتی حس رکھنے والے مسلم فاتحین وہاں تک نہیں پہنچے۔ نیو یارک کی سب وے میں اکثر جب کوئی ہوم لیس شخص اپنے کپڑوں میں غلاظت لے کر ڈبے میں داخل ہوتا ہے تو مسافر وہ ڈبہ چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن اب لوگ اس کے عادی ہو رہے ہیں اور اپنی برداشت بڑھا رہے ہیں۔ نیو یارک میں رہنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کم معاوضے والی نوکریاں کرتی ہے۔ انہیں ہفتہ وار تنخواہ ملتی ہے، جو جمعہ کی شام کو مل کر ہفتے کے آخر میں خرچ ہو جاتی ہے۔ شراب، زنا، اور جوا ان کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ہفتہ بھر کا میٹرو کارڈ لے کر وہ پیر سے خالی جیب کے ساتھ  جاب شروع کرتے ہیں۔ نیو یارک کے معاشی مسائل ہیں، جیسے دنیا بھر کے ہیں، لیکن اس کے اخلاقی اور روحانی مسائل کہیں زیادہ سنگین ہیں۔

 مسلمانوں کے پاس کتاب، ہدایت، اور ایک زبردست خاندانی نظام تھا۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچے، خالہ، پھوپھی، ماموں، دادا، دادی، نانا، نانی، بھتیجے، بھانجے، اور ان تمام رشتوں میں سمایا ہوا ایک روحانی نظام تھا۔ ایک شاندار تعلیمی اور تربیتی نظام بھی موجود تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں نے امریکی قوم اور معاشرے کو کچھ نہیں دیا۔ بلکہ بہت سے مسلمان مغربی تہذیب کی غلاظت میں ڈوب کر اس پر فخر کرنے لگے ہیں۔ یہ تمام باتیں ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے تعلق نہیں رکھتیں۔ بلکہ، وہ ان برائیوں کو "حقوق" کے دائرے میں رکھ کر ان کے چیمپئن  ہی بنیں گے۔ عام مسلمانوں کی بات چھوڑیں، وہ لوگ جو دعوت دین، تبلیغ دین، اقامت دین، شہادتِ حق، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے داعی تھے، اور نسلی قومیت کے بجائے خود کو مشنری قوم کا فرد سمجھتے تھے، ان کا اسلام بھی نیو یارک میں ہر ہفتے کھانا تقسیم کرنے اور چند امدادی کاموں تک محدود ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کا مشن انبیائی فرائض ادا کرتے ہوئے انسانوں کو انصاف اور حقوق دلانا تھا، لیکن ہم خود اپنے حقوق کی بھیک مانگنے لگے ہیں۔ آج کا مسلمان مسلم قوم پرست ہے، جس کا کام صرف مسلم حقوق کی لڑائی لڑنا ہے۔ نتیجتاً، وہ عملاً اسلام کا دشمن اور اپنی قومی خواہشات و مفادات کا غلام بن چکا ہے۔ ظہران ممدانی اور دنیا بھر کے سیکولر سیاستدان ترقی کو خدا بنا کر اور معاشی ایجنڈوں پر جتنی بھی انتخابی جنگیں لڑ لیں، وہ معاشرے کی اخلاقیات، روحانیت، اور معیشت کو تباہ کریں گے۔ ان سے اس دنیا کے انسانوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ امریکی انسان جہنم کی طرف دوڑ رہا ہے، اور ہمارے چہروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے دل و دماغ میں کوئی طوفان یا آہٹ نہیں اٹھتی۔ یہی سب سے افسوسناک بات ہے۔

jawed@seerahwest.com

Comments

Latest

امریکا مت آئیو

امریکا مت آئیو

جاوید انور  امریکا، وہ خوابوں کی سرزمین، جہاں لاکھوں دل ہر سال اپنی امیدوں کے پر جلاتے ہیں، اب ایک تاریک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں برصغیر کے تارکین وطن نے اپنی محنت کے موتی بکھیرے، اپنی صلاحیتوں سے اس کی گلیوں کو سجایا، اور اپنے

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

ایران کی قائدانہ صلاحیت اور امتِ مسلمہ

جاوید انور دیکھیے، یہ ’’امت‘‘ کی آواز کہاں سے بلند ہو رہی ہے؟ ذرا کان لگائیے۔ خلافت کے خاتمے کے بعد مسلم امت قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی تھی، اور اس کی پکار دب گئی تھی۔ کسی قومی رہنما یا فوجی سربراہ نے امتِ مسلمہ کو کبھی متحدہ طور پر

ایران کی طاقت

ایران کی طاقت

جاوید انور نئی عالمی جنگ القدس کے گرد گھوم رہی ہے، جسے بعض تیسری یا آخری عالمی جنگ کی ابتدا بھی کہتے ہیں۔ فلسطین کی آزادی کی یہ جنگ اسلام اور شہادت کے جذبے سے سرشار انتفاضہ اور فلسطینی نوجوانوں کے غلیل سے شروع ہوئی۔ ان نوجوانوں کو حماس جیسی

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

اسلامی انقلاب کیسے؟  سید مودودؒی کا اصل موقف: اُن کی تحریروں اور واقعاتی شواہد کی روشنی میں

تحریر: ثروت جمال اصمعی، کراچی (مصنف پاکستان کے سینئر صحافی اور جماعت اسلامی پاکستان کے رکن ہیں۔ ان کے والد مرحوم بھی جماعت کے رکن تھے۔ ایڈیٹر السیرہ اردو) کیا پاکستان میں پہلے عام انتخابات کے تجربے کے بعد سید مودودیؒ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ انتخابی سیاست